ہتک عزت کے دعوے اور پاکستان: ’پاکستان میں ہتک قانون کی کمزور عملداری ایک بدقسمتی ہے‘


عدلیہ
حال ہی میں برطانیہ پاکستان سے متعلق ہتک عزت کے دو بڑے مقدمات کا نتیجہ سامنے آیا جن میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے والوں سے غیر مشروط معافی مانگی گئی ہے۔

ہتک عزت کے ان معاملات میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی سید ذوالفقار علی بخاری (زلفی بخاری) اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سنیئر رکن اور سابق وزیر داخلہ اسحاق ڈار پر ‘بے بنیاد’ الزامات شامل تھے۔

جس پر پہلے مقدمے میں پاکستانی نژاد برطانوی براڈ کاسٹر اور وزیر اعظم پاکستان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے زلفی بخاری سے غیر مشروط معافی مانگی جبکہ دوسرے مقدمے میں برطانیہ میں پاکستانی ٹی وی چینل اے آر وائے کا مواد نشر کرنے والے نیو وژن ٹی وی نے اسحاق ڈار سے تحریری معافی مانگی۔

برطانوی عدالتوں سے ان مقدمات کے نتیجہ میں تصفیے کے بعد ملک میں اس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کے تحت مؤثر کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔

یہ سوالات بھی زیر بحث ہیں کہ پاکستان میں ہتک عزت کا قانون کیا ہے، ان کی عملدری اتنی کمزور کیوں ہے اور ان کو مؤثر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

سابق وزیر خزانہ

پاکستان میں ہتک عزت کا قانون کیا ہے؟

پاکستان میں ہتک عزت کا قانون ملک کے مختلف قوانین میں دیوانی اور فوجداری حیثیت سے موجود ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفع 499 کے مطابق ‘اگر کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص (زندہ یا مردہ)، ادارے یا کمپنی کی عزت، معاشرے میں مقام، جائیداد، ساکھ کے بارے میں کوئی ایسی بات یا عمل جو تحریری، اشارۃً ، زبانی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچاتا ہے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے کرتا ہے ہتک عزت کے قانون کے زمرے میں آتا ہے۔‘

کسی ایک شخص کی جانب سے یہ عمل زبانی یا تحریری طور پر ہو سکتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499 کے مطابق یہ فوجداری حیثیت میں ایک قابل گرفت جرم ہے جس کی سزا دو سال قید، جرمانہ یا دونوں ہے۔

جبکہ ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے مطابق یہ ایک دیوانی مقدمے کی حثیت سے قانون میں شامل ہے جس میں ہتک عزت کرنے والے شخص کو جرمانہ اور معافی مانگی پڑتی ہے۔

جبکہ سنہ 2016 میں پاکستان پریوینشن آف الیکٹرونک ایکٹ (پیکا) کے مطابق یہ ایک فوجداری نوعیت کا قابل گرفتاری جرم ہے۔

قانونی ماہر بیرسٹر سعد رسول کا کہنا ہے کہ تعزیرات پاکستان کے تحت فوجداری حثیت میں ہتک عزت کے قانون میں پولیس ایف آئی آر کاٹنی پڑتی ہے اور تفتیش کے بعد سیشن عدالتوں میں ایک مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دیوانی حیثیت میں ہتک عزت کے قانون کی کارروائی آرڈینینس 2002 کے تحت کی جاتی ہے جس میں پولیس ایف آئی آر درج نہیں کروائی جاتی بلکہ ہتک عزت کا دعویدار معافی اور ہرجانے کا دعویٰ کرتا ہے۔

قانون

اس کے تحت ہتک عزت کا دعویدار قانون میں موجود ایک مخصوص عرصے (دو سے چھ ماہ) کے اندر اندر ہتک عزت کرنے والے کو ایک تحریری نوٹس بھیجے گا اور اس میں واضح طور پر ہتک عزت کا سبب بننے والے عمل کی نشاندہی کرے گا اور اس سے معافی و ہرجانہ ادا کرنے یا بصورت دیگر قانونی کارروائی کرنے کا کہے گا۔

ماہر قانون بیرسٹر سعد رسول کے مطابق ہتک عزت آرڈیننس کے تحت ہتک عزت کرنے والے کو بھیجے جانے والے نوٹس کے 30 دن کے اندر جواب دینا لازمی ہو گا۔

ہتک عزت کے دعویدار کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس کا جواب موصول نہ ہونے پر ایک دیوانی مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے جس میں دعویدار کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کی ہتک عزت کب اور کیسے ہوئی اور اس کی وجہ سے اس کو اصل نقصان کیا پہنچا؟

بیرسٹر سعد رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکٹرونک پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا آنے کے بعد یہ مسائل جنم لے رہے تھے کہ آن لائن ہتک عزت کے معاملات کو کیسے قابل گرفت بنایا جائے اور اس لیے پیکا ایکٹ 2016 میں ہتک عزت کو ایک فوجداری قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ پیکا ایکٹ کے تحت اس پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کارروائی کرتی ہے۔

پاکستان میں ہتک عزت کے قانون سے متعلق اعتراضات کیا ہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ ہتک عزت کے قانون جیسے قوانین کی ملک میں عملداری بہت کم نظر آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499 کے تحت ہتک عزت کو فوجداری قانون کی حیثیت حاصل ہے مگر یہ بنیادی طور پر اس نوآبادیاتی دور کی سوچ کی عکاسی ہے جہاں عوام کو قابو کرنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے گئے۔

ان کا کہنا تھا آج دنیا کے بہت سے مغربی ممالک میں ہتک عزت کا قانون صرف ایک دیوانی قانون کی حیثیت سے موجود ہے جبکہ پاکستان میں یہ اب بھی ایک فوجداری قانون کی شکل میں نافذ ہے۔ جسے ملک میں سنہ 2016 میں متعارف ہونے والے پیکا ایکٹ کے تحت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس پر بریسٹر سعد رسول کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ یہ صرف دیوانی نوعیت کے مقدمات بنیں اسی لیے یہ دیوانی اور فوجداری قوانین میں موجود ہے اور یہ اس کی صوابدید ہے جس کی ہتک عزت ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اے آر وائی کا مواد نشر کرنے والے نیو وژن ٹی وی کی اسحاق ڈار سے معافی

ریحام خان کی غیرمشروط معافی: ’ایک دن آئے گا پاکستان میں بھی ایسا ہی قانون ہو گا‘

چینل نے ’انڈیا کی ایما پر سازش کا الزام لگایا تو ’شدید ذہنی اضطراب سے گزرنا پڑا‘

کیا ہتکِ عزت کا قانون آواز اٹھانے والوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے؟

پاکستان میں جھوٹا مقدمہ دائر کرنے کی کیا سزا ہے؟

میشا شفیع، علی ظفر

ملک میں ہتک عزت کا قانون موثر کیوں نہیں؟

پنجاب یونیورسٹی کے لا کالج کی پروفیسر اور ماہر قانون خجستہ ریحان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہتک قانون کے غیر مؤثر ہونے میں سب سے اہم وجہ عوام میں اس حوالے سے شعور اور آگاہی کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس آگاہی کی کمی کے باعث اس ملک میں اتنی ہتک عزت ہوتی ہے کہ اگر عدالتیں ان معاملات کو دیکھے تو دیگر عدالتیں بند ہو جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے غیر موثر ہونے میں تین اہم کرداروں کا عمل دخل ہے جن میں سب سے پہلے قانون ساز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے قانون سازوں کو اسے سنجیدہ معاملہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ خود ہی ایک دوسرے پر الزامات لگائیں گے تو وہ کبھی اس پر سخت اور سنجیدہ قوانین نہیں بنائیں گے یا اس کی عملداری کو مضبوط نہیں ہونے دیں گے۔

ان کے مطابق دوسری وجہ وکلا برادری ہے جو ایسے مقدمات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور ہتک عزت کے مقدمات میں غیر منطقی اور غیر حقیقی ہرجانے کے دعوے دائر کر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کے مقدمات کے لیے وکلا کی مناسب تربیت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا ہتک عزت کے فوجداری مقدمات بنا دیتے ہیں کیونکہ دیوانی مقدمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

پروفیسر خجستہ ریحان کا کہنا تھا کہ تیسرا اور سب سے اہم کردار عدلیہ ہے، عدلیہ کو فوری ان مقدمات کو نمٹا کر، بھاری جرمانے یا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے کر مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ باقیوں کے دل میں خوف پیدا ہو سکے۔

بریسٹر سعد رسول نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مفصل طور پر ہتک قانون موجود ہونے کے باوجود اس کی کمزور عملداری اور غیر موثر ہونا ایک بدقسمتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو موثر بنانے کے لیے ہمیں عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں ہتک عزت کے مقدمات کی کارروائی بہت جلد نمٹائی جاتی ہے اور چند مہینوں میں ان کا فیصلہ سنایا جاتا ہے جبکہ ہمارا عدالتی نظام ہتک عزت کے مقدمات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتا اور پاکستان میں یہ مقدمات برسوں چلتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کو ان مقدمات کی کارروائی کے طریقہ کار میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے تابع سیشن اور ڈسٹرکٹ عدالتیں ان مقدمات کو سنجیدگی سے لیں۔

ملک میں اربوں کروڑوں روپے ہرجانے کے دعوے اسے غیر سنجیدہ بناتے ہیں؟

ایڈوکیٹ عثمان وڑائچ کے مطابق ہتک عزت قانون کے تحت اگر کسی کی ساکھ، ذات، یا عزت و تکریم پر حرف آیا ہے تو وہ اس کے ازالے کے لیے کوئی بھی ہرجانے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

سعد رسول کے مطابق پاکستان میں عدالتوں سے کبھی کسی کو بھاری ہرجانہ ادا کرنے کا نہیں کہا گیا مگر عدالت سمجھتی ہے کہ اگر کسی معروف شخص کی ساکھ کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو اس کا ہرجانہ بھی اتنا ہی ہے البتہ قانون کی نظر میں ایک عام شہری اور مقبول شخص کی عزت و تکریم برابر ہے۔

اگر یہ موثر قانون ہو تو کیا پاکستان میں ہتک عزت کے معاملات حل ہو جائیں گے؟

ماہر قانون خجستہ ریحان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ایسے مقدمات کو سنجیدگی سے سنے اور ان کے متعلق وکلا کی تربیت کرے تو یقیناً سیاست، میڈیا اور سوشل میڈیا پر الزامات اور ایک دوسرے پر کچیڑ اچھالنے کا سلسلہ بند ہو گا اور پروپیگنڈہ کی بجائے حقائق اور دلائل پر بات اور اعتراضات سامنے آئیں گے۔

بیرسٹر سعد رسول کا کہنا تھا کہ ملک میں ہتک عزت کا قانون مفصل ہے صرف ریاستی اداروں، تفتیشی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی مکمل اور مناسب تفتیش کریں۔ اس پر عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کیسوں کو فوری سنے، جلدی نمٹائے اور اس میں مناسب تصفیے دیے جائیں۔

ایڈوکیٹ عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ ملک میں ہتک عزت کے حوالے سے تمام قوانین تو موجود ہیں لیکن عدالتوں میں دیوانی مقدمات کے طور پر انھیں بے ثمر اور بے نتیجا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو جاتا ہے اور ہرجانے یا نقصان کا آزالہ کرنے کی بات پس پشت چلی جاتی ہے۔

عثمان وڑائچ کے مطابق عدالتوں کے ذریعے سے نقصان کے ازالے یا ہرجانے کی رقم کو یقینی بنائیں تو ملک میں ہتک عزت کے معاملات میں کافی بہتری آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments