جارج آرویل کا ناول اینیمل فارم


انگریزی زبان میں سیاسی ناول نگاری کی تاریخ تقریباً پانچ سو سال پرانی ہے۔ تھامس مور اور جوناتھن سوئفٹ کے شاہکار ناولوں سے جنم لینے والی تحریک انیسویں اور بیسویں صدی میں رونما ہونے والی سیاسی اور سماجی انقلابات کے زیر اثر ایک توانا ادبی روایت بن گئی۔ پھر دو عظیم جنگوں کے درمیان تو دنیا ایسی بدلی کے پہلی مرتبہ سیاسی نظریے منظم عالمی تحریکوں کی صورت اختیار کر گئے۔

جرمنی، اٹلی اور اسپین میں فسطائیت کا ظہور اور اس سے پہلے روس میں اشتراکی انقلاب گویا سیاسی معاملات میں عامتہ الناس کی طوفانی انٹری کا اعلان تھا۔ آنے والے برس کیا کچھ دکھانے والے تھے اس کا تصور جہاں بہت سوں کے لیے خوش کن تھا وہیں کچھ ایسے بھی تھے جن کی نظر تصویر کا تاریک رخ بھی دیکھ رہی تھی۔ انہی میں سے ایک جارج آرویل بھی تھے جن کے سیاسی ناول ”انیس سو چوراسی“ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔

”انیس سو چوراسی“ کو بلاشبہ جارج آرویل کا شاہ پارہ قرار دیا جاتا ہے، مگر یہاں ہم اس کے دوسرے اور نسبتاً کم مشہور ناول ”اینیمل فارم کا ذکر کریں گے۔“ انیس سو چوراسی ”جس کی آسیبی فضاء اور بقول آئن سٹائن ذہن پہ خراشیں ڈال دینے والا طرز بیان بعض مقامات پر قاری کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے، کے برخلاف اینیمل فارم کا نسبتا ہلکا پھلکا اسلوب اور تمثیلی پس منظر ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ جن حقائق کو اس کہانی کا موضوع بنایا گیا وہ انتہائی تلخ ہیں یہ تمثیلی انداز اور نیم مزاحیہ فضاء پلاٹ کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔

کہانی کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ مسٹر جونز نامی کسان کے فارم کے جانور ایک رات اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں اور جونز اور اس کے آدمیوں کو فارم سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جس کے بعد یہ جانور اس فارم کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر اس کا نام اینیمل فارم رکھ دیتے ہیں۔ اس موقع پر جانور سات نکاتی منشور یا احکامات کا اعلان بھی کرتے ہیں جس کا لب لباب نوع انسانی سے بیزاری اور جانور برادری سے یکجہتی ہے۔

جانوروں کی یہ ریپبلک ایک سوشلسٹ ریاست سے مشابہ تھی جہاں ہر جانور کا رتبہ مساوی اور سب محنت میں برابر کے شریک تھے، یہ طے پایا کہ سب ایک دوسرے کو کامریڈ کہہ کر مخاطب کریں گے اور فارم کے تمام معاملات اور انتظامات باہمی مشاورت سے چلائے جائیں گے، اگرچہ ہر جانور کی فارم میں مشقت کی نوعیت فرق تھی مثلاً سور اگر فارم کا دماغ تھے تو گھوڑے اور گدھے محنت کش اور گائیں اور مرغیاں پیداواری طبقات کی نمائندہ تھیں اسی طرح کتے دفاع اور سراغ رسانی پر معمور مگر یہ تمام اختلافات محض کردار کی نوعیت کے فرق کے سوا کچھ نہیں تھے۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلاب کی روح کمزور پڑنا شروع ہو گئی اور فارم کے جانوروں میں اسی طرح کی طبقاتی کشمکش پیدا ہو گئی جو انسانی معاشرے کا خاصا ہے۔ سب سے پہلے سور جو جانوروں میں ذہین ترین ہیں وہ اپنے لیے زیادہ راشن منظور کرا لیتے ہیں، اسی طرح کھیتوں میں باقی سب جانوروں کے ساتھ عمومی مشقت کرنے کی بجائے وہ اب صرف نگرانی کرتے اور ہدایت دیتے نظر آتے یا پھر جانوروں کی بیٹھک کے ہفتہ وار اجلاسوں میں تقریر اور مباحثہ کرتے۔

یہ مباحث اور تقاریر ہمیشہ سوروں کے درمیان ہی ہوتیں اور باقی تمام جانوروں کی سمجھ سے بالا ہی رہتے۔ یوں چالاک سوروں کا گروہ سادہ لوح محنت کش جانوروں پر حکومت کرنے لگتا ہے۔ ایسا نہیں جانوروں کو اس تبدیلی کا احساس نہیں ان میں سے اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو اولین انقلاب اور جانوروں کے منشور ) جس مین بڑی چالاکی سے کانٹ چھانٹ کر دی گئی ہے ( کی ایک موہوم سی یاد رکھتے ہیں، ایسی اکا دکا کمزور سی آواز کو دبانے کے لیے سووروں کے پاس مطلق العنان آمریتوں کے دو آزمودہ ہتھیار دہشت اور پروپیگنڈا ہیں۔

جارج آرویل کی نسل نے ہٹلر اور اسٹیلن کی آمریت میں ان کا بہیمانہ استعمال دیکھا تھا۔ اینیمل فارم میں بھی خونخوار کتوں کی ایک فوج ہے جن کی چیر پھاڑ کا خوف ہر جانور کے لاشعور کا حصہ ہے، ٹارچر، اعتراف جرم اور پر تشدد موت اب ایک عام مشاہدہ ہے۔ اسی طرح اسکوئلر نامی سور کے زیر تربیت بکریوں کی ایک ٹیم تیار کی جاتی ہے جو ہر قسم کے پروپیگنڈا کو پھیلانے کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ کم عقل بکریاں اسکوئلر کے ہدایت پر کسی بھی نعرے یا خبر کی گردان شروع کر دیتی اور یہ عمل اتنے تواتر اور تسلسل سے ہوتا کہ اس کے بعد جانوروں کے لیے مخالف نقطہ نظر کو سننا اور سمجھنا ناممکن ہوجاتا۔ ان کی احمقانہ گردان کو دیکھ کر لامحالہ موجودہ زمانے کا میڈیا یاد آتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ سووروں کے رویے میں بھی حیرت انگیز تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے، یہ باقی جانوروں سے تو خود کو ممتاز سمجھتے ہی تھے مگر اب انہوں نے انسانوں کی طرح دو پیروں پر چلنا بھی شروع کر دیا، پھر کپڑے پہننے اور بستر پر سونے کا آغاز ہو گیا یہاں تک کہ کھانے پینے کے لیے میز کرسی اور کانٹے چھری کا استعمال کرنے لگے الغرض کہ جب جانوروں کی سادہ اور فطری زندگی ترک کردی تو پھر شراب اور تاش سے شغل بھی شروع ہو گیا۔

گویا انسانی تمدن کی ساری مکروہات سوروں میں داخل ہو گئیں۔ اسی بیچ اسکوئلر نہایت عیاری سے جانوروں کے منشور کے احکامات جو جلی حروف میں فارم کی دیوار پر لکھے گئے تھے حرف بہ حرف بدل دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو قوت اور اقتدار کے زیر اثر سووروں کی یہ کایا کلپ ہی اینیمل فارم کا مرکزی خیالیہ بھی ہے۔ کہ کس طرح تبدیلی اور انقلاب کے نعروں کی گونج میں اقتدار کی منزل پانے والے افراد اپنا الو سیدھا ہوتے ہی خلق خدا سے منہ موڑ لیتے ہیں اور خانماں برباد خاک نشینوں کی وہ خاموش اکثریت جو ان کے راج سنگھاسن کی بنیاد ہے ان سے ناتہ توڑ کر سابق حکمران طبقے کی بود و باش اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ناول کے اختتامی صفحات میں جب فارم کے جانور کھڑکی سے انسانوں اور سووروں کی محفل میں جھانکتے ہیں تو ان کے لیے انسان اور سور میں فرق کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

سووروں کے اپنے درمیان بھی طاقت کی کشمکش جاری ہے نوجوان سووروں کی جماعت اینیمل فارم کو اس کی اصل حالت میں واپس لانے کی تحریک شروع کرتے ہیں اور کتوں کی چیر پھاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں، اس سے قبل دو سووروں سنوبال اور نیپولین جنہوں نے جانوروں کے انقلاب کی قیادت کی تھی کے درمیان اختیارات کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ دانشمند اور بردبار سنوبال کے مقابلے میں موقع پرست اور آمریت پسند نیپولین کی جیت خونخوار کتوں کی مرہون منت تھی۔

سنوبال اور نیپولین کے درمیان اقتدار کی یہ کشمکش اور اس کے نتیجے میں سنوبال کا اینیمل فارم سے فرار کا منظر اور پھر اس کے بعد اسکوئلر کی پروپیگنڈا مشنری کے ہاتھوں حقائق کی تروڑ مروڑ اور سنوبال کی کردار کشی کی غرض سے تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل محض ایک عشرے قبل سوویت یونین میں اسٹیلن اور ٹراٹسکی کے درمیان حصول اقتدار کی جنگ اور اس کے بعد کی صورتحال کی بہترین پیروڈی ہے۔

یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں اس کتاب کا موضوع کمیونسٹ روس خاص کر اسٹیلن ازم ہے۔ اس وقت بلکہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی تک بھی ان باتوں کو کمیونسٹ مخالف پروپیگنڈا قرار دے کر رد کیا جاسکتا تھا مگر اب پون صدی بعد جب آہنی پردے کے پار سابق سویت یونین کے حالات پر سینکڑوں کتابیں اور ڈاکیومینٹریز منظرعام پر آ چکی ہیں جارج آرویل کی حقیقت نگاری کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اینیمل فارم جس زمانے میں لکھا گیا اس وقت سویت یونین کے اندرونی حالات بارے میں صحیح جانکاری نہ ہونے کے برابر تھی اس کے باوجود اس ناول میں یورپ کی فسطائی اور سوشلسٹ ریاستوں میں cult of leadership اور مطلق العنانیت کے تدریجی ظہور کی جو بے مثال منظر کشی کی گئی اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مصنف نے تحریر کے لیے خام مواد دستیاب معلومات کے بجائے انسانی فطرت کے گہرے مشاہدے سے اخذ کیا ہے۔

یہی حقیقت نگاری اینیمل فارم کی امتیازی خصوصیت ہے، مثلاً اگر ہم ”انیس سو چوراسی“ کی بات کریں تو باوجود اس کے کہ کہانی کا مسحور کن انداز بیان قاری کو اول تا آخر اپنی گرفت لیے رکھتا ہے یہ احساس بہر حال ہوتا ہے کہ اس کا حقیقی دنیا سے اتنا خاص تعلق ، آخر ایسی خالص مطلق العنانیت کا وجود کہاں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ شمالی کوریا یا اس جیسی کچھ ریاستوں میں اس سے ملتی جلتی صورتحال ہو مگر یہ قارئین کی بڑی اکثریت کے تجربے کا حصہ نہیں اس کے بر خلاف اینیمل فارم میں جو کچھ دکھا یا گیا ہے وہ نا صرف بیسویں صدی کے ہر انقلاب کی تاریخ ہے بلکہ نوآبادیات سے آزادی پانے والی افریقہ اور ایشیا کے ہر ملک کا شہری بھی خود کو اس تجربے سے relate کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments