کنویں کے باسی ہمیشہ پراعتماد اور پرامید ہوتے ہیں!


منطقی طور ہر اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مخصوص ماحول، مخصوص سوچ کو جنم دیتا ہے اور مخصوص ماحول میں مخصوص گروہ کے ساتھ مخصوص عرصے تک قیام، اس طرز فکر کو، اور پروان چڑھاتا ہے جو پہلے ہی سے اپنی جڑیں مضبوطی سے پکڑ چکی ہوتی ہے۔ یوں غیر محسوس طریقے سے یہ تہہ در تہہ گہری ہوتی ہوئی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، بالآخر حد نگاہ بن جاتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وہ نادیدہ دائرہ ہے جس کے مکین، ہر چند کہ اس میں مقید ہوتے ہیں مگر چوں کہ وہ خود اس کا مشاہدہ کرنے سے عاجز ہوتے ہیں، اس لئے وہ اپنے آپ کو کسی سطح کا قیدی ( یا محصور ) تصور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ وہ اس احساس سے یکسر بالاتر ہوتے ہیں کہ وہ ( حقیقتاً ) کسی قسم کی حدود میں رہنے کے پابند ہیں۔

یہ دستیاب ماحول، اپنے جیسے (ہم نوالہ اور ہم پیالہ) ، ہم نشینوں کی حکایت در حکایت اور روایت در روایت، دہرائے جانے سے، بتدریج ان کی کل دنیا بن چکا ہوتا ہے۔ ان کی بصارت اور سماعت اس چارسو کی اس قدر عادی ہوجاتی ہے کہ مزید دیکھنے، مزید سننے ( اور مزید جاننے ) کی حس، بے حس ہو چکی ہوتی ہے ( یا شاید اسے اپنی جگہ بنانے کا موقع ہی نہیں ملتا ) ۔ ان کی اپنی اس دنیا کے عقب میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے، نہ یہ تجسس انھیں بے چین کرتا ہے، اور نہ ہی اس تڑپ کی انھیں کبھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

یہ وہ بیرونی نقطہ نگاہ ہے جو عام طور پر کنویں کے باسیوں کے بارے میں قائم کر لیا جاتا ہے اور ان کی کوتاہ بینی، تنگ دامنی، اور خام خیالی کو موضوع بنا کر ان کو جی بھر کر تنقید کا ہدف بنایا جاتا ہے، عدل کا تقاضا بجا طور پر اس بات کا متقاضی ہے کہ اس حوالے سے ان کا اپنا نقطہ نظر کیا ہے، اس کو بھی پوری اہمیت دیتے ہوئے، اس سے آگاہی حاصل کی جائے تاکہ استدلال میں توازن کی بنیادی شرط کو برقرار رکھا جائے۔

کنویں کے باسی اپنے ماحول پر پوری نگاہ رکھتے ہیں اور اس کے گوشے گوشے سے واقف ہوتے ہیں اس لیے یہ مکمل آگاہی، انھیں اعتماد کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے۔ اعتماد کے لیے بنیادی چیز جو کسی متلاشی کے لئے درکار ہو سکتی ہے وہ یہ احساس ہے کہ یہ میرے دائرہ قدرت میں ہے اور مجھ میں یہ صلاحیت ہے کہ جو چاہا جائے، وہ کیا جا سکتا ہے۔ اس احساس کے لئے اس شعور کا ہونا لازمی ہے کہ میرا ماحول میرا موافق ہے۔ یہی با خبری محرک کا کام دیتی ہے جو ان کی رگ رگ میں موجود ہوتی ہے۔

اعتماد وہ خاصیت ہے جو کچھ کر دکھانے کی ترغیب دیتی ہے لہٰذا اعتماد کا جذبہ آ جانے کے بعد فطری طور پر، ان میں، ان احساسات کا پیدا ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ارادوں کی جی بھر تشکیل اور ترویج کی جائے۔ یوں اعتماد کے بعد ان کے ہاں عزم اپنی فوری جگہ بنا لیتا ہے۔ ان کا یہ عزم، ان کی نظر میں اس قدر پختہ اور پائدار ہوتا ہے کہ اوروں کے لئے، انھیں یہ ناقابل تسخیر نظر آتا ہے۔ اس عزم کی بنیاد پر وہ اپنی تدبیریں تخلیق کرتے ہیں اور ان تدبیروں سے وہ خواب جنم لیتے ہیں، جن کی تعبیر کے لئے وہ، اور خواب دیکھتے ہیں۔

عزم اور اعتماد کا اس طرح یکجا ہونا، ان میں حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے اور یہ اپنے اندازوں ( اور توقعات ) میں پوری طرح پرامید ہو جاتے ہیں کہ اب کوئی ان کے خواب کو، تعبیر سے دور نہیں رکھ سکتا۔ یہ امید، ان کی منصوبہ سازی اور طالع آزمائی کے جذبے میں بڑھاوا بھی دیتی ہے اور انگیخت کا کام بھی کرتی ہے، اسی لئے جہاں امید در آئے، وہاں کامیابی اور ہدف کے حصول کا یقین بھی قوی سے قوی تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ امید، درحقیقت وہ سیڑھی ( یا کمند ) بن جاتی ہے جہاں سے منزل تک پہنچنا، دو چار ہاتھ کا معاملہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

اس سارے عمل اور طرز عمل میں کنویں کے باسی صرف ایک چھوٹی سی، یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی رہائش کہاں ہے اور ان کے مشاہدے اور تجربے کے ذرائع کون سے ہیں۔ وہ اپنی چار دیواری کی بلندی میں ڈھکے روز و شب اور ان میں مقدور بھر دکھائی دینے والے منظر کو، ساری کائنات سے موسوم کر لیتے ہیں۔ ان کے سارے تجزیے، دلائل، قیاس، منطق اور مفروضے، محض اسی دائرے سے ماخوذ ہوتے ہیں، جہاں وہ رہنے کے پابند ہوتے ہیں، جبکہ ( عملی اور حقیقی ) نتائج کے لئے دائرے سے باہر کا علم ( اور اس کا کامل فہم ) بھی اتنا ہی ( یا شاید اس سے بھی زیادہ ) اہم اور معنی خیز ہو جا تا ہے۔

کنویں کے باسی، اسی لیے ، اپنے تمہارے تر اعتماد، عزم اور امید کے باوجود کنویں سے باہر آنے کی صلاحیت سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ نتیجتاً ، وہ کچھ نہیں حاصل کر پاتے، جسے حاصل کرنے کے لئے اپنی دانست میں، وہ اپنی بصیرت، دانائی اور دانش، داؤ پر لگاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments