ویرپپن: انڈیا کے صندل سمگلر جنھوں نے اپنے ٹھکانے کو خفیہ رکھنے کے لیے اپنی نوزائیدہ بیٹی کو قتل کیا


ویرپپن
ماضی میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے جنگلوں میں گشت کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ایک پیٹرول پولیس فورس ہوا کرتی تھی جس کے سربراہ گوپال کرشنن تھے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب انڈیا میں صندل کے سمگلر ویرپپن اتنے مشہور نہیں ہوئے تھے۔

گوپال کرشنن کے بازو اتنے مضبوط تھے کہ اُن کے ساتھی انھیں ’ریمبو‘ کہتے تھے۔ ریمبو گوپال کرشنن کے بارے میں خاص بات یہ ہے ان کا تعلق اسی ذات اور قبیلے سے ہے جس سے ویرپپن تعلق رکھتے ہیں۔

نو اپریل 1993 کی صبح کولاتھ پور گاؤں میں ایک بڑا سا بینر ملا جس میں ریمبو گوپال کرشنن کے لیے ویرپپن کی جانب سے غلیظ گالیاں لکھی گئی تھیں۔ اس میں انھیں یہ بھی چیلنج بھی دیا گیا کہ اگر اُن میں ہمت ہے تو وہ آ کر انھیں (ویرپپن) کو پکڑ لیں۔

ریمبو نے فیصلہ کیا کہ وہ اُسی وقت ویرپپن کو پکڑنے کے لیے نکلیں گے۔ اپنے اس مشن کے دوران جیسے ہی وہ پلار پُل پر پہنچے اُن کی جیپ خراب ہو گئی۔ انھوں نے اسے چھوڑ دیا اور پل پر تعینات پولیس اہلکاروں کو دو بسوں کا بندوبست کرنے کو کہا۔ ریمبو 15 مخبروں، چار پولیس اہلکاروں اور دو جنگل کے محافظوں کے ساتھ پہلی بس میں سوار ہوئے۔

جبکہ تمل ناڈو پولیس کے انسپکٹر اشوک کمار اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ دوسری بس میں سوار ہوئے۔ ویرپن کے گینگ نے جنگل میں موجود اپنے ٹھکانوں میں بسوں کی تیزی سے آنے کی آواز سُنی تو وہ پریشان ہوئے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ ریمبو جیپ پر سوار ہو کر آئیں گے۔

ویرپپن

لیکن ویرپپن نے دور سے ہی دیکھ کر ساتھیوں کو متنبہ کیا۔ انھوں نے ریمبو کو دور سے آنے والی بس کی پہلی سیٹ پر بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ جیسے ہی بس ایک مقررہ مقام پر پہنچی ویرپپن گینگ کے رُکن سائمن نے 12 بولٹ کی بیٹری کو بارودی سرنگ سے جوڑ دیا۔

ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ بس کے نیچے کی زمین ہلی، پوری بس ہوا میں اچھلی اور پتھروں، دھات اور مسخ شدہ گوشت کے ٹکڑوں کا ملبہ زمین پر آن گرا۔

کے وجے کمار اپنی کتاب ’ویرپن چیزنگ دی بریگینڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ دور چٹان کی آڑ میں بیٹھے ویرپپن بھی کانپنے لگے اور ان کا پورا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بس جائے وقوعہ پر پہنچی جس میں انسپکٹر اشوک کمار سوار تھے۔ اس بس میں سوار افراد نے تباہ شدہ بس کے ملبے سے 21 مسخ شدہ لاشیں نکالیں۔‘

انسپیکٹر اشوک کمار نے بعد میں وجے کمار کو بتایا کہ انھوں نے تمام لاشیں اور زخمیوں کو پیچھے آنے والی دوسری بس میں رکھا، لیکن اس بدحواسی کے عالم میں وہ اپنے ایک ساتھی سوگمار کو وہاں ہی چھوڑ آئے کیونکہ وہ ہوا میں اچھل کر کچھ فاصلے پر جا گرا تھا۔ انھیں اس کا علم اس وقت ہوا جب بس وہاں سے روانہ ہو چکی تھی، سوگمار کچھ ہی دیر میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔

یہ ویرپپن کی پہلی بڑی کارروائی تھی جس نے انھیں پورے ہندوستان میں بدنام کر کے رکھ دیا۔

18 جنوری 1952 کو پیدا ہونے والے ویرپپن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 17 سال کی عمر میں پہلی بار ہاتھی کا شکار کیا تھا۔ ہاتھی کو مارنے کی ان کی پسندیدہ تکنیک یہ تھی کہ اسے پیشانی کے بیچ میں گولی مار دی جائے۔

ویرپپن کا خاتمہ کرنے والے پولیس افسر کے وجے کمار

ویرپپن کا خاتمہ کرنے والے پولیس افسر کے وجے کمار

جب ویرپن کو پکڑ لیا گیا

کے وجے کمار کہتے ہیں ’ایک دفعہ جنگلات کے افسر سرینواس نے ویرپپن کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ لیکن اس نے سکیورٹی اہلکاروں سے کہا کہ اسے شدید سر درد ہے، اس لیے اسے تیل دیا جائے جو وہ اپنے سر پر لگا سکے۔ اس نے وہ تیل سر میں لگانے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں لگایا اور چند منٹوں میں اس کی کلائیاں ہتھکڑیوں سے نکل آئیں۔ حالانکہ ویرپپن کئی دنوں تک حراست میں رہا لیکن اس کی انگلیوں کے نشان (فنگر پرنٹس) نہیں لیے گئے۔‘

ویرپن کے وحشی پن کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے جنگلات کے اس افسر سرینواس کا بعدازاں سر قلم کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فٹ بال کھیلا۔ یہ وہی سرینواس تھے جنھوں نے پہلی بار ویرپپن کو گرفتار کیا تھا۔

وجے کمار بتاتے ہیں: ’سرینواس، ویرپپن کے چھوٹے بھائی ارجنن کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ ایک دن انھوں نے سرینواس سے کہا کہ ویرپپن ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے کہا کہ آپ نامدیلہی کی طرف چلنا شروع کریں۔ وہ آدھے راستے میں آپ سے ملے گا۔ سرینواس کچھ لوگوں کے ساتھ ویرپپن سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران سرینواس کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے سب ساتھی انھیں چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔‘

ویرپپن

ویرپپن کی درندگی

'ایک وقت آیا جب صرف ویرپن کا بھائی ارجنن ہی ان کے ساتھ رہ گيا۔ جب وہ ایک تالاب کے قریب پہنچے تو ایک جھاڑی سے کچھ لوگوں کا ہیولہ آگے بڑھتا ہوا نمودار ہوا۔ ان میں سے ایک کی لمبی مونچھیں تھیں۔ سرینیواس سمجھے کہ ویرپپن ہتھیار ڈالنے والا ہے لیکن پھر انھیں احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

‘ویرپپن کے ہاتھ میں رائفل تھی اور وہ انھیں گھور رہا تھا۔ سرینیواس نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ وہ ارجنن کے ساتھ تنہا کھڑا ہے۔ ویرپپن انھیں دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس سے قبل کہ سرینیواسن کچھ کہتے ویرپپن نے فائر کیا۔ وہ اس پر ہی نہیں رکا اور سرینواس کا سر قلم کیا اور اسے ٹرافی کی طرح اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس نے اور اس کے گروہ نے فٹ بال کی طرح ان کے سر سے کھیل کھیلا۔‘

آپ نے جرائم کی دنیا میں ظلم کی کئی داستانیں سُنی ہوں گی لیکن آپ نے یہ نہیں سُنا ہو گا کہ کسی لٹیرے یا ڈاکو نے خود کو بچانے کے لیے اپنی نوزائیدہ بچی کی قربانی دی ہو۔

وجے کمار بتاتے ہیں: ’ویرپپن کے ہاں سنہ 1993 میں بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ تب تک اس کے گروہ کے ارکان کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی تھی۔ بچے کے رونے کی آواز چونکہ بہت زیادہ ہوتی ہے اور جنگل میں رات کے اندھیرے میں یہ آواز ڈھائی کلومیٹر دور تک سنی جا سکتی ہے۔‘

’ایک بار ویرپپن بچی کے رونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار بھی ہوا تھا اور پکڑے جانے کے قریب تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بچی کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 1993 میں کرناٹک ایس ٹی ایف کو ماری مادوو میں ایک ہموار قطع زمین پر ایک ابھری ہوئی جگہ نظر آئی۔ جب اسے کھودا گیا تو وہاں سے ایک نومولود بچی کی لاش ملی۔‘

کننڑ فلم کے اداکار راج کمار 100 دنوں تک ویرپپن کی قید میں رہے

کننڑ فلم کے اداکار راج کمار 100 دنوں تک ویرپپن کی قید میں رہے

سو دنوں تک قید میں

سنہ 2000 میں ویرپپن نے جنوبی ہند کے مشہور اداکار راج کمار کو اغوا کر لیا۔ راج کمار 100 سے زائد دنوں تک ویرپن کی قید میں رہے۔ اس دوران ویرپپن نے کرناٹک اور تمل ناڈو کی ریاستی حکومتوں کو اپنے گھٹنوں پر لا کھڑا کیا تھا۔

جون 2001 میں صبح 11 بجے اچانک سینیئر آئی پی ایس افسر کے وجے کمار کے فون کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر ’اماں‘ فلیش ہوا۔ انھوں نے اماں کے نام پر جے للیتا کا فون نمبر فیڈ کر رکھا تھا۔

کوئی وقت ضائع کیے بغیر جے للیتا نے براہ راست کہا: ’ہم آپ کو تمل ناڈو سپیشل ٹاسک فورس کا سربراہ بنا رہے ہیں۔ اس صندل سمگلر کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی سر اٹھا رہا ہے۔ آپ کو کل تک آرڈرز مل جائیں گے۔‘

ایس ٹی ایف کے سربراہ بنتے ہی وجے کمار نے ویرپپن کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں۔ پتہ چلا کہ ویرپپن کو آنکھ میں تکلیف ہے۔ موچھوں پر خضاب لگاتے ہوئے اس کے چند قطرے ویرپپن کی آنکھوں میں چلے گئے تھے۔

وجے کمار بتاتے ہیں کہ ’ویرپپن کو بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے آڈیو اور ویڈیو ٹیپ بھیجنے کا شوق تھا۔ ایک بار ایسی ہی ایک ویڈیو میں، ہم نے ویرپپن کو ایک کاغذ سے پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرتے دیکھا۔ تب ہمیں پہلا اشارہ ملا کہ اس کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہے۔ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی ٹیم کو کم کر دیں گے۔ جب بھی ہم بڑی ٹیم کے لیے راشن خریدتے تھے، یہ بات لوگوں کی نظر میں آ جاتی تھی اور ویرپپن کو اس کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو جاتا تھا۔ لہٰذا ہم نے چھ چھ افراد پر مشتمل کئی ٹیمیں بنائيں۔‘

ویرپن کے لیے ایک جال بچھایا گیا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروانے کے لیے جنگل سے باہر آنے پر مجبور ہوں۔ اس کے لیے ایک خصوصی ایمبولینس کا انتظام کیا گیا جس پر ایس کے ایس ہسپتال لکھا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا وہ ڈاکو جسے پاکستان نے پناہ دی

قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتا

سلطانا ڈاکو اور برصغیر میں امیر کو لوٹ کر غریب کو دینے کی روایت

اس ایمبولینس میں ایس ٹی ایف کے دو جوان انسپکٹر وللئی دورائی اور ڈرائیور سروانن پہلے ہی سے بیٹھے تھے۔ ویرپپن نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور پہچانے جانے سے بچنے کے لیے اس نے اپنی مشہور ہینڈل والی مونچھیں منڈوا دی تھیں۔

ڈرائیور سروانن نے پہلے سے طے شدہ جگہ پر بریک اتنی سختی سے لگایا کہ ایمبولینس میں موجود ہر شخص اپنی جگہ سے اچھل گیا۔ کے وجے کمار یاد کرتے ہیں کہ ’وہ بہت تیز رفتاری سے آ رہا تھا۔ سروانن نے اتنی تیزی سے بریک لگائی کہ ہم نے ٹائر سے دھواں اٹھتے دیکھا۔ ٹائر جلنے کی بو ہماری ناک تک پہنچ رہی تھی۔ سروانن میرے پاس دوڑ کر پہنچا۔‘

تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا وجے کمار کو میڈل پہناتے ہوئے

تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا وجے کمار کو میڈل پہناتے ہوئے

وجے کمار کی کامیاب مہم

’میں نے اس کے منھ سے واضح طور پر یہ الفاظ سُنے، ’ویرپپن ایمبولینس کے اندر ہے‘۔ تب ہی میرے اسسٹنٹ کی آواز میگا فون پر گونجی ’اپنے ہتھیار ڈال دو، تم چاروں طرف سے گھیر لیے گئے ہو۔‘ پہلا فائر ان کی طرف سے ہوا۔ پھر چاروں طرف گولیاں چلنے لگیں۔ میں نے بھی اپنی اے کے 47 کا پورا برسٹ ایمبولینس پر جھونک دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولینس سے جوابی فائر آنا بند ہو گیا۔‘

’ہم نے ان پر کل 338 راؤنڈ فائر کیے۔ اچانک سب کچھ دھوئیں میں بدل گیا۔ ایک تیز آواز آئی، آل کلیئر۔ انکاؤنٹر رات 10.50 بجے شروع ہوا۔ 20 منٹ کے اندر ویرپن اور اس کے تین ساتھی مارے جا چکے تھے۔’

حیرت کی بات یہ ہے کہ ویرپپن کو صرف دو گولیاں لگیں۔ سنہ 1960 کی دہائی میں جب فرانسیسی صدر ڈی گال کی گاڑی پر 140 گولیاں چلائی گئیں تو صرف سات گولیاں ہی کار پر لگی تھیں۔

میں نے کے وجے کمار سے پوچھا کہ جب آپ ایمبولینس میں داخل ہوئے تو کیا ویرپپن زندہ تھا؟

ان کا جواب تھا: ’اس کی تھوڑی بہت سانس چل رہی تھی۔ میں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ اس کا دم نکل رہا ہے، لیکن پھر بھی میں نے اسے ہسپتال بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ گولی اس کی بائیں آنکھ کو چیرتے ہوئے پار نکل چکی تھی۔ بغیر مونچھون کے ویرپپن ایک بہت عام آدمی لگ رہا تھا۔ بعد میں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر والینیاگم نے مجھے بتایا کہ ویرپپن کا جسم 52 سال کا ہونے کے باوجود 25 سال کے نوجوان کی طرح تھا۔‘

ویرپپن کی موت کے بعد بھی ایس ٹی ایف کے لوگوں کو عام طور پر یقین نہیں آیا کہ یہ واقعی ہوا ہے۔ جیسے ہی انھیں احساس ہوا انھوں نے اپنے سربراہ وجے کمار کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ وجے کمار تیز قدموں سے دو دو زینے پھلانگتے ہوئے سکول کی بالکونی پر پہنچے۔

وہاں سے انھوں نے تمل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا کو فون کیا، ان کی سیکریٹری شیلا بالاکرشنن نے فون اٹھایا۔ انھوں نے کہا: ’میڈم سونے کے لیے جا چکی ہیں۔‘

وجے کمار نے کہا؛ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ میری بات سن کر بہت خوش ہوں گی۔‘

وجے کمار یاد کرتے ہیں: ’اگلے ہی لمحے میں نے فون پر جے للیتا کی آواز سُنی۔ میرے منھ سے نکلا، میڈم وی ہیو گاٹ ہم۔ جے للیتا نے مجھے اور میری ٹیم کو مبارکباد دی اور کہا کہ مجھے اس سے بہتر کوئی اور خبر نہیں ملی۔‘

فون منقطع کرنے کے بعد وجے کمار اپنی جیپ کی طرف بڑھے۔ انھوں نے ایمبولینس پر آخری نظر ڈالی۔ اس کی چھت پر نیلی روشنی اب بھی گھوم رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک گولی بھی اسے نہیں لگی تھی۔ انھوں نے اسے بند کرنے کا حکم دیا۔ گویا بجھی ہوئی لائٹ پوری دنیا کو بتا رہی تھی کہ ’مشن پورا ہوا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments