تبدیلی کے الگ الگ ریٹ مقرر


جسمانی معذوری پیدائشی ہو یا کسی حادثے سے ہوئی ہو اس کے اثرات متعلقہ شخص کی زندگی کو عام آدمی کی زندگی سے یکسر مختلف کر دیتے ہیں۔ سونے جاگنے، کھانے پینے سے لے کر چلنے پھرنے، جاب و کاروبار کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں افراد باہم معذوری کے روزانہ کے معمولات الگ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عام لوگوں سے پیچھے ہوتے ہیں بلکہ وہ برابر خدمات ادا کر رہے ہیں لیکن ان کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ معذور بچیوں اور خواتین کی اگر بات کی جائے تو ان کی دیگر ضروریات کی طرح ان کی ذاتی صفائی اور صحت سے متعلق انہیں بہت ہی زیادہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

کرونا کے دنوں میں جب مختلف سماجی تنظیموں نے گھر گھر ہائی جین کٹس کی فراہمی شروع کی تو دیکھنے میں آیا کہ بہت زیادہ معذور نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے پہلی بار اپنی ذاتی صفائی سے متعلق سامان دیکھا۔ ویسے تو یہ المیہ ہے کہ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں صحت مند خواتین بھی روایتی طریقوں سے بار بار ایک ہی کپڑے کو استعمال کرتی ہیں جس سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں اور ویسے ہی وہ اپنی بچیوں کو بھی سکھاتی ہیں۔

یہاں میں لودھراں کی دیہاتی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے والی تنظیم ترین ایجوکیشن فاونڈیشن کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے آج سے دس سال پہلے دیہاتوں میں مدرز کلب بنا کر مختلف سیشن کرائے اور نوجوان بچیوں کی ماؤں کو تربیت دی کہ وہ کس طرح سے اپنی بچیوں کی ہائی جین کا خیال رکھ سکتی ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق بیس فیصد سے زائد بچیاں جوانی میں قدم رکھتے ہی سکول سے ڈراپ ہوجاتی ہیں یا مخصوص ایام میں سکول سے چھٹی کر لیتی ہیں۔

یہ ایک بڑی بری روایت رہی ہے کہ خاص طور پر باپ اور عام طور پر ماں بھی اس پر بات کرتے ہوئے شرماتے اور گھبراتے ہیں۔ لیکن یہ رسم اب توڑنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جتنی بھی سماجی تنظیمیں، سکول یا دیگر ادارے کام کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ یہ تو عام صحت مند لڑکیوں کی بات ہو گئی لیکن وہ بچیاں جو کسی معذوری کا شکار ہیں وہ تو بالکل ہی اگنور ہو رہی ہیں۔ ان کی صحت و جسمانی صفائی کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور شاید یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ صاف ستھری رہیں یا میلے کچیلے کپڑوں، مٹی سے اٹے بالوں اور مٹی و خون سے لت پت جسم کے ساتھ پڑی رہیں۔

پچھلے دنوں اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا تو ہر تفریحی مقام پر ہم نے دیکھا کہ والدین اپنے معذور بچوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور انہیں بڑے پیار اور توجہ سے گھما رہے تھے۔ ایسے لوگ انتہائی خوبصورت اور حساس دل و دماغ کے مالک ہیں جو اپنے بچے کو ویسی ہی خوشی دے رہے ہیں جیسے یہاں موجود عام لوگ اپنے صحتمند بچوں کو دے رہے ہیں اور یہ شعور اور تربیت کا اثر ہے ورنہ لاکھوں معذور بچے اپنے پیاروں کی توجہ کے منتظر ہیں۔

معذور بچیوں اور خواتین کے دیگر مسائل کی طرح ان کی ہائی جین کا مسئلہ انتہائی توجہ طلب ہے جس پر والدین کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی توجہ دینی ہوگی۔ سب سے پہلے تو مردم شماری کے دوران حکومت کے پاس کافی حد تک ڈیٹا آ چکا ہے کہ پاکستان میں کتنے معذور افراد ہیں۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر حکومت فوری طور پر ان معذوروں کو شناخت دے اور ان کے شناختی کارڈ بنوائے کیونکہ ایک چوتھائی سے بھی کم افراد باہم معذوری کے معذوری سرٹیفیکیٹ اور لال نشان والے سپیشل شناختی کارڈ بنے ہیں۔

جب تک ان کی شناخت نہیں بن سکے گی تب تک انہیں سہولیات کی فراہمی ناممکن ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کے بعد ان کی تعلیم کے لئے سپیشل ایجوکیشن سکولز کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اور قانون کے مطابق جس علاقے میں ایک سو تعداد ہو وہاں سپیشل ایجوکیشن سنٹرز قائم کیے جائیں۔ تعلیم کے ساتھ ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور خاص طور پر معذور بچیوں اور خواتین کی ہائی جین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

یہ پرانی روایات اور ممنوعات کو اب ختم کرنا ہو گا اور قومی سطح پر کیمپین کی ضرورت ہے کہ سکولز میں ہائی جین سے متعلق لیکچرز دیے جائیں، مدرز کلب بنائے جائیں جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ٹیچرز ماؤں کو جسمانی صحت اور ذاتی صفائی سے متعلق آگاہی دیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی جائے۔ حکومت سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر معذور خواتین اور بچیوں کو ہر مہینے ہائی جین کٹ کی فراہمی یقینی بنائے اور یہ صرف تب ہی ممکن ہو پائے گا جب حکومت کے پاس معذور خواتین کا مکمل ڈیٹا ہو گا۔ معذوری سرٹیفیکٹ بنانے کے عمل کو آسان بنایا جائے اور معذور بچے کی پیدائش کے وقت برتھ سرٹیفیکیٹ کے ساتھ ہی معذوری سرٹیفیکٹ بھی بنا دیا جائے تاکہ پہلے دن سے ہی وہ ریکارڈ میں آ جائے اور انہیں سہولیات کی فراہمی میں آسانی ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments