کولن پاول: امریکہ کے پہلے سیاہ فام وزیرِ خارجہ کون تھے اور عراق پر حملے میں اُن کا کیا کردار تھا؟


Colin Powell
امریکہ کے پہلے افریقی نژاد امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول نہایت سادہ پس منظر رکھنے والے شخص تھے۔

متعدد اعزازات حاصل کرنے والے ان فوجی افسر نے ویتنام بھی خدمات انجام دیں۔ اس تجربے نے بعد میں انھیں اپنی فوجی و سیاسی حکمتِ عملی تیار کرنے کا موقع فراہم کیا۔

وہ صفِ اوّل کے کئی امریکی سیاست دانوں کے قابلِ اعتماد فوجی مشیر رہے۔ اور خود بھی عراق جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے کے باوجود اُنھوں نے عراق جنگ کی حمایت میں عالمی برادری کی رائے ہموار کرنے میں کردار ادا کیا۔

کولن لوتھر پاول پانچ اپریل 1937 کو نیو یارک شہر کے علاقے ہارلیم میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والدین جمیکا سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن تھے۔

وہ اپنے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ایک عام سے طالبعلم تھے جنھوں نے کسی ٹھوس کریئر منصوبے کے بغیر ہائی سکول مکمل کیا تھا۔

جب وہ سٹی کالج آف نیو یارک میں ارضیات کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُنھوں نے مستقبل کی فوجی قیادت تلاش کرنے کے لیے وضع کیے گئے پروگرام ریزرو آفیسرز ٹریننگ کور (آر او ٹی سی) میں شمولیت اختیار کر لی۔

پاول نے بعد میں اسے اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار تجربہ قرار دیا: ‘مجھے نہ صرف یہ پسند تھا بلکہ میں اس میں کافی ماہر بھی تھا۔’

وہاں سے 1958 میں گریجویٹ ہونے کے بعد اُنھوں نے امریکی فوج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا۔

اُنھوں نے بنیادی تربیت جارجیا میں حاصل کی جہاں اُن کی رنگت کے باعث اُنھیں شراب خانوں اور ریستورانوں میں اکثر سروس مہیا نہ کی جاتی۔

سنہ 1962 میں وہ صدر کینیڈی کی جانب سے جنوبی ویتنام بھیجے گئے ہزاروں مشیروں میں سے ایک تھے جن کا کام مقامی فوج کو شمالی کمیونسٹوں سے لاحق خطرے کے خلاف مضبوط کیا جا سکے۔

اپنے دورے میں پاول پونجی سٹک کہلانے والی ایک تیز دھار لکڑی پر پیر رکھنے کے باعث زخمی ہو گئے تھے جو اسی مقصد کے لیے زمین میں چھپائی گئی تھی۔

پھر سنہ 1968 میں وہ دوبارہ ویتنام گئے جہاں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جلتے ہوئے ملبے سے تین سپاہیوں کو بہادرانہ انداز میں بچانے کے لیے اعزاز سے نوازا گیا۔

کولن پاول

کولن پاول 35 سال تک حاضرِ سروس فوجی رہے اور فور سٹار جنرل کے عہدے تک پہنچے

اُنھیں ایک حاضرِ سروس فوجی کے خط کی تفتیش پر مامور کیا گیا۔ اس خط کے باعث مارچ 1968 میں مائی لائی کے مقام پر قتلِ عام کے الزامات کو تقویت ملی تھی جس میں امریکی فوجیوں نے بچوں سمیت سینکڑوں عام شہریوں کو قتل کیا تھا۔

پاول اس نیتجے پر پہنچے کہ ‘اس رخ کے براہِ راست متضاد بات یہ ہے کہ امریکی فوجیوں اور ویتنام کے لوگوں کے درمیان تعلقات زبردست ہیں۔’ اُن کا یہ تبصرہ امریکی فوجیوں کے ویتنامی شہریوں سے ظالمانہ سلوک کے بڑھتے ثبوتوں کا مذاق اڑاتا رہا۔

بعد میں اُن پر اس قتلِ عام کی خبروں پر ‘سفیدی پھیرنے’ کا الزام عائد کیا گیا جس کی تفصیلات سنہ 1970 تک عوامی معلومات میں نہیں آئی تھیں۔

ویتنام سے لوٹنے کے بعد پاول نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا جس کے بعد اُنھیں وائٹ ہاؤس میں صدر رچرڈ نکسن کے تحت ایک قابلِ قدر فیلوشپ ملی۔

پاول اب ایک ابھرتا ہوا ستارہ تھے۔ وہ کچھ عرصے کے لیے جنوبی کوریا میں لیفٹیننٹ کرنل رہے جس کے بعد وہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں سٹاف افسر کے طور پر تعینات کر دیے گئے۔

کولن پاول، ڈک چینی

وزیرِ دفاع ڈک چینی جنرل کولن پاول سے 1989 میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدے کا حلف لے رہے ہیں۔ جنرل پاول کی اہلیہ ایلما نے بائبل تھام رکھی ہے۔

ایک آرمی کالج میں کچھ وقت خدمات انجام دینے کے بعد اُنھیں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی جس کے بعد اُنھوں نے 101 ویں ایئربورن ڈویژن کی کمانڈ کی۔

اس کے بعد وہ حکومتی مشیر بن گئے۔

کچھ عرصے کے لیے وہ صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ میں موجود رہے اور اس کے بعد وہ وزیرِ دفاع کیسپر وائنبرگر کے سینیئر فوجی معاون بن گئے جنھیں نئے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے تعینات کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جب امریکہ نے کویت کی آزادی کی جنگ لڑی

’صدام کی پھانسی پر امریکی فوجی بھی روئے‘

پاکستان میں امریکی کارروائی کو ’آخری وقت پر منسوخ‘ کروانے والے رمزفیلڈ کون تھے

سنہ 1987 میں کولن پاول مشیرِ قومی سلامتی بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ جنوبی امریکہ میں ‘گندی جنگیں’ کہلانے والے تنازعات میں ملوث رہا جن میں نکاراگوا کی دائیں بازو کے جنگجو گروہ کونٹرا کی امریکی حمایت شامل ہے۔

جب سنہ 1989 میں جارج بش سینیئر صدر بنے تو کولن پاول کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کر دیا گیا جو امریکی محکمہ دفاع کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ ہے۔

باون سال کی عمر میں وہ اس عہدے پر آنے والے کم عمر ترین اور پہلے افریقی امریکی افسر تھے۔

کولن پاول

کولن پاول پہلی خلیجی جنگ کی شروعات سے قبل پینٹاگون میں ایک بریفنگ کے دوران

اس کے کچھ ہی عرصے بعد اُن کے سامنے ایک بحران موجود تھا جب دسمبر 1989 میں امریکہ نے پاناما پر حملہ کر کے وہاں کے ڈکٹیٹر جنرل نوریگا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اقوامِ متحدہ نے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔

سنہ 1990 میں جنگِ خلیج کے دوران نام نہاد ‘پاول نظریہ’ کہلانے والی حکمتِ عملی کا نفاذ کیا گیا۔

بنیادی طور پر کولن پاول سمجھتے تھے کہ جب تک تمام امریکہ کے تمام سفارتی، سیاسی اور اقتصادی طریقے ناکام نہیں ہو جاتے تب تک اسے فوجی طاقت استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

مگر ایک مرتبہ جب فوجی ایکشن لانچ کر دیا جائے تو پھر امریکی جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے اور دشمن پر فوری قابو پانے کے لیے طاقت کا بلند ترین استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ عوامی حمایت بھی ضروری ہے۔

کولن پاول

کولن پاول سعودی عرب میں امریکی فوجیوں سے ملاقات کے دوران

اُن کی سوچ زیادہ تر اس عزم پر مبنی تھی کہ امریکہ کو اب ویتنام جیسے ایک طویل اور بے فائدہ تنازعے میں نہیں الجھنا چاہیے۔

پاول نے ابتدا میں وزیرِ دفاع ڈک چینی کی امیدوں کے برعکس خلیج میں طاقت کے استعمال کی مخالفت کی تھی۔

تاہم آپریشن ڈیزرٹ سٹورم اور آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ کی کامیابی نے کولن پاول کا نام بین الاقوامی سطح پر مشہور کر دیا۔

اس کے بعد وہ نئے صدر بل کلنٹن کے دورِ صدارت کے ابتدائی مہینوں میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہے تاہم اُنھیں ایک لبرل انتظامیہ کے ساتھ کام کرنا مشکل لگنے لگا تھا۔

ہم جنس پرستوں کو فوج میں شامل ہونے کی اجازت دینے پر اُنھوں نے صدر کلنٹن سے اختلاف کیا جبکہ بوسنیا میں امریکی فوجی مداخلت کے معاملے پر اقوامِ متحدہ میں اس وقت کی امریکی سفیر میڈیلین البرائٹ سے عوامی سطح پر اختلاف کا اظہار کیا۔

جارج بش، کولن پاول، ڈک چینی

کولن پاول اور نائب صدر ڈک چینی نومبر 2000 میں صدر جارج بش کے ساتھ

کولن پاول اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ صرف امریکی مفادات کو خطرہ ہی کسی فوجی کارروائی کا جواز ہو سکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا: ‘امریکی سپاہی کوئی کھلونے نہیں جنھیں کسی عالمی گیم بورڈ پر ادھر سے اُدھر کیا جاتا رہے۔’

سنہ 1993 میں اُنھوں نے فوج چھوڑ دی اور اپنی سوانح حیات پر کام شروع کر دیا جو نیویارک ٹائمز کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں اول نمبر تک جا پہنچی۔

اس کے علاوہ وہ فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے۔

اب وہ فوجی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے تھے چنانچہ اُنھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ دونوں ہی سیاسی جماعتوں میں اُنھیں پسند کرنے والے لوگ موجود تھے چنانچہ اُنھیں ڈیموکریٹس اور رپبلکنز دونوں ہی نے نائب صدر بنانا چاہا۔ اُنھوں نے خود 1995 میں رپبلکنز کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔

یہ باتیں بھی ہوئیں کہ وہ 1996 کے صدارتی انتخابات میں بل کلنٹن کے خلاف کھڑے ہوں گے لیکن پاول اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن میں سیاسی کریئر کے لیے جذبہ نہیں ہے۔

سنہ 2000 میں جارج بش نے کولن پاول کو وزیرِ خارجہ مقرر کر دیا۔

کولن پاول، بش،

آپریشن ڈیزرٹ سٹورم کے کمانڈرز بشمول جنرل کولن پاول سنہ 2018 میں صدر جارج بش سینیئر کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں

گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اُن کا سامنا سخت عزائم رکھنے والے لوگوں بشمول وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ سے ہوا جو دیگر اقوام کی حمایت کے بغیر بھی فوجی مداخلت کے حق میں تھے۔

یہ جنگ ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ’ کہلائی جانے لگی۔

پاول نے اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے عراق میں امریکی مداخلت کی مخالفت کی لیکن پھر بش کی حمایت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اصول پسند شخص کے طور پر مشہور ہونے کی وجہ سے وہ سنہ 2003 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل می دنیا کو اس جنگ پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

صرف 18 ماہ بعد جب صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا تو پاول نے تسلیم کیا کہ عراقی ڈکٹیٹر کے پاس ‘وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتیھاروں’ کی موجودگی کے متعلق انٹیلیجنس رپورٹس تقریباً مکمل طور پر غلط تھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی اُنھوں نے بطور وزیرِ خارجہ استعفیٰ دے دیا۔

وہ متعدد سیاسی معاملات پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے اور اُنھوں نے کئی معاملات پر بش انتظامیہ کی مخالفت بھی کی جس میں حکومت کا گوانتانامو کے قیدیوں سے رویہ شامل تھا۔

سنہ 2008 میں اُنھوں نے صدر کے عہدے کے لیے بارک اوبامہ کی حمایت کی۔

کولن پاول، ڈونلڈ رمزفیلڈ

کولن پاول اور ڈونلڈ رمزفیلڈ

کولن پاول کے سفارتی ہنر کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ وہ دونوں سیاسی دھڑوں میں اتحادی رکھتے تھے۔

دوستانہ شخصیت رکھنے والے کولن پاول کو محکمہ خارجہ میں کافی عقیدت سے دیکھا جاتا تھا۔

وہاں پر اپنے عہدے کے باوجود دوسروں سے احترام اور آسان رویے میں پیش آنے کے باعث وہ مشہور تھے۔

اُن کی سب سے بڑی کامیابی یہ یقین تھا کہ اتحاد تنازع کے مقابلے میں زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔

ڈونلڈ رمزفیلڈ کے یکطرفہ مداخلت کے نظریے کی مخالفت کے باعث امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عالمی اتحاد بنا سکا۔

اُنھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ‘جنگ آخری حربہ ہونی چاہیے۔ اور جب بھی ہم جنگ میں جائیں تو ہمارے پاس ایسا مقصد ہونا چاہیے جسے ہمارے لوگ سمجھ سکیں اور جس کی حمایت کریں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments