اسلام کے قلعے میں اچھوت


کوئی ڈیڑھ پونے دو سو سال پہلے، غالباً غدر کے دنوں میں مرزا غالب کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ کہتے تھے کوئی امید بر نہیں آتی۔ تقریباً دو صدیاں بیت چکیں۔ تاریخ کے کئی ورق پلٹے گئے۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک نیا ملک حاصل کر لیا۔ اب وہ ملک بھی اپنی زندگی کی ایک صدی پوری کرنے کے قریب ہے۔ مگر یاس کی دھند ہے کہ چھٹ کر ہی نہیں دیتی۔ بہتری کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آتی۔

تحریر اور تقریر کا مقصد تعمیر ہونا چاہیے۔ مگر کیا کریں کہ مملکت خداداد کہتی ہے کہ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ اور اگر اس خرابی کا کوئی علاج نظر نہ آتا ہو تو پھر گفتار اور تحریر کا مقصد یا تو بس تفریح ہو سکتا ہے یا نوحہ گری۔ بقول احمد عطا ”قسمت اپنی ہے کہ ہم نوحہ گری کرتے ہوئے، کریں زنجیر زنی دل کے عزا خانے میں“ ۔

بر صغیر کے مسلمانوں کو ہندو مت پر جو بڑے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک ذات پات کا نظام ہے۔ سنسکرت میں اس نظام کو چترورنا کہتے ہیں جس میں چار ذاتیں شامل ہیں۔ ان میں چوتھی ذات یعنی شودر تاریخی طور پر بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھے گئے۔ لیکن اس نظام کے تحت کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو ان چار درجوں سے بھی پست مقام پر ہیں۔ وہ بدقسمت ذاتیں اورنا کہلاتی ہیں۔ چونکہ ذات پات کے نظام کی ابتدا نسل در نسل کسی ایک پیشے سے منسلک ہونے پر تھی، سو اورنا ذاتیں ان پیشوں سے منسلک تھیں جو ناپاک سمجھے جاتے تھے مثلاً چمڑے کا کام کرنے والے چمار، گندگی کی صفائی کرنے والے بھنگی، گانے بجانے والے ڈوم وغیرہ۔

ان ذاتوں کو اجتماعی طور پر کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ ان میں شودر اور اچھوت جیسے الفاظ بھی ہیں جو تحقیر کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے ان کے لیے ہریجن کا نام تجویز کیا جو دو الفاظ ”ہری“ اور ”جن“ کا مرکب ہے یعنی خدا کے بندے۔ مگر یہ لوگ خود اس نام کو بھی رد کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے حالات کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ ان نے خود اپنے لیے ”دلت“ کا نام پسند کیا جس کا معنی ”پسے ہوئے لوگ“ ہے۔

پاکستان بننے کے بعد اس علاقے میں آباد زیادہ تر ہندو نقل مکانی کر کے ہندوستان چلے گئے اور بہت کم یہاں رہے۔ یہاں رہنے والے ہندوؤں میں اکثریت انہی بدقسمت اورنا ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ دلت زیادہ تر جنوبی پنجاب اور سندھ میں آباد ہیں۔ سندھ میں ان کی اکثریت سانگھڑ، میرپور خاص، ٹھٹھہ، بدین اور تھرپارکر میں آباد ہے۔ مگر ان کی آبادی انہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی یہ لوگ کم تعداد میں آباد ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ان کی آبادی آٹھ لاکھ سے کچھ اوپر ہے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد درحقیقت اس سے تین سے چار گنا زیادہ ہے۔

1957 میں چالیس دلت قبائل کو سرکاری طور پر ”شیڈولڈ کاسٹ“ کا درجہ دیا گیا۔ تکنیکی لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ غریب ترین طبقات ہیں جن کے ساتھ خصوصی اور ترجیحی سلوک کیا جائے تاکہ ان کے حالات بہتر ہو سکیں۔ ان قبائل میں کوہلی، بھیل، میگھوار، سانسی، سوچی، اوڈھ، بالمیکی، گگڑہ، نٹ اور جوگی وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم ان کی قسمت نہ بدلنی تھی اور نہ بدلی۔ ترجیحی سلوک تو درکنار، بعض صورتوں میں تو یہ پہلے حالات سے بھی گئے۔

مثلاً سندھ میں سرکاری نوکریوں میں ”شیڈولڈ کاسٹ کوٹا“ ہوا کرتا تھا۔ اونچی ذات کے ہندوؤں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے ”ہندو کوٹا“ میں تبدیل کرا لیا۔ چونکہ اونچی ذات کے ہندو زیادہ تعلیم یافتہ بھی ہیں سو گنتی کی جو چند سرکاری نوکریاں دلت لوگوں کو کوٹے پر ملتی تھیں، وہ ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج حالت یہ ہے کہ دلت حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم آئی ایس ڈی این کے مطابق چوہتر فیصد دلت ناخواندہ ہیں جبکہ صرف دو فیصد میٹرک تک تعلیم یافتہ ہیں۔ ان حالات میں ملازمت کیسے مل سکتی ہے۔

پاکستان کی سرکار سے تو کوئی بھی گلہ کرنا فضول ہے۔ لیکن اسلام کے علمبردار عوام نے بھی اس ملک کے دلت لوگوں سے ہر طرح کا ظلم اور زیادتی روا رکھی۔ انسانی مساوات کا درس دینے والے مذہب کے ماننے والوں نے دلت لوگوں کو ہمیشہ اچھوت ہی سمجھا۔ آج بھی اندرون سندھ میں ان لوگوں کو مسلمانوں کے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ دیہات میں انہیں گاؤں کی حدود سے باہر رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان کے کھانے پینے کے لیے الگ برتن رکھے جاتے ہیں جنہیں استعمال کے بعد یہ خود دھوتے ہیں۔ ایک سروے میں 77 فیصد دلت لوگوں نے بتایا کہ حجام ان کے بال نہیں کاٹتے۔ ان کے جو بچے خوش قسمتی سے سکول پہنچ جائیں، انہیں کلاس میں سب سے پیچھے بٹھایا جاتا ہے اور باقی طلبا اور اساتذہ ان کے ساتھ تحقیر آمیز برتاؤ کرتے ہیں۔

دلت آبادی کے چوراسی فیصد لوگوں کے پاس اپنی ملکیتی زمین نہیں لہٰذا یہ دوسروں کی زمینوں پر تھوڑے سے حصے کی خاطر کاشتکاری کرتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد جاگیرداروں کی مقروض رہتی ہے جس کے عوض یہ نسل در نسل ان کی غلامی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ کے قریب دلت لوگوں سے جبری مشقت کرائی جا رہی ہے اور اگر مزدوری دی بھی جائے تو مسلمان یا اونچی ذات کے ہندو مزدوروں سے کہیں کم دی جاتی ہے۔ گرگلا قببیلے کے ایک فرد نے راقم الحروف کو بتایا کہ اسے پورا دن کھدائی کرنے کا معاوضہ صرف تین سو روپے ملتا ہے۔

چونکہ ان کا سماجی مقام پست ترین ہے اور کوئی ان کی داد رسی کرنے والا بھی نہیں، سو ان کی عورتیں اکثر جنسی جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔ ویسے تو یہ اچھوت ہیں اور ان کو ہاتھ لگانا بھی ناپسند کیا جاتا ہے مگر جب معاملہ اپنی درندگی دکھانے کا ہو تو پھر انہیں ہر طرح سے چھوا جا سکتا ہے۔ یہی وہ بدقسمت ہیں جنہیں طاقت کے نشے میں بدمست وڈیرے زنجیریں پہنا کر قید کر لیتے ہیں اور جن کی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان سے شادیاں کر لی جاتی ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ مذہب کی تبدیلی بھی ان کے مسائل کا حل نہیں۔ ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ برصغیر میں اسلام کی ترویج کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نیچ ذات کے ہندو اپنے حالات سے تنگ آ کر مسلمان ہو رہے تھے۔ آج حالت یہ ہے کہ اسلام کے قلعے میں یہ بدنصیب اپنے حالات سے تنگ آ کر عیسائیت اختیار کر رہے ہیں۔ چند ایک مسلمان بھی ہو جاتے ہیں مگر پہچانے پھر بھی اپنی ذات ہی سے جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر نومسلم لوگوں کو احتراماً ”شیخ“ کہا جاتا تھا۔ یہ رواج آج بھی کسی حد تک قائم ہے لیکن دلت مسلمان ہو کر بھی ”بھیل شیخ“ یا ”چوہڑے شیخ“ جیسے ناموں سے ہی جانے جاتے ہیں۔

پاکستان کے شہری بالعموم اپنی ریاست سے نا امید ہو چکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ شہریوں کے حالات زندگی سے ریاست کی مکمل بے اعتنائی ہے۔ سو اس حوالے سے کوئی درخواست کرنا یا امید رکھنا فضول ہے۔ لیکن ارباب بست و کشاد کی بیان بازی سے اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست کے وجود کا مقصد اولیٰ ہندوستان کو نیچا دکھانا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو یہاں آباد دلت لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کر کے اور انہیں باقی انسانوں کے برابر مقام دلا کر بھی یہ مقصد پورا کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ غریب وہاں بھی بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments