لاجک کے دیس کا رہواسی۔ رانومل ملانی


لفظ، لفظ سکھاتا ہے ؛ آدمی، آدمی بناتا ہے۔ میرے کانوں میں آج بھی میرے ایک محترم استاد کے الفاظ گونجتے رہتے ہیں، جو انہوں نے کالج کے دنوں میں کہے تھے۔ یوں تو لاکھوں اساتذہ اپنے فرائض دل و جان سے ادا کر رہے ہیں پر نہ تو کچھ کردار دماغوں کے ساتھ ساتھ دلوں پر بھی سحر طاری کر دیتے ہیں، ان کی کہی گئی باتوں کا اثر زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے، ان کے لئے علم سے بڑا کوئی اثاثہ نہیں ہوتا صرف تعلیم ہی ان کی میراث ہوتی ہے۔ وہ مسلسل پتھروں کو تراشے تراشتے آدمی سے انسان بناتے ہیں۔ محترم رانومل ملانی کا کردار ایسے ہی اساتذہ کی عکاسی کرتا ہے۔

رانومل ملانی کا جنم 2 جولائی 1947 کو پاکستان کی آزادی سے ایک مہینہ قبل ہوا۔ اپنی پرائمری تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول (مین) مٹھی سے حاصل کی اور سیکنڈری کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول مٹھی سے پاس کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج ٹنڈو جان محمد سے پاس کیا۔ بی ایس سی (آنرس) فزکس اور ایم ای کا امتحان سندھ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ ان کے پسندیدہ استاد رام لال شاردا تھے۔ 1972۔ 73 میں پروفیشنل کیریئر کا آغاز بطور ہائی اسکول ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ٹنڈو جان محمد سے کیا۔ میرپور بٹھورو، جھڈو، مٹھی، جیکب آباد، جیمس آباد میں بھی سروس کی۔ سیاسی مداخلت کے بنا بار بار تبادلے ہونے کی وجہ سے 53 سال کی عمر میں بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی اسکول بچل خاصخیلی سے ارلی ریٹائرمنٹ لے لی۔

محترم رانومل ملانی نے کبیر کے مارگ ”کھوج“ کو سائنس کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی اور اسے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور فزکس کو نام اپنے تمام عمر کر دی ( فزکس کے ساتھ ساتھ کیمسٹری اور بیالوجی پر اچھی گرپ تھی ) ۔ وہ طبیعت کے لحاظ سے بہت ہی سخت مزاج کے مالک تھے پر نرم گوئی سے آنکھ تب بھر جاتی تھی جب کسی غریب طالبعلم کے اچھے نمبر آتے تھے تو اسے مبارکباد دینے اس کے گھر چلے جاتے تھے۔ وہ اندھے واہموں کے بجائی لاجک پر یقین رکھتے تھے۔ اس کی نظر میں یہ تھا کہ ان ریتوں و رسموں نے انسان کی تذلیل کی ہے سو اس گھپ اندھیرے سے بہتر ہے ہم جہالت کے پیچھے چھپے اسباب ڈھونڈیں اور اس کے سائنسی حل کی بات کریں۔ اسٹیم ایجوکیشن کی بات 2000 کے بعد دنیا نے کی ہے لیکن رانومل نے تو 1980 سے اس کو فوکس کر کے رکھا تھا۔

1988 میں جب پیپلز پارٹی تھرپارکر میں ابتدا کے دنوں میں تھی تب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی امر جگدیش ملانی کے ہمراہ مل کر سیاست میں بھی حصہ لیا وہ لوگوں کو سیاسی شعور دیتے تھے۔ نہ فقط جگدیش ملانی کی سیاسی تربیت کی پر اس کے ساتھ باقی ممبرز کو بھی بیک سپورٹ دیتے رہے۔ چنانچہ سیاست اس کا سبجیکٹ نہیں تھا سو پارٹ ٹائم اسے دیتے تھے پر اپنی پڑھنے پڑھانے کی جستجو نہیں چھوڑی سو 1988 میں انہوں نے فری کوچنگ سینٹر کھولا اور بس اپنے لگن میں لگے رہے۔

جگدیش ملانی کا اسمائیل اڈھیچو اور فقیر محمد لاشاری کا ساتھ روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا اس کے بعد رانومل کی زندگی کے کئی باب بند ہو گئے۔ سیاست سے بالکل ہی کنارا کشی کر لی، کوچنگ سینٹر پر پڑھانا چھوڑ دیا۔ اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر منوج ملانی کی شادی (تب جگدیش ملانی حیات تھے ) صرف وہی اٹینڈ کی تھی باقی اس کے بعد اپنی فیمیلی کے کسی بھی ممبر کی شادی اٹینڈ نہیں کی نہ ہی مہمان خانے گئے۔ جبکہ شام داس ملانی کی وفات کے بعد اپنے کمرے تک محدود رہے اور نیچے بھی کبھی نہیں اترتے تھے۔

رجنیش اوشو لکھتے ہیں کہ ایک چیلا اپنی گرو کی بہت خدمت کرتا تھا، گرو کے گزر جانے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں تمام عمر بند کردی۔ کسی نے ان سے سبب پوچھا تو کہنے لگے، ”دنیا میں خوبصورت مورت جو دیکھنی تھی وہ چلی گئی اب دنیا کی دھندلاٹ سے آنکھوں کو کیا خراب کرنا۔ شاید کسی ایسی بات نے رانومل کے دل کو جگدیش ملانی کے جانے کے بعد جھنجھوڑا تھا جو پھر اس کی ساری دنیا اک شخص کے چلے جانے سے ویران ہو گئی۔

رانومل کی زندگی کے بہترین دوست بھی اساتذہ ہی تھے جن میں سے ریجھومل کرشنانی، روی شنکر پرانی، پربھولال سوٹار اور کرشن لال جگانے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جن سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی تھی پر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی دوستوں کے بچھڑ جانے سے رک گیا۔

جیسا کہ ان کی طبیعت اور مزاج سائنسی باتوں سے آشنا تھا، ان کے اندر میں درد کے بستیوں کے مسافروں کا ٹھکانا تھا خاص کر کے شاگرد، یتیم و بیوہ اور غریب لوگ۔ ان کو وہ گپت دان دے کر مدد کرتے تھے پر شاگردوں کے لیہ انہوں نے 1999۔ 2000 میں دوبارہ کوچنگ سینٹر کا آغاز کیا جس کا سفر آخری سانس تک چلا۔

شہر کے لوگ کہتے ہیں سیاسی خاندان سے وابستگی کے باوجود وہ پنچایت کے فیصلوں میں بہت ہی کم آتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی ایم این ای ڈاکٹر مھیش کمار ملانی کے کاندھوں پر سیاسی زمیواری ہے وہی فیصلے کرتے ہیں اس کے ساتھ امر جگدیش ملانی کے بیٹے ششیل ملانی کی کردار بھی نمایاں ہے۔ پر نہ تو گر کوئی ان کے پاس جاتا تھا پھر جو پہلے پہنچتا تھا اس کو ترجیح دیتے تھے ان کا دکھ درد سن کر خود کو قابو نہیں کر پاتے تھے۔ وہ ملانی خاندان میں سب سے بڑے تھے، پیپلز پارٹی پر آئے ہر کٹھن وقت میں بھی انہوں نے سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کی۔

ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ گھر کا گزارا کوچنگ سینٹر تک محدود ہو گیا یا جھن موری پر قائم مرحوم موتی رام کی بنائی کلینک تک پر بینظیر بھٹو سے کیے ہوئے عہد پر ڈٹ کے کھڑے رہے۔ رانومل ملانی کے بڑے شہزادے ڈاکٹر منوج ملانی ہے جو مٹھی کے میونسپل چیئرمین بھی رہے ہیں۔ ان کی طبیعت بھی سیاسی شطرنج کے پیادوں کو الٹی سیدھی چالوں کے بجائی سیدھی اور سچی بات پر ہی رہی ہے۔ ملانی فیمیلی کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ خاندان میں بڑی عمر تک رسائی بہت ہی کم رہی ہے۔

رانومل تو ویسے بھی غمزدہ ہونے کی وجہ سے محدود ہو گئے تھے لیکن دسمبر میں اس کے پوتے کی ہونے والی شادی میں بہت ہی پرجوش تھے۔ ایک مرتبہ پھر اس کے اندر کا بچہ جاگ اٹھا تھا، وہ خریداری کی پوچھ تاچھ، منڈپ، مہمان نوازی، شادی کی ساری ریتوں و رسموں کو دیکھنے کے لیہ بے تاب تھے۔ فیمیلی فوٹوز، شیئرنگ برسوں بعد ایک نئی خواہش اپنے پوتے کو دولھا بنتے ہوئے دیکھنے کی انگڑائیاں لے رہی تھی پر سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔

جب جولائی 2012 میں خیرپور سے تعلق رکھنے والے آغا وقار نے یہ دعوی کیا کہ پانی کی کٹ سے گاڑی چل سکتی ہے اور پورے ملک میں اس کا چرچا عام ہوا تب رانومل ملانی نے اسے سائنسی بنیادوں پر رد کیا اور چیلنج کیا اور کہا کہ یہ ناممکن ہے اور 50 لاکھ کی شرط بھی رکھی اور کہا گر یہ آغا وقار سہی ہے تو تھرمو ڈائینیمکس کے تینوں قانون غلط ہوجائیں گے۔ اور اس نے کوئی جواب تک نہیں دیا۔

وہ علم سے عقیدت نہیں عشق کرتے تھے، وہ سگریٹوں کے دھوئیں کی لہروں کے تسلسل پے کائنات میں چھپے ان گنت بھیدوں کو سائنس کے لینس سے کھوجتے، ڈھونڈتے رہتے تھے۔ اس نے اس دنیا سے الگ اپنی سوچ و لاجک کی دنیا بسا رکھی تھی۔ وہ روز تین، چار گھنٹے پڑھاتے تھے۔ ارجنداس سوٹار اور نصیر کمہبار ان کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ کرکٹ ان کا پسندیدہ کھیل تھا، بڑی دلچسپی سے میچز دیکھتے تھے اور تبصرے کرتے تھے۔ سارا دن کتابوں سے دوستی، تھوڑا وقت ٹیلیویژن پر گزرتا تھا وہ پرانی انڈین گانے بڑے شوق سے سنتے تھے رات دیر تک لتا، کشور اور رفیع کی آوازیں کمرے میں گونجتی رہتی تھی۔ ان کی ذاتی کچہری کے موضوع بھی سائنس، علم، کرکٹ اور بڑھتے مہنگائی ہوا کرتے تھے۔ ”سوئمنگ“ ملانی خاندان کو دی ہوئی مالک کی گفٹ ہے اور رانومل مل ملانی نے 2011 کے سیلاب کے دوران بہت سے لوگوں کو ریسکیو بھی کیا۔

اس نے ایک ادارہ بن کے کام کیا، کئی گھروں کو روشنی دی۔ وہ سائنس کے شاگرد کے ساتھ ”شریمد بھاگوت گیتا“ کی بھی اچھی نالج رکھتے تھے اور فرسودہ ریتوں کو کبھی اسپیس نہیں دیا۔ انہوں نے سختی سے ”بارس“ ( ہندو مذہب میں آدمی کے وفات کے بارہویں دن کے بعد کھانا کھلانا اور باقی رسومات بھی ہیں ) کی منع کی اور کہا اس کا کہیں بھی ذکر بھاگوت گیتا میں نہیں ہے۔ اس کی فیملی نے یہی فالو کیا ہر وقت ہر بندے کو بنا تفریق کے کھانا کھلاتے ہیں۔ جیسا کہ وہ سائنسدان تھے تو لہذا اس کے مشن کو آگے چلاتے ہوئے ملانی فیمیلی سے گزارش ہوگی کہ تھرپارکر سائنس سینٹر، سائنس میوزیم یا ریسرچ کرنے والے غریب تھری شاگردوں کے لیہ کوئی اسکالرشپ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔

موت ایک برحق حقیقت ہے، ہم اس دکھ کی گھڑی میں ملانی پریوار کے ساتھ ہیں۔ بنیادی سوال یہ نہیں رہتا کہ کوئی کتنی دن جیئے پر بنیادی سوال یہ رہتا ہے کہ کوئی کیسے جیئے۔ وہ ہمیشہ اوروں کے لیہ جیئے۔ انہوں نے جہالت کے اندھیرے کو بھگانے کی کوشش علم کی شمع جلا کے کی۔ آج ہر وہ غریب آنکھ افسردہ ہے جس نے اس سے تعلیم لی۔

آپ نے اپنا ہاتھ غریب بچوں کے ہاتھوں میں دے کر ان پر عمر کا احسان کر دیا
اپنے چمن میں آسان ہے اگانا گل اور بوٹے، آپ نے اوروں کے ریگستان کو گلستان کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments