کمرشل یا سیاسی حکمت عملی: چین نے دنیا بھر کی اہم بندرگاہوں کے نیٹ ورک پر کیسے کنٹرول حاصل کیا؟


چین، بندرگاہ، جہاز، تجارت، سرمایہ کاری
ایک دور تھا جب یونان کی بندرگاہ پیرایوس کو ایشیا سے یورپ آنے والی مصنوعات کا ’عظیم دروازہ‘ تصور کیا جاتا تھا۔ اب یہی ’عظیم دروازہ‘ عالمی سطح پر بندرگاہوں کے سٹریٹیجک نیٹ ورک میں چینی کمپنیوں کے پھیلاؤ کی ایک مثال بن گیا ہے۔

سنہ 2008-09 کے بحران کے بعد یونان نے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد حاصل کی اور پھر اپنے قرضے ادا کرنے کے لیے اصلاحات اور نجکاری کا عمل شروع کیا۔

چینی سرکاری کمپنی ’کوسکو‘ نے درپیش بحران کے باوجود اسے یونان کی بندرگاہوں کی صنعت میں داخل ہونے کا سنہرا موقع سمجھا۔ کچھ ہی عرصے میں چینی کمپنی ’کوسکو‘ نے بندرگاہ ’پیرایوس‘ کے 51 فیصد شیئرز خرید لیے۔ یہ ایسا معاہدہ تھا جس کے تحت ’کوسکو‘ کو پانچ برس کی مدت میں اس بندرگاہ کے 67 فیصد کا مالک بن جانا تھا۔

اور رواں ماہ اکتوبر کے اوائل میں ایسا ہو چکا ہے۔

اس کامیابی کے بعد بیجنگ اب دنیا کی اہم ترین بندرگاہوں میں سے ایک کا انتظام سنبھال رہا ہے۔ یہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے۔

یہی کمپنی اب جرمنی کی بندرگاہ ہیمبرگ میں حصہ خریدنے کی بات چیت کر رہی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو یہ کوسکو کی یورپ میں آٹھویں بندرگاہ میں سرمایہ کاری ہو گی۔

ایک دوسری چینی کمپنی شنگھائی انٹرنیشنل پورٹ گروپ نے حال ہی میں اسرائیلی بندرگاہ حیفا کا انتظام سنبھالا ہے۔

یہ بندرگاہوں کا کنٹرول حاصل کرنے اور ان کا نیٹ ورک بنانے کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ یہ گذشتہ برسوں کے دوران چین کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرمایہ کاری کرنا ہے۔

ماہرین نے بی بی سی منڈو کو بتایا ہے کہ چین کی جانب سے اس مقصد کے حصول کے لیے علاقائی اعتبار سے اہم بندرگاہوں کا کنٹرول حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

مختلف اعداد و شمار کے تحت چینی کمپنیاں اب 60 سے زیادہ ملکوں میں 100 سے زیادہ بندرگاہوں کا انتظام سنبھال چکی ہیں۔

اقوام متحدہ میں تجارت اور ترقی کے ادارے ’یو این سی ٹی اے ڈی‘ میں ٹریڈ لاجسٹکس یونٹ کے سربراہ جین ہوفمین کہتے ہیں کہ ’کنٹینر بندرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری سے ان کے لیے بحری آمد و رفت کا رابطہ اور اوسط بڑھ گئی ہے۔‘

اس سے انھیں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل ہوئی ہے جس سے وہ بندرگاہوں کی صنعت میں مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ رابطوں میں بہتری آئی ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے کیونکہ چینی کمپنیاں ہورٹ ٹرمینلز پر اپنی سروسز لائی ہیں۔

طاقت کا مظاہرہ

برطانیہ میں یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں کاروبار، بینکاری اور مالیاتی امور کے پرفیسر سیم بیٹسن کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے چین میں سیاسی اور کاروباری حلقوں میں اعلیٰ قیادت کو معلوم ہے کہ ماضی میں انھوں نے دنیا کے دوسرے حصوں میں ترقیاتی مواقع گنوا دیے تھے۔

مگر کچھ سال قبل انھوں نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں۔

چین، صدر شی جن پنگ

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’چین اب پھیلاؤ، اثر و رسوخ اور گزرے وقت کا ازالہ چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہ طاقت کے مظاہرے کی بھی خواہش ہے۔ لیکن میری رائے میں یہ دھمکی آمیز طرز کے لیے نہیں کیا جا رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چینی کمپنیوں کی بندرگاہوں کی حکمت علی میں اہم بات ان کے عالمی بحری کاروبار میں بڑھتا کنٹرول اور کارکردگی ہے۔ اور اس میں قریبی ترقیاتی منصوبوں میں شراکت داری کے مواقع تلاش کرنا بھی شامل ہے۔‘

امریکی نیول وار کالج میں میری ٹائم حکمت عملی کے پروفیسر جیمز آر ہومز چین کی جانب سے عالمی سطح پر بندرگاہوں کے نیٹ ورک کو محاذ آرائی کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد تجارت، فوجی طاقت اور سفارتی اثر و رسوخ کے درمیان خود کو برقرار رکھنے والا نظام قائم کرنا ہے۔

غیر ملکی بندرگاہوں کے انتظام سے چین کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تجارتی نیٹ ورک کے ساتھ اپنی دولت بڑھا سکے۔ ہومز کہتے ہیں کہ اس سے چین اپنی بحریہ، زمینی و فضائی افواج اور میزائل پروگرام کے لیے فنڈز کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ معاشی طاقت میں اضافے سے بیجنگ ان ’میزبان ممالک میں سفارتی اثر و رسوخ حاصل کرتا ہے‘ جہاں اس کے زیر انتظام بندرگاہیں موجود ہیں۔

یہ سمجھنے کے لیے آپ مشرقی افریقہ کے ملک جبوتی کی مثال لے سکتے ہیں جو بحیرہ احمر اور سوئز نہر کے قریب واقع ہے۔ یہاں ایک بندرگاہ پر چین نے اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کیا ہے۔

چین، بیرون ملک، فوجی اڈہ

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ تنزانیہ، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور میانمار میں چین کے بحری مفاد ہیں اور اب اس بندرگاہ پر فوجیوں کی موجودگی چین کی طرف سے ایک تنبیہ ہے۔

راستے میں روڑے اٹکانا

واشنگٹن میں قائم سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کے ’چائنہ پاور پراجیکٹ‘ نے اپنے تجزیے ’چین عالمی بحری رابطوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟‘ میں کہا ہے کہ کئی دہائیوں پر محیط معاشی پیداوار اور مستحکم حکومت کے زور نے چین کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ خود کو عالمی بحری تجارت کا مرکز بنا سکے۔

صدر شی جن پنگ کی حکومت میں چینی کی سرکاری کمپنیوں نے دنیا بھر کی درجنوں بندرگاہوں میں سرمایہ کاری اور تعمیراتی منصوبوں میں حصہ لیا ہے۔ تاہم اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چینی حمایت یافتہ کئی منصوبے توقعات کے برعکس ’ٹیک آف‘ نہیں کر پائے۔

اس میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اہم حصے گوادر بندرگاہ کی مثال دی گئی ہے جو اعلانات کے باوجود اپنی صلاحیت سے کم استعمال میں لائی جا سکی ہے۔

اس تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ’سنہ 2021 کے اوائل میں اس بندرگاہ کو دوبارہ مکمل فعال کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو کئی اقدامات کرنا پڑے۔‘

اس میں بتایا گیا ہے کہ تنزانیہ کی بندرگاہ باگامویو کی طرح کئی بڑے منصوبے اب تک مکمل نہیں ہو سکے۔

چین، بندرگاہ، جہاز، تجارت، سرمایہ کاری

دستاویزات کے مطابق بندرگاہ کی صنعت میں چینی آپریشنز کا تعلق ان ممالک سے ہے جو بیجنگ کے مقروض ہیں۔

اس حوالے سے سری لنکا میں ہامبانتوتا کی بندرگاہ کی مثال دی جاتی ہے۔ سری لنکا بھی چین کے مقروض ممالک میں سے ہے جس نے سنہ 2017 میں قرضوں میں کمی کے عوض 99 سال کے لیے چین کو اپنی بندرگاہ دی ہے۔

سی ایس آئی ایس کے مطابق اس اقدام پر چینی معاشی اثر و رسوخ پر تشویش ظاہر کی جانے لگی کہ اس سے چھوٹے ممالک کے لیے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ انفراسٹرکچر کے مہنگے منصوبوں کے معاہدوں سے انھیں نقصان ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مشرقی یورپ کے ممالک کیسے چین کے قرضوں کے جال میں پھنسے

چین آج کے دور میں آخر کتنا کمیونسٹ ہے؟

یورپی یونین کا ایک چھوٹا سا ملک چین کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟

سری لنکا، بندرگاہ

لاطینی امریکہ اور کیریبین میں کیا ہو رہا ہے؟

میری ٹائم ریسرچ کی تنظیم ڈریوری میں پورٹ ٹرمینل کی سینیئر تجزیہ کار ایلینور ہاڈلینڈ کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ میں چینی کمپنیوں کے آپریشنز بڑھ گئے ہیں مگر یہ باقی دنیا میں ان کے آپریشنز سے کافی کم ہے۔

انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’سنہ 1990 کی دہائی کے اواخر اور سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں بندرگاہوں کی نجکاری میں کنٹینر ٹرمینلز پہلی لہر تھے۔‘

اُن برسوں کے دوران ہچیسن پورٹس نامی کمپنی مضبوط ہوئی۔ یہ چینی کمپنی اب خطے میں سب سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ لاطینی امریکہ کی بندرگاہوں میں اسے اب بڑی چینی کمپنی تصور کیا جاتا ہے۔

کچھ برسوں بعد کوسکو اور چینی تاجر مارکیٹ میں داخل ہوئے۔ لیکن ماضی کے مقابلے چینی کمپنیوں کی پیداواری شرح سست روی کا شکار رہی۔

اسی کے لیے لاطینی امریکہ ان کے ثانوی مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ میریٹائٹ شاہراہ ریشم کی زیادہ توجہ یورپ اور ایشیا کو جوڑنے اور افریقہ میں بندرگاہوں کے ترقیاتی منصوبوں پر ہے۔

پاناما، بالبوا، چینی سرمایہ کاری

دوسری طرف ان کی رائے ہے کہ ’کم پیداواری شرح کی بدولت لاطینی امریکی کی مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کے لیے محدود مواقع ہیں۔‘ یہ کووڈ 19 کی عالمی وبا سے پہلے سے ہو رہا ہے۔

مگر انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ برازیل کا کیس کچھ مختلف ہے۔ ’برازیل میں بندرگاہوں کی نجکاری کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں چینی کمپنیاں ممکنہ طور پر داخل ہو سکتی ہیں۔

تاہم ترقیاتی منصوبوں میں دوسرے سٹیک ہولڈر جیت سکتے ہیں۔ ہاڈلینڈ کا کہنا ہے کہ ’برازیل کی حکومت کے لیے علاقائی و سیاسی دلچسپی اہمیت رکھے گی۔‘

’اگر زیادہ مقابلہ ہوتا ہے تو ہم سب کی جیت ہو گی‘

میری ٹائم قوانین کے ماہر ہوزے انٹونیو کہتے ہیں کہ ’اگر دنیا کے بہترین آپریٹر اس علاقے میں ایک دوسرے سے مدمقابل ہوتے ہیں تو یہ صنعت اور صارفین کے لیے سب سے اچھا ہو گا۔‘

انھوں نے شاہراہ ریشم کے منصوبے کو بہترین قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’اگر زیادہ مقابلہ ہوتا ہے تو ہم سب کی جیت ہو گی۔‘

’کمرشل اور سیاسی حکمت عملی‘

یو ایس آرمی وار کالج کے انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز میں لاطینی امریکہ کے مطالعے کے پروفیسر ایون ایلس کہتے ہیں کہ عالمی روابط کے لیے چین کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔

چین، بندرگاہ، جہاز، تجارت، سرمایہ کاری

لاطینی امریکہ کے سات ملکوں میں چینی کمپنیوں کے زیر انتظام 10 سے زیادہ بڑی بندرگاہیں ہیں

انھوں نے بتایا کہ وسیع حکمت عملی میں اسے یقینی بنانا ہو گا کہ سٹریٹیجک مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے تاکہ خام مال خریدے اور اپنی مصنوعات فروخت کرے۔ ’چینی کمپنیاں اس خیال کے تحت بندرگاہیں چاہتی ہیں کہ سپلائی چین پر ان کا غلبہ ہو تاکہ وہ لاجسٹکس میں دیگر کمپنیوں پر انحصار نہ کریں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس کے معاشی مقاصد ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سٹریٹیجک وجوہات کے لیے نہیں کیا جا رہا۔ ’معاشی اثر و رسوخ سے آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ سیاسی اثر و رسوخ قائم کر سکیں۔ پھر آپ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں تاکہ آپ کو مزید معاشی فائدہ ہوسکے۔ یہ ایک سائیکل ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

چین اور خلیجی ممالک میں بڑھتی قربت کیا امریکہ کے لیے بڑا چیلنج ہو گا؟

سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟

چین کا قرض دار ہونا ترقی پذیر ممالک کے لیے کتنا بھاری پڑ سکتا ہے؟

کیا چین کے ساتھ پورٹ سٹی پراجیکٹ سری لنکا کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے گا؟

ایلس کا کہنا ہے کہ ’بندرگاہوں کا انتظام معاشی و سٹریٹیجک جنگ کا حصہ ہے جس میں چین اپنی طاقت سے مزید مارکیٹیں حاصل کرتا ہے اور حریفوں پر دباؤ ڈالتا ہے۔‘

خطے میں بڑے منصوبے

پیرو میں بڑی بندرگاہ چنکائی پر تعمیراتی کام جاری ہے۔

اسے چینی کمپنی کاسکو آپریٹ کرتی ہے اور تین ارب امریکی ڈالر کی کل سرمایہ کاری کے ساتھ توقع ہے کہ کام سنہ 2024 میں مکمل ہو جائے گا۔

لاطینی امریکہ اور کیریبین میں بڑی بندرگاہیں جو چینی سرمایہ کاری کے ساتھ آپریٹ کیے جا رہے ہیں ان میں میکسیکو میں اینسینادا، مانسانیو، لازارو كارديناس اور ویراکروز شامل ہیں۔

بہاماس میں فری پورٹ، جمیکا میں کنگسٹن، پاناما میں بالبوا اور کولون، برازیل میں پارانگوا اور ارجنٹینا میں بیونس آئرس شامل ہیں۔

میکسیکو

ان کے علاوہ چینی کمپنیوں نے چھوٹی بندرگاہوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جن میں سے کچھ نجی سطح پر چلائے جاتے ہیں۔ یا پھر بندرگاہوں کے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

تاہم خطے میں تمام چینی منصوبے کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

ایک مثال ایشیا پیسیفک یوانہو کمپنی کے بڑے منصوبے کی ہے جس میں ال سلواڈور کے جنوب مشرق میں فری ٹریڈ زون بنایا جانا تھا تاکہ ہونڈوراس اور نکاراگوا تک رسائی ملے۔

موجودہ معلومات کے مطابق لا یونین کی بندرگاہ پر تعمیر نو کا کام ہونا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں انڈسٹریل پارک، ایئرپورٹ اور سیاحتی مقامات بنائے جانے ہیں۔

ایلس کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ ال سلواڈور کو مرکزی امریکہ میں چینی کمرشل پھیلاؤ کے مقام میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکہ عالمی سطح پر بندرگاہوں میں سرمایہ کاری میں چینی حکمت عملی کا مرکز نہیں ہے لیکن ہر صورت میں یہ ایک پُرکشش مارکیٹ ضرور ہے۔

شی جن پنگ

یہ علاقہ اپنی جغرافیائی قربت کی وجہ سے امریکی اثر و رسوخ میں ہے۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جنوبی امریکہ میں چین ایک اہم کمرشل شراکت دار ہے۔

ابھی کے لیے خطے میں بندرگاہوں کے کئی منصوبے زیر غور ہیں جن میں چینی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ لیکن مذاکرات میں عام طور پر کئی سال لگ سکتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہو گا کہ سیاسی تحفظات کیا ہو سکتے ہیں جو ہر حکومت کو معاہدے سے قبل دیکھنے پڑتے ہیں۔

اگرچہ یہ صرف تجارتی معاہدے ہیں تاہم علاقائی یا سٹریٹیجک عنصر توازن کا حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments