ہاؤس آف دی سیکریٹس: مشرق میں ذہنی صحت کے حوالے سے ترجیحات


(یہ تحریر ایسے مواد پر مبنی ہے جو آپ کو جذباتی طور پر متاثر کر سکتا ہے لہذا احتیاط برتیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جس کو جاننے کی ہر خاص و عام کو اشد ضرورت ہے۔ )

جولائی 2018 میں انڈیا میں ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد نے ایک ہی جگہ پر، ایک ہی کمرے میں خود کشی کر لی تھی۔ اس خاندان میں تین نسلیں موجود تھیں، سب سے ضعیف العمر فرد ایک خاتون تھیں جن کی عمر 77 سال اور سب سے کم عمر ایک نوجوان بچہ تھا جس کی عمر 15 سال تھی۔ جب یہ خبر منظر عام پر آئی تو پورے ہندوستان میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ متاثرہ خاندان کے ورثا و لواحقین سمیت اکثریتی عوام نے اس خودکشی کو قتل قرار دیا اور پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

اس دستاویزی فلم میں ان تمام لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت اس کیس کے اہم رکن ثابت ہو سکتے تھے۔ اس دستاویزی فلم میں اس کیس کے تفتیشی افسران، اس خبر کو منظر عام پر لانے والے معتبر صحافی، اعلی پولیس افسران، متاثرہ خاندان کے ہمسائے، دوست، عزیز و اقارب کو شامل کیا گیا ہے۔ حتی کہ جس کمرے میں ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد نے خودکشی کا ارتکاب کیا تھا اسی کمرے میں متعلقہ مناظر عکس بند کیے گئے ہیں۔

فلم میں اندھے عقائد اور انسانی ذہنی صحت پر بہت ہی غیر محسوس طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اندھے عقائد ایک انسان کی ذہنی صحت کو تو متاثر کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس کے خاندان کے افراد پر کس قسم کا اثر چھوڑتے ہیں۔

نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی اس دستاویزی فلم نے ابحاث کا ایک نیا در کھولا ہے اور ایک ایسے موضوع کو زیر بحث لانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ جس موضوع پر لوگ بات کرنے سے یا تو کتراتے ہیں یا پھر ڈر کے مارے خاموش رہتے ہیں۔

ذہنی صحت انسانی زندگی میں اولین کردار کی حامل ہے لیکن مشرق میں اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی شخص نفسیاتی مسائل کا شکار ہو یا کبھی ماضی میں نفسیاتی مسائل میں الجھا رہا ہو تو مشرق میں اس کو پاگل تصور کیا جاتا ہے۔ ان پڑھ اور نیم خواندہ، جدید تعلیم سے بے بہرہ لوگ اگر نفسیاتی مسائل کے شکار شخص کو پاگل کہیں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ کافی پڑھے لکھے اور جدت پسند لوگ بھی اس کار خیر میں حصہ ملاتے دیکھے گئے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں چونکہ تعلیم بس نوکری لینے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے سو ان خطوط پر کبھی نہیں سوچا گیا اور نہ ہی کسی نے آگہی دینے کی کوشش کی ہے۔ سوچا کہ خود سے جڑے ہوئے دوستوں کو آگاہی دی جائے اور بتایا جائے کہ نفسیاتی عوارض بھی انسان کی زندگی کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح باقی جسمانی عوارض۔ اور بہترین اور بروقت علاج سے ان نفسیاتی عوارض سے بھی بالکل اسی طرح مکمل نجات مل سکتی ہے جس طرح جسمانی بیماریوں سے۔

ذہنی صحت انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اولین درجے کی حامل ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے تو اسے اندر دبانے کے بجائے کوئی ایسا ہمدرد اور مخلص شخص تلاش کریں جو آپ کے راز کو ہمیشہ راز رکھے۔ اس کے سامنے اپنے دل کا حال بیان کریں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو آپ کو دکھ دیتی ہیں اپنے اس ہمراز سے شیئر کریں۔ ہر وہ بات جو آپ کو بری لگتی ہے اپنے ہمراز کو کھل کر بتائیں۔ ایسے شخص کی تلاش میں انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ یہ کوئی ایسا اعلی ظرف شخص ہونا چاہیے جو کل کو کسی قسم کے اختلاف یا کسی قسم کی علیحدگی کی بنا پر اپنی کم ظرفی ظاہر کرتے ہوئے اپنا کمزور دماغی عارضہ ظاہر کرتے ہوئے اپنا ذہنی خلفشار دور کرنے کی خاطر آپ کو ذہنی مریض کہہ کر شرمندہ نہ کرے۔

یاد رکھیں! ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی آگے چل کر بڑے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ بقول شاعر۔
جو باتیں پی گیا تھا میں۔
وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو۔

کسی بھی دکھ یا تکلیف کے بارے میں یہ مت سمجھیں کہ یہ چھوٹا سا دکھ ہے، کچھ دن بعد خودبخود ہی ختم ہو جائے گا۔ دکھ بیشک ختم ہو جائے گا لیکن جو اذیت آپ کا دماغ محسوس کرے گا وہ اذیت آپ کے دماغ کے کونوں کھدروں میں چھپ جائے گی اور ایک دن کسی بڑے نقصان کا سبب بنے گی۔

اگر آپ کسی انسان پر بھروسا کرنے کے قائل نہیں ہیں تو ایک سب سے آسان اور سادہ سا طریقہ ہے، آپ اس پر عمل کر کے دیکھیے۔

کاغذ قلم لیجیے اور اپنے مسائل یا ایسا دکھ جو آپ کو بار بار کچوکے لگا کر ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہو اس کو لکھ لیجیے۔ لکھنے سے آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور ذہنی اذیت و کرب سے ایک بڑی حد تک آپ چھٹکارا پا لیں گے۔

اپنی ذہنی صحت کا خاص خیال رکھیے، سوشل میڈیا کی دنیا جھوٹ پر مبنی ہے، یہاں ہر ایک چیز دکھاوا ہے، جھوٹ ہے، بناوٹ ہے، کسی کی چمکتی ہوئی کار یا بھڑکتا ہوا لباس دیکھ کر خود کو اس سے کمتر مت سمجھیں۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی شخص آپ پر کسی قسم کا منفی تاثر چھوڑ رہا ہے تو فوراً سے پیشتر ہی اس کو فرینڈ لسٹ سے نکال باہر کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کی باتیں، پوسٹس، کمنٹس، یا کوئی ایسا مواد جو وہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہے آپ کو ناگوار گزر رہا ہے یا آپ کی اس مواد کے شیئر کرنے سے دل آزاری ہو رہی ہے تو بجائے سب کچھ سہنے کے اس شخص سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، میں تو آج کل یہی کر رہا ہوں اور یقین کیجیے بہت سکون محسوس کر رہا ہوں۔

آپ کائنات میں اپنے لیے، اپنے جیسے بیشک ایک ہی شخص ہوں گے مگر کسی (واحد یا جمع) کے لیے آپ کل کائنات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments