سچ زندگی کا تاج ہے



معاشرے میں ہونے والی باتیں ہر فرد کے لیے خاص ہو سکتی ہیں۔ مگر ان باتوں کی بنیاد پر کسی فرد کے لئے منفی رائے قائم کرلینا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ معاشرے میں لاکھوں لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں ہر فرد کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔ مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہم سوچ ہوتے ہیں ہم خیال ہوتے ہیں۔ اور یہ معاشرے میں ایک دوسرے کی رائے کو ہموار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ مل کر ایک عام سی بات کو کئی طرح کے رنگ چڑھانے کا کام کرتے ہیں۔

اور یہ عمل انسانی زندگی کے بالکل منافی ہے۔ ہم پھر بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح گزرے دنوں بھی کچھ ایسا ہوا تھا۔ جو لوگوں کی زبانوں کا تذکرہ بن کر رہ گیا۔ اس وقت بھی کسی نے ذرا بھی نہ سوچا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ میں نے تو اس وقت بھی بتایا تھا کہ چھ محرم الحرام بروز ہفتہ 14 اگست مینار پاکستان میں ہونے والا واقعہ ایک جھوٹ اور فراڈ کی داستان ہے۔ مگر پورا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس محترمہ کے سر پر حیا کی چادر اوڑھنے چلا گیا اور ایک محترمہ کی خاطر ہزاروں لوگوں کی عزت خاک میں ملا دی گئی۔

افسوس ہم پھر بھی نہ سوچ سکے کہ کیا سچ کیا جھوٹ ہے ہمارے ملک کے نامی گرامی لوگ اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اتر آئیں اور اپنے حصے کی لڑائی لڑنے لگے اور خصوصاً ڈیلی پاکستان یاسر شامی اور اقرارالحسن کو بہت دکھ ہوا اور بھاگتے ہوئے اس جنگ میں کود پڑے۔ کیونکہ ان کو بھی اپنا دامن داغدار کروانا تھا اور کروا بھی لیا۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہا تھا تو میرے ذہن میں چھوٹی سی لائن یاد آ گی۔ جو کہ روز نامہ ستلج پاکستان کے پیج پر لگی ہوئی تھی۔

اس کے الفاظ کچھ ایسے تھے کہ ایک قلم فروش صحافی ایک جسم فروش طوائف سے زیادہ بد کردار ہوتا ہے۔ آخر کیا ضرورت تھی ایسے معاملات میں چھلانگ لگانے کی اور خدا ترسی دکھانے کی۔ کیوں اپنے قلم اور زبان کا سودا کیا۔ آخر اس کہانی کی حقیقت کو کیوں چھپایا گیا۔ اور وہ پبلک جو لاکھوں میں آپ کو چاہتی ہے ان کو دھوکے میں رکھا گیا۔ مجھے تو ڈاکٹر عارفین صاحب کے پروگرام میں پتا چلا کہ اقرار الحسن صاحب نے عوام سے معافی مانگ لی ہے۔

مجھے بہت دکھ ہوا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ آ خر کون سی قیامت آ رہی تھی جو آپ نے بنا تحقیق کے اس محترمہ کے مدعے کو اچھالا اگر اس وقت سوچ لیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں صحافت کا کیا قصور ہے۔ جو ہر صحافی اس کے عزت کو خاک میں ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت آپ کے سارے سورسز کہا چلے گے تھے۔ آپ کی سوچ کہا چلی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہو وہ کون سی چیز ہے جو آپ کو آپ کے فرض سے دور لے جاتی ہے۔

ہم آپ لوگوں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں اور آپ کے بتائے ہوئے ایک ایک لفظ پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کچھ لوگوں کو اپنی ٹائم ریٹنگ ہی عزیز ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں مجھ جیسا ایک نا اہل اور نکما سا بندہ اسی دن بتا چکا تھا کہ یہ سارا ڈراما ہے۔ اور اس سارے پروگرام کو اسی دن ہی کرنا تھا اور ہو بھی گیا مگر میری بات کسی نے نہیں سنی۔ سب اپنی اپنی جگہ صابر و شاکر بن کر سچ پر پردہ ڈال کر جھوٹ کو سچ بنا کر پوری دنیا میں دکھانے میں کامیاب ہوئے اور ہمارے وطن عزیز کی عزت کو پامال کرنے میں کوشاں رہیں۔

یہ بات کسی نے نہیں سوچی کہ اس دن پہلی ویڈیو کس کے موبائل، کیمرہ سے اپلوڈ ہوئی۔ یہ کسی نے نہیں سوچا اور ہر چینل نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ اور اپنی دیہاڑی لگانے میں کامیاب ہوئے۔ سوچا آ لو چاول تو بن ہی جائے گے میں مانتا ہو بڑی سے بڑی خبر جھوٹی بھی ہو سکتی ہے۔ اور اکثر اوقات خبر بتانے والے سورس بھی کسی دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ تو سچ ہی تھا مگر پورے سوشل میڈیا نے اس کہانی کا رخ ہی بدل ڈالا۔

آج یہ فیصلہ تو ہو گیا کہ کوئی بھی اس دنیا پر ویسے نہیں آ یا ہے۔ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ اور یہ بھی پتا چل گیا کہ صرف آکسفورڈ اور دیگر مہنگے اداروں میں پڑھنے والے ہی رائے نہیں دے سکتے بلکہ ہر بندہ اپنے تجربہ سے ثابت کر سکتا ہے۔ کہ کیا سچ اور کیا جھوٹ ہو سکتا ہے۔ آج ٹی وی چینل پر بیٹھنے والوں کی بے بسی نظر آ رہی ہے اور ان کے زاویہ نظر کا خود ہی پتا چل گیا کہ کون کب کس کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔

میری تو پھر بھی میڈیا پر آ نے والے دوستوں سے اپیل ہے کہ خدارا کبھی بھی بنا تحقیق کے خبر کو فروغ نہ دیں نہیں تو پھر اقرار بھائی کی طرح شرمندہ ہونے کے بعد عوام سے معافی مانگنی پڑے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ سچ کا ساتھ دیں اور اسی کو اپنا شیوہ بنائیں۔ اور زندگی کے ساتھ لے کر چلیں۔ یہ زندگی کچھ دنوں پر محیط ہے اس کے بعد ہم نے اپنے اصلی گھر کی طرف جانا ہے بڑے بڑے نام اس دنیا سے چلے گے اور ہم نے بھی چلے جانا ہے۔ اسی پر علامہ محمد اقبال رحمت اللہ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ

اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments