کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے


پڑھے لکھے، عقلمند اور سیانے بتاتے ہیں کہ سات دہائیاں قبل ہمیں آزادی ملی تھی۔ ہم جیسے کم عقل جب پوچھتے ہیں کہ کس سے آزادی ملی تھی تو سیانے ہماری کم علمی پر ماتم کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انگریزوں سے آزادی ملی تھی۔ اور اس وقت تو حد ہو گئی جب یہ پوچھ لیا کہ آزادی کیوں ضروری تھی تو اس کا جواب کچھ تلخ لہجے میں ملا کہ ہمیں یکساں حقوق حاصل نہیں تھے ہم محکوم تھے نوکریوں اور کاروبار پر دولت مند ساہوکاروں اور ان کی پڑھی لکھی اولادیں قابض تھیں۔ ہماری عبادت گاہیں محفوظ نہیں تھیں ہمیں اپنی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل نہیں تھی اس لیے آزادی ضروری تھی۔

تو آخری سوال کیا جس کا جواب نہیں ملا اور سوال کیا تھا بس کم علمی اور جہالت تھی کہ پوچھ لیا کہ کیا اس آزادی کے بعد ہمیں کاروبار اور نوکریوں کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ کیا ہماری عبادت گاہیں اب محفوظ ہیں اور کیا ہمیں بولنے کی آزادی حاصل ہے، کیا ہم سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی سیاسی گھرانوں کے محکوم نہیں ہیں۔ اگر ہمیں واقعی ہی آزادی حاصل ہے تو پھر فیض کیوں ہر ایک کو یقین دلاتا رہا کہ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول، زباں اب تک تری ہے۔

جواب نہیں ملا آخری سوال کا تو کوئی بات نہیں چلیں مان لیا کہ سات دہائیاں قبل آزادی ملی تھی۔ ان سات دہائیوں میں تین دہائیاں آمریت کی بھینٹ چڑھ گئیں جبکہ باقی ماندہ تین دہائیاں جمہوریت کی آبیاری میں گزر گئیں مگر بدقسمتی اور المیہ دیکھیے کہ نا تو جمہوریت خالص ملی اور نا ہی آمریت نے مسائل حل کیے۔ ہر آمر نے بالآخر جمہوری بننے کوشش کی اور ہر جمہوری علمبردار مسیحا نے آمریت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ آمریت اور جمہوریت سے فیض یاب نا ہو سکے اگر کسی کو فائدہ پہنچا تو اس کی نشاندہی جالب نے کردی کہ دن پھرے ہیں فقط امیروں کے، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔ مدعا یہ کہ آزادی کے ستر سالوں بعد بھی ارض خداوندی پر وہی سیاسی اشرافیہ اور دولت مند طبقہ مراعات کے من و سلویٰ سے فیض یاب ہوتا رہا جو آزادی سے قبل ہو رہا تھا اب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پہلے کشن لال اینڈ سنز تھے اب غلام رسول اینڈ سنز ہیں۔

بدقسمتی اور المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس انگریز کے سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کر کے الگ ملک حاصل کیا اسی نظام کو نئے ملک میں لاگو کر دیا۔ اگر سابقہ استحصالی نظام کو ہی لاگو کرنا تھا تو پھر اتنی تگ و دو کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ آزاد ہونے کے معنی بیڑیوں سے نجات پانا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کی آزادی تسلیم کرے اور اس کی تعظیم کرے۔ کیا ہماری سیاسی اشرافیہ نے ہماری آزادی کو تسلیم کیا ہے کیا ہمارے حکمران طبقات ہماری آزادی کی تعظیم کرتے ہیں۔

نیلسن منڈیلا نے ہی کہا تھا کہ انسان کو انسانی حقوق سے محروم رکھنا دراصل اس کی انسانیت کو چیلنج کرنا ہے۔ ایک لمحے کو سوچیئے کہ کیا ہمیں انسانی حقوق حاصل ہیں اگر نہیں تو ان کو تلاش کریں جنہوں نے یہ حقوق سلب کر لیے ہیں۔

اور ان کی تلاش کوئی مشکل کام نہیں ہے منٹو نے بہت پہلے یہ تلاش مکمل کرلی تھی اس لیے منٹو کا یہ قول کہ یہ لوگ جو اپنے گھروں میں نظام درست نہیں رکھ سکتے، یہ لوگ جن کا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لیے نکلتے ہیں اور یہ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے۔ کسی بھی سیاسی وابستگی سے ہٹ کر منٹو کی اس بات پر غور کریں تو گرہیں کھلتی جائیں گی اندھیرا دور ہوتا جائے گا اور روشنی میں ہر چیز واضح نظر آنے لگے گی۔ اس سے نا صرف مسائل کا ادراک ہو گا بلکہ ان مسائل کی وجوہات کا بھی علم ہو جائے گا بات اگر یہاں تک آ گئی تو ان مسائل کا حل تلاش کرنا قطعی مشکل نہیں ہو گا۔

بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ بطور قوم اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تعین ہی نہیں کرسکے۔ نت نئے حکمرانی کے تجربات نے مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ہر شاخ پر گویا الو بیٹھا ہے اور انجام گلستاں بھی نظر آ رہا ہے۔ دیگر تجربات کی طرح حالیہ حکومتی تجربہ بھی ناکامی کی بجائے کسی المیے کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ نا تو نیا پاکستان بن سکا اور نا ہی مدینہ کی ریاست بن سکی شاید اسی لیے حکومت کے طرفدار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب بھی ایک ٹاک شو میں پھٹ پڑے کہ کسی نے کہا کہ ریاست مدینہ بناؤں گا ہم نے اس پر یقین کر لیا۔ ان کا سوال تھا کہ ہم کب تک کھوتے بنتے رہیں گے ان لوگوں کے ہاتھوں؟

جنرل صاحب مدت کا تو اندازہ نہیں ہے مگر ایک بات کا علم ہے کہ جب تک اپوزیشن کے مطابق سلیکشن ہوتی رہے گی تب تک تو کھوتے بنتے ہی رہیں گے۔ آج فری اینڈ فیئر الیکشن کرا دیں اس اذیت سے جان چھوٹ جائے گی۔ کیونکہ اگر جمہوریت ناکام ہو جائے تو اس کا علاج مزید جمہوریت ہے اور جمہوریت صرف اور صرف جمہور کے اکثریتی فیصلے کا نام ہے۔ اگر ایک بار غلطی ہوگی تو دوسری بار اس غلطی کو سدھار لیا جائے گا۔ حالات بہتر ہی ہوں گے مزید خراب نہیں ہوں گے۔ لہذا عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔

رہی بات موجودہ حکومت کی پرفارمنس کی تو موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک نے خوشخبری سنائی کہ روپے کی گراوٹ سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ چند لاکھ پاکستانیوں کے فائدے کے پیچھے کروڑوں پاکستانیوں کا جو نقصان ہو رہا ہے اس کا ذکر کرنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔ پتہ نہیں کیوں ارتضیٰ نشاط کا ایک شعر بار بار ذہن میں آ رہا ہے کہ

کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments