پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت: کیا سب ٹھیک ہے؟


پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی اول نمبر کی سیاسی پارٹی تھی، اب اس کو اس کے ہی اپنے کرتا دھرتاؤں نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر تھی، مگر جب سے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی اس کے بعد پورا اقتدار آصف زرداری صاحب کو دے دیا گیا جو ملک کے صدر بنے اور یوں پانچ سال پورے کیے ۔ آصف علی زرداری کے کھاتے میں ایک اچھا کام جاتا ہے کہ اس نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت تمام صوبوں کو اپنے حقوق دیے مگر وفاق کب چاہتا ہے کہ صوبے خودمختار ہوں؟

اس لئے ابھی تک اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی صوبوں کو وہ حقوق نہیں ملے ہیں جو ملنے چاہیں، سو بات ہو رہی تھی پاکستان پیپلز پارٹی کی تو پاکستان پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کیے جبکہ سندھ میں تو پاکستان پیپلز پارٹی کی تیرہ سال سے حکومت ہے مگر سندھ کو کیا دیا گیا؟ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت پوری قیادت تو یہ کہتی نہیں تھکتی کہ پی پی پی نے سندھ میں این آئی سی وی ڈی ہسپتال دیا جو ملک کے بہترین اسپتالوں میں شمار ہوتا ہے، مگر کیا صرف این آئی سی وی ڈی ہی کافی ہے؟

سندھ میں کرپشن اقرباپروری سمیت امن امان کی صورتحال ہو یا اور مسائل وہ جوں کے توں ہیں مگر پی پی پی کی قیادت اور حکمران صرف اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور وزراء کی اس عدم توجہ کی وجہ سے سندھ میں اب پیپلز پارٹی سکڑتی جا رہی ہے دیگر صوبوں میں تو پہلے ہی سکڑ چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو سندھ میں امن امان کی صورتحال کے حوالے سے سب ٹھیک ہے بتایا جا رہا ہے مگر صورتحال اس سے ابتر ہے۔

مجھے یاد ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو ستائیس اکتوبر دو ہزار سات میں پاکستان آ رہی تھی تو پورے ملک سے لاکھوں کی تعداد میں قافلے نکلے تھے اور اس کے بعد محترمہ نے جہاں جہاں جس جس شہر میں جلسے کیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، مگر اب جب محترمہ کا لاڈلا بلاول بھٹو اپنے آبائی شہر لاڑکانہ آتا ہے تو وہاں کی سڑکیں خالی ہوتی ہیں کوئی بھی بلاول کو دیکھنے کے لئے سڑک پر نہیں ہوتا، بلاول بھٹو کو سب ٹھیک ہے کا بتا کر وزراء اور لوکل پارٹی رہنماء اپنی ذمے داری سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔

بلاول بھٹو جب لاڑکانہ آتا ہے تو اس کی گاڑی کے چاروں سائیڈوں میں اتنے لوگ ہوتے ہیں کہ اس کو سڑک بھی نظر نہیں آتی تو وہ کیا دیکھے گا کہ لاڑکانہ شہر کیسا ہے اور کی حالت کیا ہے؟ بس یہ ہوتا ہے کہ جس جس علاقے سے بلاول بھٹو کا گزر ہوتا ہے وہاں پر روڈ کی تھوڑی بہت مرمت ہوجاتی ہے باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ اس طرح لاڑکانہ سمیت سندھ کے دیگر شہر بھی اپنی حالت زار پر رو رہے ہوتے ہیں، امن امان کی صورتحال یہ ہے کہ دن دھاڑے ڈکیتیاں، چوری، ڈاکے، لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، ایس ایس پی تبدیل ہو جاتے ہیں مگر کرائم میں کنٹرول نہیں ہوتا۔

سندھ میں کسی بھی محکمے میں چلے جائیں پانچ ہزار والا کام پچاس ہزار میں ہو گا نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن ہی کرپشن ہے یہ بات پتا نہیں تو صرف چیئرمین بلاول بھٹو کو نہیں ہے کیونکہ اس کو صرف بتایا جا رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ ایک وزیر کے پی آر او سے لے کر تعلیمی بورڈ کے چیئرمین لگنے کی بھی بھاری رشوت لی جاتی ہے مگر چیئرمین صاحب کو بتایا یہ جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ سب ٹھیک ہے کا اتنا راگ الاپا گیا ہے کہ اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے، میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر ڈیل کے تحت انتخابات نا ہوں تو پاکستان پیپلز پارٹی سندھ سے بھی ووٹ نا لے سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنا مورال بہتر بنانا ہے تو اس کو پھر سے عوام میں آنا پڑے گا اور عوامی پارٹی بن کر کام کرنا پڑے گا اور اب دوبارہ سے گراس روٹ سے کام کرنا پڑے گا کیونکہ اب عوام کا پیپلز پارٹی سے بھی دل اکتا گیا ہے۔ مین پاکستان پیپلز پارٹی کوئی تنقید نہیں کر رہا ہوں اور نا ہی اس پر کوئی الزام لگا رہا ہوں مین وہ کہہ رہا ہوں جو اس وقت عام آدمی سوچ رہا ہے اور کہہ رہا ہے۔ دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی کو جو نقصان ہوا ہے وہ ہوا ہے آصف علی زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی سے جس پر ہر بات پر مفاہمت ہر بات پر کمپرومائیز، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جب آپ ہر حد پار کر جائیں گے تو پھر اس کا نقصان اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا اس وقت پارٹی کو ہوا ہے جو کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اس وقت پارٹی تمام شہروں میں من پسند افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے، ان من پسند افراد نے اپنے اپنے شہر میں ایک سلطنت قائم رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عام شہری پارٹی قیادت سے لے کر کسی افسر سے مل نہیں سکتا جب تک وہ من پسند افراد کے گھر کے ہزار چکر نہیں کاٹتا جس کی وجہ سے آم آدمی اب اس پارٹی سے خائف ہونے لگا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے اگر چیئرمین بلاول بھٹو خود تمام چیزیں مانیٹر کرے اور تمام معاملات خود دیکھے اور حل کرے تو کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments