نور کا مقدمہ اور سماجی دباؤ


نور مقدم کے بہیمانہ قتل پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ کیونکہ ہر وہ انسان جس میں ذرا برابر بھی انسانیت ہوگی وہ اس قتل کے طریقہ کار اور نور کے دردناک انجام پر آج بھی لرز اٹھتا ہو گا۔ مجھے محمد حنیف کے کالم ”خاموش رہیں اندر لڑکی قتل ہو رہی ہے“ نے واقعتاً جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ محمد حنیف نے اپنے کالم کا اختتام اس جملے پر کیا کہ ”خاموش رہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ آپ کی خاموشی کی وجہ سے ایک اور لڑکی قتل ہونے جا رہی ہے۔“ یہ جملہ اس معاشرے پر ایک بھرپور طمانچہ تھا کیونکہ اسی خاموشی کی وجہ سے عورت کا قتل زوروشور سے آج بھی جاری ہے۔ ایسے ہولناک جرائم میں گھر کے افراد اکثر جرم کرنے والوں کے اگر معاون نہیں ہوتے تو کم از کم مجرم کو بچانے میں حتی الامکان معاونت ضرور کرتے ہیں۔

نور کے بہیمانہ قتل کے بعد اس کے خاندان اور دوست احباب نے سوشل میڈیا پر ”#جسٹس فور نور“ کی سوشل میڈیا پر مہم شروع کی۔ جس پرایک بحث چل پڑی کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کی مہم اور سماجی دباؤ فری ٹرائل اور قانونی اور عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ حتی کہ یہاں تک کہا گیا کہ نور کے والد اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ظاہر کے اقرار جرم کی کوئی اہمیت نہیں اور کوئی عینی شاہد موجود نہیں تھا۔

یعنی کوئی بعید نہیں کہ جس طرح او جے سمپسن کو اس کے وکلاء کی ”ڈریم ٹیم“ نے تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اسے ایک نسلی تعصب کا کیس ثابت کر کے سمپسن کو اس کی سابقہ بیوی اور اس کے پارٹنر کو قتل کرنے پر بری کروا کر دم لیا تھا۔ بالکل اسی طرح ظاہر کو بھی ذہنی مریض ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جائے گی۔ میری اپنی رائے میں یہ سوشل میڈیا کی مہم ایک ستم رسیدہ خاندان کی ایک اپیل ہے لوگوں سے، ہر لڑکی کے والدین سے، اپنی عدالتوں اور حکومت سے جن کی بیٹی نور کو ذبح کرنے سے پہلے اس پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، اس کے جسم کے ساتھ بے حرمتی کی گئی۔ نور نے جان بچانے کے لئے بالکنی سے اس لئے چھلانگ لگائی جب تمام جان بچانے کے راستے مسدود کر دیے گئے۔ کبھی تصور میں ایک بار اپنی بیٹی کو نور کی جگہ رکھ کر دیکھیے پھر اس کے والدین کی بے بسی اور درد کو شاید ہم محسوس کر سکیں۔

او جے سمپسن کیس 1994 میں وقوع پذیر ہوا تو اس پر پوری دنیا کے میڈیا میں ہاہو کار مچ گئی۔ آس وقت سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا، لیکن امریکہ کے ہر چینل پراس کیس کی سماعت براہ راست دکھائی گئی۔ پورے امریکہ میں ایک طرف او جے سمپسن کے حامی تھے تو دوسری جانب اس کی سابقہ بیوی کے طرفدار۔ حتی کہ کورٹ کے باہر تک دونوں فریقین کے حامی اور مخالف گروپوں میں نعرے بازی معمول کی سرگرمی ہوتی تھی۔

اسی طرح 2012 میں جب جیوتی سنگھ کا دلی میں چلتی ہوئی بس میں گینگ ریپ اور بہیمانہ تشدد ہوا تو پورے انڈیا میں جیسے بھونچال اگیا۔ کون سا شہر تھا جہاں احتجاجی مظاہرے نا ہوئے ہوں۔ تمام سوشل میڈیا بشمول الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر، لوک سبھا سے لے کر راجیہ سبھا تک، عام جنتا سے لے کر بولی وڈ کے نامور فنکاروں تک، کیا عوام تو کیا خواص سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ سماجی دباؤ کا ہی نتیجہ تھا کہ دلی پولیس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام مجرموں کو حراست میں لے لیا۔ اور بالآخر وہ سارے مجرم اپنے انجام کو پہنچے۔ میں ذاتی طور پر پھانسی کی مخالف ہوں کیوں کہ ایسے ہولناک جرائم کی سزا صرف چند لمحوں پر کیوں محیط ہو۔ ایسے مجرموں کا مقدر تو کال کوٹھری ہونا چاہیے عمر بھر کے لئے۔

آپ سب کو خدیجہ صدیقی تو یاد ہوگی جس پراس کے سابقہ دوست شاہ حسین نے خنجر سے 23 وار کیے تھے۔ کیا ہوا اس کیس کا؟ ساڑھے تین سال میں اس درندے کو بری کر دیا گیا۔

نور کے والدین یا حامی سوشل میڈیا پر اگر اس کے لئے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ سماجی دباؤ کے کبھی کبھار منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس پر قدغن لگا دی جائے۔ کیونکہ سماجی دباؤ کے مثبت نتائج اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ”دباؤ“ کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے کئی ایک پوشیدہ اور کچھ غیر پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ”سماجی دباؤ“ ایک غیر پوشیدہ دباؤ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نشاندہی بھی فوراً ہوجاتی ہے۔ جب کہ پوشیدہ دباؤ کا اس وقت تک پتا نہیں چلتا جب تک کہ نتائج سامنے نا آجائیں۔ مثلاً مذہبی و نظریاتی خیالات کا دباؤ، شخصی رتبے کا دباؤ، مالیاتی منفعت یا سیاسی دباؤ۔

پوشیدہ دباؤ، غیر پوشیدہ دباؤ سے بہت زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ بہت رازداری یا خفیہ طریقے سے ادا کیے جاتے ہیں۔ اور یہ با اثر لوگوں کے لئے بہت پسندیدہ طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس طرح نا سول سوسائٹی متحرک ہوتی ہے اور نا ہی مخالفین اور حمایتوں کے ٹولے کوئی سوشل میڈیا پر مہم چلاتے ہیں۔

آج نور کا کیس اس لئے زندہ ہے کہ اس کے پیچھے سماجی دباؤ ہے ورنہ اب ہم میں سے کس کو قرۃ العین، نسیم بی بی، شریفہ بی بی، آمنہ بی بی اور آسیہ یاد ہیں؟ کیونکہ ان کی پشت پناہی کرنے والا کوئی نہیں تھا نا ہی سوشل میڈیا پر ان کے لئے کوئی ہیش ٹیگ مہم چلی۔ اسی لئے اگر نور کے ساتھ بھی انصاف نا ہوا تو سمجھ لیں کہ ہماری بچیاں بھی ایسے درندوں سے محفوظ نہیں۔ بے شک مقدم فیملی عصمت آدم جی اور ظاہر فیملی کی طرح نا اتنے با اثر ہیں نا مالدار، لیکن مندرجہ بالا مقتول خواتین کے خاندان سے بہرحال اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ ابھی تک ڈٹ کر کھڑے ہیں۔

جانے دیجئے ان عورتوں کی بات، پاکستان میں روز ایسی سینکڑوں عورتیں مرد کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور جان سے جاتی ہیں۔ لیکن کیا ہم جنید حفیظ کا کیس بھول گئے؟ کیوں وہ آج بھی جیل میں قید و بند ہے؟ وجہ بہت واضح ہے کہ سول سوسائٹی بھی خاموش ہو گئی اور کوئی سوشل میڈیا پر مہم بھی نہیں چلی جب راشد رحمان کو دن دھاڑے کورٹ کے باہر قتل کر دیا گیا کہ وہ ایک بلاسفیمر کا کیس لڑ رہے تھے۔ مذہبی باؤ کے آگے سماجی دباؤ نے گھٹنے ٹیک دیے اسی لئے جنید پچھلے آٹھ سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اور آگے کوئی سبیل بھی نظر نہیں آتی کہ وہ کب باہر آ پائے گا۔

ہم بنیادی طور پر ایک بے حس معاشرہ میں جی رہے ہیں۔ ہم تب تک خاموش اور چین کی بانسری بجاتے رہنا چاہتے ہیں جب تک ایسا کوئی اندوہناک واقعہ ہمارے اپنے دروازے پر دستک نا دے دے۔

جس طرح منصفانہ عدالتی کارروائی یا ڈیو پروسس اور اعلی پائے کے وکیل کرنے کا ہر ملزم کو حق ہے اسی طرح مقتول کے عزیزواقارب سے بھی سوشل میڈیا پر انصاف کی اپیل کرنے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ نور مسلمان تھی یا کافر، اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر گئی یا سچ، اچھی تھی یا بری ساری باتیں ثانوی ہیں نور کی جگہ اگر ظاہر نے کسی ٹرانس جینڈر، طوائف یا کسی مرد کا بھی قتل کیا ہوتا تب بھی میرا یہی ردعمل ہوتا۔ نور اس شخص سے ملنے گئی تھی جو آج بھی اسے محبت کرنے کا دعویدار ہے۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر محبت اور انسانیت سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments