کہانی بڑے گھر کی


طاقت کے کھیل میں لڑائی کے اُصول طے کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ کس وقت پر کس رِنگ میں کون سے پہلوان اُتارنے ہیں، کیسی ٹیم کھلانی ہے اور جیتنے کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اچھے کپتان ساری توقعات کسی ایک کھلاڑی سے نہیں لگاتے بلکہ ہر ایک کا بیک اپ ضرور رکھتے ہیں۔

بُرا ہو ستاروں کی چال کا، نہ عطارد زوال پذیر ہوتا، نہ ہی زُحل اپنے خانے سے نکل کھڑا ہوتا، نہ سُورج اپنی جگہ بدلتا اور نہ ہی چاند نمودار ہوتا۔ بس سُورج کی جگہ بدلنے کی دیر تھی کہ اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے اور انھی گھڑیوں میں زوال کا وقت حاوی ہوا اور اب سُورج پھر بڑے گھر میں ہے۔

سیاست اور کھیل میں بس یہی فرق ہے کہ سیاست میں ہر ستارے کو اپنے آنگن میں اُتارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور زوال کے وقت صبر جبکہ عروج کے لیے تگ و دو کی جاتی ہے۔

موجودہ ’پراجیکٹ تبدیلی‘ کے لیے ہر جتن کیا گیا۔ بڑے گھر نے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال لیے تو چھوٹے گھر نے بھی سارا جُوا ایک ہی شخصیت پر لگا دیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں اس وقت دل گرفتہ ہیں اور جنتری سے نئے منتر نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

گذشتہ دو ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری ’سمری اننگ‘ کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات تو طے ہے کہ ہاتھوں سے کبوتر نکالتے نکالتے طوطے اُڑائے جا چُکے ہیں۔ اب ایک طرف کمانیں تبدیل ہو رہی ہیں تو دوسری جانب الوداعی ملاقاتیں۔۔۔ یہ تو طے ہے کہ ادارہ کبھی اپنے ’باس‘ کو بائے پاس نہیں کرتا اور نہ ہی فیصلے واپس لیے جاتے ہیں۔ پہلے کبھی ہوا نہیں اور اب بھی ایسا سوچا نہیں جا سکتا۔

ہونی کو کون ٹال سکتا ہے کچھ ادارے کے پاس تقرریوں کے لیے وقت کی قلت اور کچھ بگڑی ہوئی چیزوں کو درست کرنے کا احساس، دن بہ دن بگڑتی معیشت اور آنے والے دنوں میں مزید اہم تعیناتیاں۔۔۔

سیاسی جماعتیں ہوں یا عدالتی معاملات وقت آ گیا ہے کہ بگاڑ کو سُدھار کی جانب لے جایا جائے۔ ادارے کے لیے اہم یہی تھا کہ وقت اور حالات کے پیش نظر فیصلے کیے جائیں مگر یہ خیال نہ تھا کہ فیصلے پر فیصلہ بھی سُنایا جائے گا؟ یہ دھچکا بہرحال لگ چُکا ہے، اب اس دھچکے کے بعد کیا ہو گا یہ وہ سوال ہے جو اسلام آباد میں ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے۔

گذشتہ چند دنوں کی دھول اب تک نہیں بیٹھی۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا؟ مملکت کے معاملات کیسے چلائے جائیں؟ معیشت اور سیاست بند گلی میں کھڑی ہے، حکومت غیر مقبول اور عوام مضطرب۔ اس سے قبل کہ غیر یقینی صورت حال حالات کو ہی قابو میں کر لے، اب کرنا کیا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ ایک طرف ایف اے ٹی ایف کی تلوار اور دوسری جانب دُنیا بد اعتماد، آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی پاکستان کے گرد کسا جا چُکا ہے۔ کیا ان حالات میں کوئی سیاسی جماعت ملک سنبھالنے کو تیار ہو گی؟

کیا وقت آ گیا ہے کہ فوج کا منظم ادارہ بنگلہ دیش کی طرح سب سیاسی جماعتوں کو بٹھائے اور قومی ڈائیلاگ کا آغاز کرے؟ صاف شفاف انتخابات کرائے اور ملک سیاستدانوں کے حوالے کر کے اپنا بُنیادی کردار ادا کرے؟

یہ سب سوال مشکل ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ آج بھی میثاق معیشت پر بات ہو سکتی ہے۔ حزب اختلاف کی سنجیدہ سیاسی جماعتیں ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کو اختیار کریں یا قلیل المدتی حکومت بنائیں، یہ طے ہے کہ کوئی ایک جماعت حکومت نہیں چلا پائے گی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو سیاسی شہادت دیے بغیر تبدیلی کیسے لا سکتی ہیں اور نظام گرنے سے کیسے بچا سکتیں ہیں۔ یہ دونوں بڑی جماعتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اس سب کے لیے اپوزیشن کو جلد ایک صفحے پر آنا ہو گا۔

اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اب تبدیلی کے اس چرخے میں کون کون آئے گا؟ سیاسی چال ستاروں کے حال سے زیادہ اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments