منکہ مسمی منیر نسیم (4)


تیسری قسط کا آخری حصہ

عباس خان کی بیٹی رفیقہ اسے چابی دیتی تو وہ یہ سوزوکی لے کر کام پر چلا جاتا۔ چابی کے اس لین دین میں سلیمان کا رفیقہ سے کچھ معاملہ سیٹ ہو گیا۔ دونوں ہی بے حد خوب صورت تھے۔

علی اشرف کو اس افیئر کا علم کا مسجد میں ہوا۔ میاں والی کے کئی لوگ وہاں مسجد میں آتے تھے۔ رفیقہ کے چچا نے اسے بتایا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس کا ملازم یعنی زرینہ کا بھائی سلیمان اس کی بھتیجی پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ علی اشرف نے پہلو بچایا کہ وہ اس کا ملازم ضرور ہے مگر اس سے زیادہ اس کے معاملات میں وہ کوئی مداخلت کرنے سے قاصر ہے پھر بھی وہ موقع دیکھ کر سلیمان کو ضرور سمجھائے گا۔ وہ اگر ناخوش ہیں تو وہ سوزوکی کہیں اور کھڑی کر لے گا

٭٭٭ ٭٭٭

چوتھی اور آخری قسط

چلئے اس قصے کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں روک دیتے ہیں۔ منکہ مسمی منیر نسیم کی معطلی اور بحالی کا معاملہ ہم نے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ علی اشرف سے میرا رابطہ کوئی سال بھر سے منقطع تھا۔ لین دین پر کوئی چھوٹی سی بدمزگی ہو گئی تھی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ مزار کے متولی موسی کے فلانی طوائف سے بہت اچھے مراسم ہیں۔ موسی کے پارٹی میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم صاحبہ اکثر دعا مانگنے اس مزار پرIncognito رات گئے آتی ہیں۔ صاحب مزار سے انہیں بہت گہری عقیدت ہے۔ خاکسار کچھ عرصے کے لیے تھانہ نیپئر پر بھی ڈیوٹی دے چکا تھا۔ طوائف جیناں سے ملاقات ہوئی تو اس کے اپنے مسائل تھے۔ اس کا بھائی لیاری میں کسی میانوالی کے سودی کاروبار کرنے والے سے الجھ پڑا تھا۔ وہ اسے مارنے کے درپے تھے۔ اصل رقم تو پچاس ہزار ہی تھی مگر دو لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد بھی وہ مزید رقم مانگتے تھے۔

خاکسار نے بہتر سمجھا کہ علی اشرف سے رابطہ کر کے اس معاملے کو سلجھا دے۔ وہ میاں والی والوں میں بہت معتبر سمجھا جاتا تھا۔ ملاقات کے لیے مزار کو بہتر ہی سمجھا گیا۔ علی اشرف کے سمجھانے پر میاں والی والا سود خور مان گیا اور اصل زر یعنی پچاس ہزار میں معاملے نمٹ گیا۔ پچیس ہزار ہم دونوں دوستوں نے اور اتنے ہی جیناں نے ادا کیے تو موسی کی مداخلت پر سی ایم ہاؤس سے فون آیا اور خاکسار کو بحال کر کے تھانہ کلاکوٹ میں تقرری کردی گئی۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں علی اشرف کی راج دھانی تھی۔

میری بحالی کو پورے تین ماہ ہو چلے تھے کہ علی اشرف نے بتایا کہ اس کے ملازم سلیمان کا علاقے میں رہنے ولے میاں والی کے چند لڑکوں سے جھگڑا ہو گیا ہے۔ میرا مشورہ یہ تھا کہ وہ اس جھگڑے سے پرے ہی رہے تو بہتر ہے۔ وہ ایک کاروباری آدمی ہے۔ علاقے کے مزاج سے بخوبی واقف ہے۔ یہ سب لوگ کراچی ضرور آ گئے ہیں مگر ان کا دل اور دماغ اب بھی اپنے علاقے کی رسم و رواج کی قیود سے آزاد نہیں ہوا۔ یہ کم بخت سب چاہتے ہیں کہ کراچی ان کے میاں والی۔ بونیر، چیچہ وطنی اور کھپرو جیسا ہو جائے یہ ٹس سے مس ہو کر کراچی جیسے نہ ہوں۔ خاکسار بھلے سے سرگودھا کا ڈھگا ہے مگر جانتا ہے کہ کراچی میں رہنے کے آداب ہیں۔ اللہ بخشے ہمارے ایس ایچ او جعفر نقوی مرحوم کہا کرتے تھے

جناں صاحب نے کراچی کو جب دار الحکومت بنایا تو ان سے بڑی غلطی ہوئی۔ بیس صوبے بنا دیتے۔ عربی کو قومی زبان اور کراچی میں داخلے کا ورک پرمٹ صرف میٹرک پاس کو ملے گا۔

چار دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ سلیمان کو لڑکی کے رشتہ دار لڑکوں نے قتل کر دیا ہے۔ وہ موٹر سائیکل پر سوار کہیں جا رہا تھا کہ پیچھے سے جیپ نے ایسی ٹکر ماری کہ کافی دور تک اسے روندتی ہوئی چلی گئی۔ چار لڑکے اس جیپ میں سوار تھے۔

بات یہاں سے شروع ہوئی کہ لڑکی کے ایک قریبی رشتہ دار لڑکے گلریز نے سلیمان کو کہا ہے کہ رفیقہ اس سے سیٹ ہے۔ وہ اس سے کنارہ کر لے۔ سلیمان جسے لیاری میں رہ کر یہ احساس کچھ زیادہ ہی شدت سے ہو گیا تھا کہ اس کا شمار علاقے کے خوبرو ترین مردوں میں ہوتا ہے۔ اس نے گل ریز کو کہا کہ ایسا کرتے ہیں رفیقہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس کا دل ہم دونوں میں سے کس کی جانب مائل ہے۔ دوسرا فریق اس کے جواب کے بعد خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا۔ گلریز کہنے لگا کہ ہماری طرف کی لڑکی دوسری قوم کے مرد سے پیار تو کیا وہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ سلیمان نے یہ طعنہ سن کر اسے گھٹیا جواب دیا کہ رفیقہ تو اس کے پیار میں پاگل ہے ہی، وہ ذرا اپنی بہن ندا کی خبر لے، کیوں کہ وہ بھی اس پر جان نچھاور کرتی ہے۔ ممکن ہے لڑکے کو پرانی دوستی کے چکر میں یہ طعنہ برداشت کر لیتا مگر رفیقہ کا ایک تایا ہیبت خان اس وقت وہاں موجود تھا۔ اس نے یہ بات سنی تو اس کو پرانا میانوالی یاد آ گیا۔ اسی نے لڑکے کو طیش دلایا۔ ہاتھا پائی ہو گئی مگر اس تکا فضیحتی میں تایا بھی دھکا لگنے سے زمین پر گر گیا اور اس کی وجہ سے اشتعال پھیل گیا۔ سلیمان کے پاس کسی دوست کی موٹر سائیکل تھی وہ ماری پور روڈ پر نکل گیا۔ یہ لڑکے جمع ہوئے اور جب یہ ایک جگہ رکا ہوا تھا اس کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر سلیمان آگے بڑھ گیا مگر لڑکوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ انہوں نے سلیمان کو جیپ سے روند ڈالا۔

سلیمان کی موت سے زرینہ پریشان ہو گئی۔ مقتول سلیمان کے پختون بڑوں نے فیصلہ کیا کہ پولیس کو اس کیس سے دور ہی رکھا جائے گا۔ وہ خود ہی بدلہ لیں گے۔ جن لڑکوں نے قتل عمد کی اس واردات میں حصہ لیا، ان سب کو جواباً قتل کیا جائے گا۔ تدفین کے لیے سلیمان کی لاش شبلان لے جائی گی۔

شبلان

میانوالی والوں کی جانب سے جرگے کی پیشکش ہوئی۔ میں نے تو علی اشرف کو کہا کہ وہ اس جرگے سے کنارہ کشی اختیار کرے مگر مقتول کے لواحقین کا اس کی شمولیت پر اصرار تھا۔ مقتول چونکہ اس کا ملازم تھا لہذا انہیں یقین تھا کہ اس کی شمولیت شاید دونوں پارٹیوں کے درمیان مخاصمت کی فضا کم کردے گی۔ مقتول سلیمان کے گروپ نے دو زیادتیاں یہ کیں کہ ایک تو جرگے کی کارروائی کے دوران ہی واردات میں شامل قاتل پارٹی کے ایک لڑکے کے چھوٹے بھائی کو اغوا کر لیا۔ دوسرے ایک کہیں سے ایک میلا مقامی بدمعاش رہنما شاہ میر کو بھی شامل کر لیا جس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی تھا۔ علی اشرف نے محسوس کیا کہ دونوں جانب سے اس ناپسندیدہ شخص کی شمولیت سے بد اعتمادی کو فروغ ملا۔

لواحقین بمشکل راضی نامے پر متفق ہوئے مگر ان کی جانب سے شرائط کافی کڑی تجویز کی گئیں۔ ان کا ایک مطالبہ تو یہ تھا کہ میان والی والوں کی تین لڑکیاں بطور مائترے مقتول کے لواحقین کے حوالے کریں گے جن کی شادی وہ اپنی مرضی سے کریں گے۔ میاں والی کسی طور اپنی شرم غیر قوم کے افراد کے حوالے کرنے پر رضامند نہ تھے۔ مائترے میں مانگی جانے والی لڑکیوں میں رفیقہ بھی شامل تھی جس کا سلیمان سے چکر تھا اور جس کی وجہ سے فساد برپا ہوا۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ روپے بھی مانگے گئے۔ پچاس لاکھ وہ غنڈہ سیاست دان خود گھٹکانے کے موڈ میں تھا۔

تھانے کی طرف سے تفتیش مجھ اے ایس آئی منیر نسیم کو تفویض ہوئی۔ عام طور پر قتل کی تفتیش سب انسپکٹر لیول کے پولیس افسر کو دی جاتی ہے مگر ایک تو ہمارے ہاں سب انسپکٹر صاحبان لا ءاینڈ آرڈر کی وجہ سے کبھی رینجرر تو کبھی آئی جی آفس کی خدمت میں ہلکان رہتے تھے۔ دوسرے گانٹھ کے پورے یہ گھاگ افسر بخوبی جانتے کہ جو محنت اور توجہ وہ اس کیس پر لگائیں گے وہ ان کے لیے کچھ زیادہ بار آور ثابت نہ ہوگی کیوں کہ اس کا نتیجہ بالآخر کم پرومائز یعنی راضی نامہ نکلے گا اس سے کہیں زیادہ منافع بخش کام تو یہ ہے کہ وہ گینگ وار والوں کا ایک آدھا کنسائن منٹ مقام مقصود تک آر پار کرا دیں۔

ایس ایچ او صاحب کو علم تھا کہ خاکسار کے مراسم علی اشرف سے بہت گہرے ہیں۔ مجھ ہیچ مدانی (حقیر) کو تفتیش کی سپردگی کے وقت اس افسر عالی مقام کی واحد ہدایت یہ تھی کہ قاتل پارٹی سے رقم اینٹھنی ہے۔ مقدمہ کی کارروائی کچی رکھنی ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ جرگہ ہی کرے گا، عدالت نہیں۔

رقم اینٹھنے کے لیے میں نے علی اشرف کو مشورہ دیا کہ وہ شارٹ ہو جائے۔ جرگے کے معاملات سے ذرا لا تعلق رہے۔ مقامی بدمعاش رہنما شاہ میر جو مقتول پارٹی کی جانب سے آ رہا تھا، اس کا مطالبہ ہے کہ جرگے کے فیصلے میں ملنے والی رقم میں سے پچاس لاکھ روپے اسے ادا کیے جائیں۔ میانوالی والوں کی قاتل پارٹی کا جو لڑکا اغوا ہوا تھا۔ مجھے لگا کہ اس میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔ لیاری سے آگے نکلیں تو ماری پور روڈ کراس کرتے ہی سائٹ کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں شاہ میر کا کافی ہولڈ تھا۔ خاکسار نے اس قتل کو بقول چینیوں کے، ایک جلتا ہوا گھر سمجھ کر لوٹنے کی مکمل منصوبہ بندی کی۔ اس سیاسی بستہ (ب) کے بدمعاش شاہ میر کو پیغام دیا کہ پیچھے ہی دھوبی گھاٹ ہے۔ یہاں ان کی مخالف پارٹی کا ایسا زور ہے کہ لیاری والے بھی کان پکڑتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ گھات لگا کر ایک دن اس کو ٹپکا دیں اور شہر میں لسانی فسادات کی نئی رو چل پڑے۔

اسے اس مہاجروں کی پارٹی کی انتقام پسندی اور اپنے لڑکوں پر کنٹرول کا بخوبی اندازہ تھا۔ منشیات اور اسلحے کے کام جوئے کے دو اڈوں اور ایک منی بس اسٹینڈ کے لیے ان علاقوں میں جہاں یہ مہاجر لڑکے حاوی تھے۔ وہ ا پنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے ان کی مناسب معاوضے پر مدد لیتا رہتا تھا۔ جب اسے علاقے سے دور رہنے کا پیغام ملا تو بات خود ہی سامنے آ گئی کہ وہ پچاس نہ سہی کم از کم پچیس لاکھ کا تو حقدار ہے کیوں کہ مقتول پارٹی محض اس کی وجہ سے ابھی تک قاتل لڑکوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا رہی۔ ورنہ ان کا منصوبہ تو دس بارہ لڑکوں کو ڈھیر کرنے کا ہے۔ خاکسار نے بہت آہستگی سے اسے یہ باور کرایا کہ یہ باجوڑ یا انگور اڈہ نہیں کراچی ہے۔ یہ نہ ہو کہ میانوالی والے اس کی یہ بات سن کر اسے اغوا کر کے کسی ڈرم میں بند کر اوپر سے سمینٹ بھر کر سیل کر دیں۔ اپنے کسی فش ٹرالر پر اسے لاد کر یہ ڈرم کراچی کی جزیرے شمس آباد سے آگے بیچ سمندر میں ایسے ڈبو دیں کہ قیامت کے دن اس کی اینٹری میدان حشر میں تلاش بسیار کے بعد سب سے آخر میں ہو۔ بزدل تھا، ڈر گیا۔

دھوبی گھاٹ لیاری

میں نے ہی علی اشرف کو بتایا کہ ہماری ٹیم کا ایک سپاہی کنڈیاں۔ میاں والی کا ہے۔ وہ خبر نکال کر لایا ہے کہ قاتل پارٹی کے لوگوں میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ایک تو رقم بہت زیادہ مانگی جا رہی ہے۔ دوسرے رشتہ یا مائترہ بھی تین لڑکیوں کا مانگ رہے ہیں۔ بہتر یہ ہو گا کہ رقم آدھی ہو جائے اور مائترہ بھی رفیقہ کو چھوڑ کر دو بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کا ہو اور شادی بھی ان کی منظوری سے کی جائے۔ تین کنواریاں اور ایک کروڑ زیادہ ہے۔

ان کے دماغ میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اس معاملے کے چند اہم، پولیس اور عدالت، جرگے کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فیصلہ صادر کرتے وقت ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔

خاکسار یعنی من کہ مسمی منیر نسیم نے اس دوران قاتل پارٹی پر دباؤ بڑھائے رکھا کہ آئی جی صاحب پر مقتول پارٹی کی پختون قومیت والی مشہور سیاسی جماعت اور پھل اور ٹرانسپورٹ انجمنوں کا بہت دباؤ ہے کہ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور پولیس شیشہ (آئس لیاری سے شہر بھر میں سپلائی کیا جانے والے میتھامیفاٹامائن کا نشہ جسے کرسٹل، میتھ، شابو کہتے ہیں اور جسے تمباکو۔ سونگھ کر یا سرنج کے ذریعے لیے جاتا ہے) چڑھا کر سو رہی ہے۔

میں نے سوچا کہ قاتل پارٹی کے ہوش اڑانے اور ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک جھوٹی موٹی خبر اخبار ڈال دیتے ہیں۔ میڈیا اور چینل والوں سے ایک آدھ فون ڈی آئی جی صاحب کے دفتر کھڑکا دیتے ہیں مگر ایس۔ ایچ۔ او صاحب کہنے لگے پہلے ہی کیک چھوٹا ہے۔ مقتول پارٹی بھی اوپر سے ایک کروڑ کا منھ کھول کر بیٹھی ہے۔ ڈی آئی جی آفس والے بھی ہیجڑوں کی طرح تالی پیٹتے نیگ بٹورنے آ جائیں گے۔

سچ ہے پولیس اور فوج میں کندھے پر چاند، ستارے اور لہراتی تلواریں سجتی ہیں تب ہی مال بنانے اور دنیا داری کی صحیح سمجھ آتی ہے۔ ابا جی کا قول یاد آ گیا کہ فوج اور پولیس میں عقل کا تعلق رینک سے ہے علم اور تجربے سے نہیں۔ اب مجھ ایک ستارہ، ٹلا طیارہ، رنڈیوں اور مزار کے متولیوں سے تعیناتی کی بھیک مانگنے والے۔ اے۔ ایس۔ آئی منیر نسیم کو کیا خبر کہ ڈی آئی جی آفس والے اور یہ میڈیا والے بھی کتنے بڑے پیدا گیر ہیں۔ یہ تو آپ کو یاد ہے نا کہ خاکسار کا تعلق ٹلا برادری سے ہے۔ ہم چھج دو آبہ کے جٹوں کی ایک شاخ ہیں۔

آج کل ٹی وی چینلوں پر جو ایک وارننگ آتی ہے کہ بچے اور کمزور دل کے افراد اس ویڈیو کلپ کے مناظر کی وجہ سے یا تو چینل بدل لیں۔ یا ٹی وی بند کر دیں تو میری درخواست ہے کہ اب اس کہانی میں ایک مقتل سجنے کو ہے لہذا جی دار قارئین اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ کم زور دل افراد اس کہانی کو یہاں چھوڑ کر ساحر لودھی کا کوئی چھچھورا پروگرام یا یا شبیر تو دیکھے گا یا اس پولیسٹر جیمز بونڈ کا کرمنل موسٹ وانٹد کا پروگرام دیکھ کر اپنے خون کی تحریک کو مناسب انداز میں گرم رکھ سکتے ہیں۔ جان لیں کہ زندگی کے بارے میں جو کچھ میڈیا دکھاتا ہے زندگی اس سے بہت ہی گھناؤنی، بے رحم اور سفاک ہے۔

زرینہ بھائی کے بعد شبلان سے تدفین کے بعد واپس آ گئی تو اس کے ساتھ اس کا ایک ماموں درمان خان بھی تھا۔ علی اشرف کو لگا کہ یہ ماموں اس کے بھائی سلیمان سے مرنے سے پہلے حاصل شدہ بریفنگز کی بنیاد پر آیا تھا۔ زرینہ کو علاقے میں اٹھنے بیٹھنے والے اپنے مقتول بھائی سلیمان اور خود علی اشرف کی وجہ سے گینگ کی کارروائیوں اور لمبی رقموں کا بہت پتہ تھا۔ درمان خان کے افغانستان اور بلوچستان کے منشیات کے اسلحہ کے اسمگلروں سے تعلقات تھے۔ اسی وجہ سے اسے ہمارے علاقے کی مشہور لیاری گینگ نے کھلے ہاتھوں سے خوش آمدید کہا۔

زرینہ کی شبلان سے واپسی کے کچھ دن بعد میری علی اشرف سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ افسردہ اور بے لطف دکھائی دیا کریدنے پر اس نے بتایا کہ زرینہ اور درمان کے تعلقات ماموں بھانجی سے زیادہ ہیں۔ میں نے علی اشرف سے پوچھا کہ اس نے خود اس طرح کی کوئی حرکت دیکھی تو وہ کہنے لگا کہ یہ کوئی ورلڈ کپ فٹ بال کا فائنل تو ہے نہیں کی اسے دنیا کا میڈیا براہ راست نشر کرے۔ نہ ہی ٹویٹر اور فیس بک پر اسے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے۔ نہ واٹس اپ پر ان کا کوئی ایم ایم ایس یا ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے۔ اسے البتہ یہ سو فیصد یقین ہے کہ ایسا ہی کوئی چکر ہے کیوں کہ ایک تو اب زرینہ اسے بہت کم قریب آنے دیتی ہے۔ سال بھر سے اوپر ہونے آیا اس نے گھر کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا۔

ایک دن اچانک زرینہ کی مہربانی کے بادل ٹوٹ کر برسے۔ اس کی ضد تھی علی اشرف اسے نئے گھر کے لیے ایک فرج خرید دے۔ پرانا کرایہ معاف کردے۔ پیار اور سپردگی کے ایسے ہی لمحات تھے کہ اس نے علی اشرف کو کہا ہم پختون اپنے پختونوں میں ایسے ہی خوش رہتے ہیں جیسے پھول گلستان اور مچھلی دریا میں رہتی ہے۔ تمہارا پیار ہم کو انڈا برگر جیسا لگتا ہے جب کہ ہم کو ہمیشہ سے نان، پیاز، افغانی تکہ اور چپلی کباب پسند ہے۔

علی اشرف نے اس لمحات سپردگی میں تھوڑے کو بہت سمجھا اور زرینہ کو بہت خوش اسلوبی سے جانے دیا۔ وہ شاہ میر کی داشتہ بن کر ضیا کالونی سائٹ کے علاقے میں شفٹ ہو گئی

جرگے کی بیٹھک میں دونوں طرف کے بڑے بیٹھے مگر شاہ میر کو جب بلانے پر ضد کی گئی تو کسی نے بتایا کہ پولیس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اس کی علاقے میں اسے یہاں آنے سے منع کر دیا ہے کیوں کہ یہ قدم شہر کے امن و امان کے تناظر میں بہتر سمجھا گیا۔ علی اشرف نے بتایا کہ اب اس کی جگہ درمان خان نمائندگی کرے گا۔ جرگے کی یہ بیٹھکیں طویل ہو گئیں۔ روزانہ قاتل پارٹی کی جانب سے مطالبات میں کانٹ چھانٹ کی جاتی تھی تو مقتول پارٹی کی جانب سے اغوا، بدلے اور قتل کی دھمکیاں کا از سر نو اجرا ہوجاتا تھا۔

اس دوران قتل و غارت گری کی ایک اور اہم واردات ہوئی۔ ہمارے لیاری کے ارد گرد جو بڑے تجارتی علاقے تھے وہاں ایک مذہبی جماعت اور ایک سیاسی جماعت میں اکثر بہت تناؤ رہتا تھا۔ معاملہ بھتے کا تھا۔ نظریات کا کوئی تصادم نہ تھا۔ ان پارٹیوں کے بارے میں خفیہ اداروں میں یہ تاثر عام تھا کہ دونوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا۔ ان سے ان کا چاہنے والا یہ بات کرتا تو وہ کہتے تھے کہ الذوالفقار، شاہ بندر اور طیارے کے اغوا کے ہم پر تو کوئی الزام نہ تھے۔ سکھوں کی لسٹیں ہم نے تو راجیو گاندھی کو نہیں دیں تھیں۔ ہماری شوگر ملوں میں تو بھارتی جاسوس ملازم نہیں ہوتے تھے۔ مودی اور اس کے سو سے زائد ساتھیوں کو نواسی کی شادی پر بغیر ویزہ ہم نے تو پاکستان نہیں بلایا تھا۔ ان جماعتوں کے بڑے یہ جوابی بیانیہ دیتے رہتے تھے کہ ملک کی اہم خفیہ ایجنسیوں میں سپاہی اللہ دتہ قسم کے کارندے جو تھڑوں پر بیٹھ کر رپورٹیں بنا دیتے ہیں وہ ان کے نیم خواندہ بڑے افسر انگریزی کا تڑکا لگا کر کے اسلام آباد اور پنڈی بھیج دیتے ہیں۔ پنجاب میں ان کو یہ سب کچھ نہیں دکھائی دیتا۔

لیاری گینگ والوں سے اسی مذہبی جماعت نے اسلحے کے چھ کریٹس خریدے، مختلف قسم کا اسلحہ۔ ٹینس کے گیند جیسے بم جنہیں ایوان کہتے ہیں، نائن ایم ایم کے پستول اور بلٹ پروف جیکٹیں۔

درمان خان کو فہرست دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہ پہاڑوں کی گوریلا جنگ کے اسلحے کے استعمال کے تناظر میں کراچی کی دہشت گردی کو دیکھ رہا تھا۔ نائن ایم ایم کا پستول اور ایوان بم اس کو بہت زنانہ ہتھیار لگے۔

اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ لڑکوں کے کرکٹ بیگ میں پڑے یہ بم بادی النظر میں سرخ ٹیپ سے بندھی گیند لگتے تھے اور نائن۔ ایم۔ ایم پستول اب کراچی کے ٹارگیٹ کلرز اور مسلح ڈکیتی کرنے والوں کا من پسند ہتھیار یعنی Weapon of Choice تھا۔

سودے کی ترسیل میں کسی اور سیاسی دہشت گرد گروپ نے مال بھی لوٹا اور لڑکے جو سودا لے کر اپنے علاقے کی طرف جا رہے تھے ان کو مار بھی دیا گیا۔ عام حالت میں یہ کوئی فکر کی بات نہ تھی مگر

گینگ والوں کو سودا خریدنے والوں کی شکایت موصول ہوئی کہ اسلحہ کی لوٹ مار اور ان کے تین لڑکوں کی ہلاکت میں اس امر کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ مخبری لیاری کے اندر ان کے کسی کارندے نے ہی کی ہو تو انہوں نے سندھ پولیس کی طرح اسے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا۔

مافیا والے اس معاملے میں بہت حساس اور فکر مند رہتے ہیں۔ یہ ان کی بقا سے براہ راست جڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بہت آہستگی سے گینگ کے اسلحہ فروخت کرنے والے آپریشن کی نگرانی کرنے والے نے اپنے خفیہ ایجنسی کے دوستوں کے ذریعے پتہ چلایا کہ درمان خان کے سیل فون سے اسلحہ کی ترسیل کے وقت کس کس کو فون ہوئے تھے۔ درمان خان کی دھوکہ دہی کی اطلاع گینگ والوں نے جماعت کو دی۔ وہ اس دھوکہ دہی کی تلافی کے طور پر ایوان بم کا ایک کریٹ اور

بیس نائن ایم ایم پستول دینے پر راضی ہو گئے تھے۔ درمان خان کا کام انہیں مذہبی جماعت والے لڑکوں نے ضیا کالونی میں اس وقت اتارا جب وہ جمعہ کی مسجد پڑھ کر باہر نکل رہا تھا۔ زرینہ سج دھج کر اس کے لیے بیٹھی تھی۔ وہ اسے نو پلیکس سینما فیز ایٹ میں فلم دکھانے لے جانے والا تھا، مگر فلم سے پہلے لطف و کرم کے دیگر سلسلے دراز ہونے تھے کہ اب تک زرینہ نے میک اپ تو کر رکھا تھا مگر کپڑے نہیں تبدیل کیے تھے۔

درمان خان کی موت کا شبہ بھی میاں والی گروپ کی طرف گیا۔ جس کے نتیجے میں سر شام ہی ان کے دو لڑکے اغوا ہو گئے۔ بہت آہستگی سے مقتول پارٹی کو سمجھایا گیا کہ اس میں قاتل گروپ کا کوئی قصور نہ تھا۔ درمان خان کو مذہبی جماعت والوں نے مخبری اور اپنے لڑکوں کے قتل میں معاونت کے الزام میں مارا تھا۔ مزید مذاکرات کے نتیجے میں یہ بات جب مقتول پارٹی تک پہنچی تو وہ جان گئے کہ درمان خان کا مسئلہ گینگ وار سے منسلک تھا۔ سلیمان کے قتل سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس بات کے عام ہوتے ہی مغوی لڑکے بلا کوئی آزار اٹھائے واپس آ گئے۔

سلیمان کے قتل سے جڑی مخاصمت اور باہمی دشمنی کے معاملات نمٹانے کے لیے، حالات جلد نارمل کرنے کے لیے، جرگہ از سر نو گرم ہوا۔ یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ مقتول پارٹی خود بھی ذرا ڈھل مل تھی ان کا درمان خان بھی مارا گیا۔ زرینہ ایک دفعہ پھر لاش کے ساتھ شبلان گئی ہوئی تھی۔ اس قتل کا معاملہ سلیمان کے قتل سے بہت جداگانہ نوعیت کا تھا۔ ان کی قوم کے افراد جانتے تھے کہ درمان خان نے غداری کا ثبوت دیا اور کراچی کی مافیا، سیاسی جماعتوں سب کا منترا ایک ہی ہے کہ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔

دوسری طرف تھانہ کلاکوٹ کے موجودہ ایس ایچ او مظفر گڑھ کے سہیل جلبانی صاحب تھے، انہیں اس بات کا خدشہ ہو چلا تھا کہ بدین سے یہاں ایک پولیس افسر کراچی رینج میں آیا تھا۔ سال بھر سے وہ ہوم منسٹر صاحب کے ساتھ سیکورٹی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ اسی وجہ سے ہمارے علاقے کی طاقتور ترین حکومتی گینگ کے بڑوں سے رابطے میں آ گیا تھا اور کوئی دن جاتے ہیں کہ وہ کلاکوٹ تھانے کا ایس ایچ او لگ جائے گا۔

خاکسار ہی نے جلبانی انسپکٹر کو یہ ترکیب سجھائی کہ وہ علاقے کی گینگ کے کسی اہم فرد کے ذریعے کے پی کے کسی اہم فرد سے رابطہ کریں جو اپنی ہم زبان مقتول پارٹی پر دباؤ ڈالے کہ وہ ہماری طے کردہ شرائط مان لیں۔ گینگ اپنی جانب سے علاقے کے جس معزز یا پولیس افسر کا نام بتائے اسے مقتول پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے اس معاملے کی نگرانی سونپ دیں۔ گینگ کا سودا شاہ میر کی وجہ سے خراب ہوا۔ اس نے پرائے جھگڑے میں جو دو پارٹیوں کا تھا۔ جس کا ہمارے لیاری کے علاقے سے کوئی تعلق بھی نہ تھا ان کے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر بلاوجہ کی چراند (معاملہ کا بگڑ جانا) کر دی۔ اس وجہ سے کراچی کی دو بڑی پارٹیوں کی ٹھوں ٹھاں میں ہمارا بھی رول بن گیا۔

خاکسار کا منصوبہ تھا کہ ایک دفعہ یہ کلئیرنس خیبر پختون خواہ سے آ گئی تو وہ علی اشرف کو آگے کردے گا۔ رقم اور لڑکیاں دونوں ہی علی اشرف کے ذریعے ہاتھ آ جائیں گے۔ دو دن میں بعد ایس ایچ او صاحب نے مجھے وہاں گینگ والوں کے پاس بھجوا دیا۔ ان کے پاس کرم ایجنسی کے کچھ معززین بیٹھے تھے انہوں نے کہا اگر ایک کروڑ روپے میں جرگہ نمٹ جائے تو اچھا ہے۔ شکر ہے گینگ والے سمجھدار تھے انہوں نے کہا تیس لاکھ اس میں پولیس کا ہو گا۔ پچاس لاکھ مقتول کی بہن کو ملے گا اور دس لاکھ شاہ میر اور دس لاکھ دعوت کا۔ شرائط اس کمرے سے باہر کہیں نہیں جائیں گی۔ قاتل پارٹی سے پولیس کا مقرر کردہ نمائندہ جو بھی شرائط طے کرے گا اسے مقتول پارٹی کی جانب سے فائنل مطالبات سمجھا جائے گا۔

تمام معاملات تین سے چار دن میں طے ہوں گے۔ پچاس لاکھ کی رقم شاہ میر یا اگر زرینہ اصرار کرے تو علی اشرف کے ذریعے اسے ادا کی جائے گی۔

خاکسار نے جب علی اشرف کو مقتول پارٹی کی جانب سے ایس ایچ او سہیل جلبانی کی منظوری سے نمائندہ مقرر کیا تو ظالم نے رفیقہ اور ارم کے سنے ہوئے سراپے ایسے بیان کیے کہ اہم اہل درد کو چکوالیوں نے لوٹ لیا۔ ہم نے طے کیا کہ میں ارم کو اور علی اشرف رفیقہ کو بیوی بنا لے گا۔ ایک کروڑ روپے کے ساتھ اب ارم اور رفیقہ کی بات بھی ڈال دی گئی۔ تابش خان کی بیوی مر چکی تھی ارم اس کی بیٹی تھی اور رفیقہ کی بیوہ ماں بمشکل رضامند ہوئی مگر وہ تین لاکھ روپے نقد اور اپنی بیٹی کی شادی اپنے مخالف غیر ذات کے کسی غریب لڑکے سے بیاہنے کی بجائے میرے دوست علی اشرف سے جو سدوال کا زمین دار تھا، بیاہنے پر راضی ہو گئی تو ہم نے ہیڈ کانسٹبل منان کی مدد سے اسی طرح رفیقہ کو نکالا جس طرح سپر ہائی وے سے نوراں کو غائب کیا تھا۔

وہی ایمبولنس، لیاری جنرل ہسپتال وہ درد کی شکایت لے کر ماں کے معالجے کے لیے ساتھ گئی تھی۔ اندر کھڑی ایمبولنس میں وہ ماں سے گلے لگ کر سوار ہوئی اور یہ جا وہ جا، تین دن بعد وہ عبدالمنان کے سرجانی والے گھر پر علی اشرف کی بیوی بن گئی۔ علی اشرف اسے کراچی سے سکھر ریل میں وہاں سے اسلام آباد ہوائی جہاز میں اور سدوال کرائے کی ٹیکسی میں لے گیا۔ ہفتے بھر بعد وہ جب واپس کراچی آیا تو اعلان یہ ہوا کہ اس کے تایا کا گاؤں کوٹ عیسی میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ گاؤں گیا تھا۔ چہلم پر شاید وہ واپس جائے۔

مقتول پارٹی کو جس طرح علی اشرف نے جی جان سے منایا اور جتنی جاں فشانی سے وہ واپس زرینہ کو لاکر اپنے ایک گودام کے عیش کدے میں اس ڈھیلے ڈھالے انتظام کے تحت دوبارہ بسایا کہ وہ بہ یک وقت شاہ میر اور اس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ مکسڈ ڈبل کھیلتی تھی۔

چکوال سے آٹھ کلومیٹر دور سدوال میں رفیقہ سے علی اشرف نے محبت کے کئی سومنات سر کیے۔ لطف و حجاب کے کئی سنہرے بت اپنی ضرب وحشت سے توڑ ڈالے۔ وہ اور رفیقہ جب رات کے درمیاں پہر میں عریاں اور بے جھجک ایک دوسرے کو دستیاب ہوتے تو علی اشرف کو بستر میں ایسا لگتا تھا کہ دیہاتی کوکھ سے جنم لینے والی مگر شہر کی بے باک فضا میں پلنے بڑھنے والی اسم بامسمی (اپنے نام جیسی) رفیقہ ایسا چکن پیٹیز ہے جسے وہ املی اور پودینے کے ساتھ کھا رہا ہے۔ بکری کی ایک ایسی تندوری ٹانگ ہے جسے وہ ساٹھ سال پرانی Macallan کمپنی کی وہسکی کے ساتھ وہ لالیک کرسٹل ڈی کینٹر بوتل سے جرعہ جرعہ کر کے پی رہا ہے یا وہ ایسا بیکڈ الاسکا ہے (وہ کیک جس پر آئس کریم انڈیل کر اس کے ساتھ انڈا پھینٹ کر چینی، لیموں، یا کسی اور فروٹ کا Meringue (میرانگ) پھیلادیا جاتا ہے) جس پر وہ گرما گرم دیسی گھی سے بنی ہوئی سوئیاں انڈیل کر اس کا بکلاوا بنا کر گھٹکائے چلا جاتا ہے۔

اولیں رفاقت کی طغیانی ءسرور میں ماہانہ وقفہ آیا تو وہ اپنی نوراں سے ملنے چلا گیا جو کوٹ عیسی شاہ میں آباد تھی۔ علی اشرف کا خیال تھا کہ ساڑھے تین گھنٹے اور پونے دو سو کلومیٹر کی مسافت گاؤں کی عورت کے لیے بہت ہوتی ہے اسے سوتن رفیقہ کی آمد کی اطلاع نہ ہوگی۔ اسے اطلاع تو فوراً ہی مل گئی تھی۔ اس دن علی اشرف کا کزن کامل حسین سدوال میں تھا۔ نوراں میں کامل حسین کو اپنی بیوی کی موت کے بعد ہی دل چسپی ہو چلی تھی۔ اسی نے علی اشرف کی زمینداری سدوال میں سنبھال رکھی تھی۔ نوراں اپنے دو بچوں کے ساتھ کامل حسین کی دو بیٹیوں کو بھی پال پوس رہی تھی۔

علی اشرف کا خیال تھا کہ نوراں کراچی میں اس کے غیر ازدواجی معمولات و تعلقات سے بے خبر ہوگی۔ ایسا نہیں تھا۔ ایزی لوڈ کی وجہ سے نوراں نے اپنا ایک جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کر لیا تھا۔ زرینہ سے لے کر حرم سرا کی دیگر بستر زادیوں کے بارے میں وہ بڑی با خبر تھی۔ ذہین عورت تھی۔ جانتی تھی کہ جس دن اسے کراچی سے یہاں کوٹ عیسی لاکر بسایا اس کی شادی کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا تھا۔ کراچی میں پڑوسنیں اسے کہتی تھیں کہ پانچ سال بعد میاں بیوی بھائی بہن بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے جسم کے نشیب و فراز، دلفریب گولائیوں اور چمکتی چکناہٹ پر نگاہ ڈالتی تو اسے یاد پڑتا تھا کہ کم از کم اس کے دس سال قیام کے دوران علی اشرف نے اسے بستر یا باہر بہن نہیں سمجھا۔ قیمتی رکھیل کی طرح ہی برتا۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب یہاں رفیقہ آ گئی۔

چالاک عورت نے فیصلہ کیا کہ علی اشرف کو مارنے سے زمین مل جائے گی اور رفیقہ کو مارنے سے سوتن سے چھٹکارا ہو جائے گا۔ وہ اور کامل بہت دن تک مختلف منصوبے بناتے رہے کہ کیا رفیقہ کو مارنے کا کوئی فائدہ ہے۔ کم سن ہونے کے ناتے بس ایک خوف دامن گیر رہتا تھا کہیں اس کی ماں جائیداد میں حصہ نہ مانگ لے مگر یہاں سدوال اور چکوال میں میاں والی والوں کو کسی دفتر میں رسائی نہ تھی۔ وراثت کا معاملہ بھی کمزور تھا کہ علی اشرف کو اسے لائے ہوئے بمشکل تین ماہ ہوئے تھے۔ بہتر ہو گا کہ اس کو زندہ چھوڑ دیا جائے۔ وہ بھاگ جائے گی۔ بلکہ ممکن ہوا تو وہ اور کامل اسے خود اس کی مان کے پاس کراچی چھوڑ آئیں گے۔

علی اشرف کو رجھانے کا نیا سوانگ رچایا گیا۔ نوراں نے کامل کو سمجھا کر دوری اختیار کی۔ میلہ آنے کو تھا۔ علی اشرف کو اب دو بدن میسر تھے۔ موبائل پر دیکھی پورن موویز کی جزئیات پر عمل درآمد کا بھر پور موقع ملا۔ دن میلے کا تھا، کھانے اور دیگر تام جھام، نوراں نے ڈھول بھی بجایا اور علی اشرف کو سامنے کھڑکی میں بٹھا کر دیگر عورتوں کے سامنے ناچی بھی۔ رات کے پہلے پہر جب تینوں ادھ موئے تھے رفیقہ کو بے ہوش کیا گیا۔ علی اشرف کا کام دودھ میں ملے اس زہر نے پہلے ہی پورا کر دیا تھا جو وصال کے بعد ایک ہی سانس میں گھٹکا گیا۔ برہنہ رفیقہ کو وہ اپنے سینے سے چپکائے بہت دیر سوئی رہی پھر اسے ایک طرف کر کے کلوروفارم والا رومال منھ پر رکھ کر بے ہوش کر دیا۔ وہی سامنے کمرے سے نکل کر یہ رومال لایا تھا۔ کلورو فارم بھی کامل لایا تھا اور علی اشرف کے منھ پر تکیہ رکھ کر بھی اسی نے دبایا۔

ارم اب بھی میری بیوی ہے۔ میری ترقی ہو گئی ہے۔ رفیقہ کی شادی البتہ منان سے ہو گئی۔ وہ ان دنوں دوبارہ حاملہ ہے۔ ایک بچہ بھی ہے۔ مجھے شک ہے یہ میرے دوست علی اشرف کی نشانی ہے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments