آئی ایم ایف کو پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری کم ہونے کی توقع: وجوہات ’سیاسی‘ ہیں یا ’حقیقت‘ پر مبنی؟


آئی ایم ایف
بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری کیے گئے ’اکنامک آؤٹ لُک‘ میں موجودہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح کم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے ملک کے کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے تو دوسری جانب موجودہ مالی سال میں ملکی ترقی کی شرح نمو چار فیصد تک رہنے کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان سمیت دنیا کی بیشتر معیشتوں کے بارے میں پیش گوئی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معطل شدہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کرنے جا رہا ہے تاکہ اس کے تحت ملک کو ایک ارب ڈالر قرض کی قسط جاری ہو سکے جو آئی ایم ایف کے پاکستان کے لیے ’ایکسٹنڈڈ فنانسنگ فیسلٹی‘ پروگرام کے تحت مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں جاری ہو گی۔

پاکستان کے معاشی اعشاریوں کے بارے میں آئی ایم ایف کی پیش گوئی بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں رواں برس بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان کے بعض معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے اور انھوں نے مہنگائی کے مزید بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب مشیر خزانہ شوکت ترین کے ترجمان نے بھی رواں برس روزگار کے مواقع بڑھنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں انھوں نے خاص کر تعمیراتی شعبے کا ذکر کیا ہے۔

پاکستان سیمنٹ

تعمیراتی شعبے میں ترقی سے روزگار کے مواقع بڑھے ہیں: حکومتی ترجمان

معاشی اعشاریے اور آئی ایم ایف کی پیش گوئی

موجودہ مالی سال کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے ملکی ترقی میں شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد رکھا تھا، جو آئی ایم ایف کے مطابق چار فیصد رہنے کی توقع ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ یا جاری کھاتوں کے خسارے میں بڑھنے کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے جو اس سال 3.1 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

جاری کھاتوں کے خسارے اگر اس شرح سے بڑھے تو پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دس ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا۔ پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو سے تین فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں رواں برس مہنگائی کی شرح کم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو اس کے مطابق 8.5 فیصد تک رہے گی۔

خاتون

موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح دس فیصد سے اوپر رہنے کی توقع ہے: ڈاکٹر اشفاق احمد

پاکستان میں ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح نو فیصد تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان میں بیروزگاری کی شرح میں کمی کی توقع کا بھی اظہار کیا ہے جو گذشتہ برس ادارے کے تخمینے پانچ فیصد کے مقابلے میں 4.8 فیصد رہے گی۔

آئی ایم ایف کی پیش گوئی اور پاکستانی ماہرین

آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان میں آزاد معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے جو ان کے نزدیک خام بنیادوں اور اندازوں پر کی گئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا اگرچہ حکومت کہتی ہے کہ بیروزگاری کی شرح پانچ سے چھ فیصد ہے تاہم غیر جانبدارانہ تخمینے کے مطابق اس کی شرح 12 سے 13 فیصد ہے۔ انھوں نے شرح نمو کے بھی تین سے ساڑھے تین فیصد تک بڑھنے کی توقع کا دعویٰ کیا۔

ڈاکٹر پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے تخیمینے میں بہت سارے ’نقائص‘ ہیں جس کی وجہ صحیح ڈیٹا کی بجائے اندازوں پر کی گئی پیش گوئی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گیس، بجلی اور اجناس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے رجحان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف کا مہنگائی کم ہونے کا اندازہ ٹھیک ہو گا۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح جانچنے کا بھی کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی تخمینہ دیا جا سکے۔

کرنسی

آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت روپے کی قیمت گرائی گئی ہے جس کی وجہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے: ڈاکٹر اشفاق احمد

ماہر معیشت اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن بھی آئی ایم ایف کے ان اندازوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح دس فیصد سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح معلوم کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ مہنگائی ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ ابھی تو اس میں اضافے کا آغاز ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چار چیزوں کی قیمتیں لے لیں تو پتہ چل جائے گا کہ مہنگائی کتنی بڑھے گی۔

انھوں نے کہا کہ پام آئل کی قیمت 600 ڈالر سے 1000 ڈالر فی ٹن چلی گئی ہے، ایل این جی کا نرخ دس ڈالر سے پچاس ڈالر، خام تیل کی قیمت 37 ڈالر سے 84 ڈالر فی بیرل چلی گئی اور کوئلے کی قیمت 60 ڈالر سے 250 ڈالر فی ٹن پر پہنچ چکی ہے اور ان قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔

حکومتی موقف

دوسری جانب مشیر خزانہ شوکت ترین کے ترجمان مزمل اسلم نے رابطہ کرنے پر کہا کہ آئی ایم ایف کی پاکستان کے معاشی اعشاریوں کے بارے میں پیش گوئی ابھی بھی پاکستان کے موجودہ مالی سال کے اہداف سے کم ہے۔

اگر جی ڈی پی گروتھ کو دیکھا جائے تو حکومت نے اس سال کا ہدف 4.8 فیصد رکھا ہے تاہم آئی ایم ایف نے چار فیصد کی توقع کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگر بڑھتا ہے تو اس کی وجہ عالمی منڈی مں بڑھنے والی قیمتیں ہیں کیونکہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے خام مال اور مشینری کی درآمد کرنا پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ کیا تعمیراتی شعبے میں تیزی کا مظہر ہے؟

کیا پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ معیشت میں بہتری کی نشاندہی ہے؟

’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا ہے‘

بیروزگاری پر بات کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری کی شرح میں کمی کی بات اس بنیاد پر کہی گئی کہ پاکستان میں معاشی بڑھوتری کی وجہ سے روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت لیبر مارکیٹ اور تعمیراتی شعبے میں حالات بہت اچھے ہیں اور کارخانوں اور تعمیراتی شعبے میں بہت زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

مزمل اسلم نے کہا مہنگائی کی شرح کا آئی ایم ایف کا اندازہ کم و بیش حکومت پاکستان کے تخمینے سے ملتا جلتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کن بنیادوں پر پیش گوئی کی؟

آئی ایم ایف کی جانب سے موجودہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی کی پیش گوئی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف اس کے ذریعے اس بات کو ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پروگرام سے پاکستان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے جس میں وہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی کی توقع کا اظہار کر رہا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کے تخمینے ’سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں جن میں ان کے اپنے پس پردہ عزائم ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے اس سلسلے میں کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہمیشہ ’سیاسی بنیادوں‘ پر ہوتا ہے اور اس میں معاشی پہلوؤں کو نہیں دیکھا جاتا۔ ان کے مطابق اپنے مقاصد کے لیے آئی ایم ایف کسی ملک کے معاشی اعشاریوں کو مثبت انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے ظاہر کیا جا سکے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ملک کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے پاکستان کو کیا قیمت چکانی پڑی وہ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال سے واضح ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت روپے کی قیمت گرائی گئی جس کی وجہ سے، انھوں نے دعویٰ کیا، صرف مئی کے مہینے سے لے کر آج تک پاکستان کے قرضے 11 ارب ڈالر بڑھ چکے ہیں۔

’معاشی ماہرین جو کہہ رہے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں‘

کپاس

اقتصادی سروے کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبے میں بھی زیر جائزہ مالی سال میں کمی دیکھنے میں آئی ہے

مزمل اسلم نے آئی ایم ایف کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر پاکستان کے معاشی اعشاریوں کے اندازوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشی ماہرین جو کہہ رہے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں۔

ان کے مطابق آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے بڑھنے کا جو اندازہ لگایا ہے وہ تو پاکستان کے 4.8 فیصد کے ہدف سے کم ہے۔ اسی طرح اگر بیروزگاری میں کمی کی بات کی گئی ہے تو وہ معاشی سرگرمیوں کے بڑھنے جن میں زرعی پیداوار میں اضافہ اور تعمیراتی شعبے میں زیادہ سرگرمیوں کی بنیاد پر ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے گذشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کے دو فیصد پر بڑھنے کی توقع کی تھی لیکن پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.9 فیصد رہی۔

انھوں نے کہا مہنگائی میں بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں اور دنیا میں اس وقت جو غیر یقینی کی صورتحال ہے اس پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

آئی ایم ایف کتنی تکنیکی صلاحیت کا حامل ہے؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوئی خاص تیکنیکی صلاحیت نہیں ہے اس کی وجہ سے اس کے معیشت کے بارے میں تخمینے اور اندازے ’نقائص سے بھرپور ہوتے ہیں‘۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہ وزارت خزانہ میں تھے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوتے تھے تو وہ جی ڈی پی اور ریونیو کا جو نمبر دے دیتے آئی ایم ایف اسے قبول کر لیتا کیونکہ اس کے پاس پاکستان کی معیشت کو جانچنے کے لیے تیکنیکی صلاحیت موجود نہیں ہے اور وہ اندازوں پر اپنی رائے دیتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس معیشت کو جاننے کی تیکنیکی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر دنیا میں کسی ادارے کے پاس ڈیٹا اور تیکنیکی صلاحیت موجود ہے تو وہ آئی ایم ایف کا ادارہ ہے جس کے پاس کسی ملک کی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اور معلومات ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اگر پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اگر جی ڈی پی پر پیش گوئی کرنی ہے تو یہ کون سا مشکل ہے کیونکہ انڈسٹری اور زراعت کا ڈیٹا تو موجود ہوتا ہے صرف خدمات کے شعبے پر تھوڑا کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments