میں نے ایف ایس سی کے بعد جینا شروع کیا۔


یوں تو ہم اتنے فرض شناس اور ذمہ دار واقع ہوئے ہیں کہ جب میٹرک کے سالانہ امتحانات ہو رہے تھے ہم کرکٹ کھیلنے میں مصروف  تھے اور ایف ایس سی کے امتحان کے دوران موویز دیکھ کر غم غلط کر رہے تھے۔ امتحان کے دباؤ اور تناؤ سے ذہن کو چھٹکارا دلانے کے لیے ایسی سرگرمیاں ضروری تھیں یا شاید حقیقت سے فرار کا یہی راستہ تھا۔ خیر پھر بھی ہم قابل اطمینان نمبروں سے کامیاب ہو ہی گئے۔ ایف ایس سی کے بعد میں نے بی ایس کیمسٹری میں داخلہ لیا مگر پہلے ہی سمیسٹر میں ہاتھ کھڑے ہو گئے اور میں ہاتھ جوڑ کر گھر آ گیا۔

پھر زمانے بھر کی ٹھکرائی ہوئی اور حقیر سمجھی جانے والے ڈگری بی اے کی۔ اس کے بعد سرگودھا یونیورسٹی میں ایم اے ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لے لیا۔ ایف ایس سی کے بعد میرا کتب و ادب کے ساتھ بہت گہرا تعلق استوار ہوا، میں نے کتابیں پڑھیں، کالم پڑھے، مضامین پڑھے، رپورٹس پڑھیں اور باہر کی دنیا کو جاننا شروع کیا۔ مزید موویز دیکھیں اتنی دیکھیں کہ اکتا کر چھوڑ دیں اور صرف کتب سے تعلق رکھا اب پھر سے موویز دیکھنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ایف ایس سی تک میں پاس ہونے اور اچھے نمبر لینے کے دباؤ کا شکار رہا مگر ایف ایس سی کے بعد تعلیمی دباؤ سے آزاد ہوا اور کھل کر جینا شروع کیا۔ میرے آج تک کے تعلیمی سفر کے دوران مجھے ایک بار فیل ہونے کا خوف لاحق ہوا اور وہ ایف ایس سی سال دوم کے ریاضی کے مضمون میں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ ناکام ہونے سے بچ گیا۔

عرض صرف اتنی ہے کہ بچوں کو بھیڑ چال کا شکار نہ بنائیں، ہر بچہ ڈاکٹر، انجینئر نہیں بن سکتا بلکہ وہ کسی اور شعبے میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ اس لیے بچوں کو لازمی ایف ایس سی میں دھکیلنے سے پرہیز کریں بچوں کی دلچسپی اور رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کو ڈگری کے انتخاب میں راہنمائی بھی کریں اور حوصلہ افزائی بھی کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلبہ کو نمبرز گیم میں نہ ڈالیں، ان پر ہر صورت میں اول، دوم آنے کا دباؤ نہ ڈالیں۔

اس طرح ان کی تمام تر توانائیاں صرف اسی مقصد کے حصول میں ضائع ہو جائیں گی اور ان کی اصل صلاحیتیں دب کر رہ جائیں گی۔ علی بابا کے بانی جیک ما کا کہنا ہے کہ ”میں نے اپنے بیٹے کو کہا ہے کہ تمہیں کلاس میں پہلی تین پوزیشنز تک پہنچنے کی ضرورت نہیں، تم بیشک درمیانے درجے میں رہو بس تمہارا درجہ بہت زیادہ برا نہیں ہونا چاہیے۔ صرف ایسے بچے کو ہی دیگر ہنر اور صلاحیتیں سیکھنے کے لئے وقت میسر آتا ہے“ ۔ میں نے خود بی اے کے دوران اپنی لکھنے کی صلاحیت تلاش کی اور پھر اس کو نکھارنا شروع کیا یہ تبھی ممکن ہوا جب مجھ پر تعلیم کا زیادہ دباؤ نہیں تھا اور مجھے اپنے آپ کو جاننے کا موقع ملا۔

اگر میں بی ایس جاری رکھتا تو شاید مکمل کر ہی لیتا مگر بہت ممکن تھا کہ میں زندگی بھر ادب سے دور رہتا کبھی حقیقت میں پڑھنے لکھنے کی طرف نہ آتا اور یوں اللہ تعالیٰ نے جو ہنر مجھے ودیعت کیا میں اسے کبھی جان ہی نہ پاتا۔ یہ سب تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے ”شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات“ مگر ابھی تک شاید میں اپنی بات کو پوری طرح سمجھا نہیں پایا۔

بقول افتخار عارف
حریم لفظ و معانی سے نسبتیں بھی رہیں
مگر سلیقۂ عرض ہنر نہیں آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments