بلوچستان میں سیکنڈری ایجوکیشن تباہی کے دہانے پر


بلوچستان کا سیکنڈری سکول ایجوکیشن سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے۔ صوبے کا ہر تعلیمی اشاریہ مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے جو کہ ملک کے دوسرے صوبوں کئی بنسبت بدترین ہے۔ صوبے میں کل 14979 سکول ہیں جن میں 5288 سکولز میں صرف ایک استاد کے ساتھ فعال ہیں۔ صوبے کے کل سکولوں میں 3193 سکول غیر فعال ہیں۔ مزید براں صوبے میں 13000 مدارس ہیں جبکہ 2875 پرائیویٹ سکول قواعد و ضوابط کو پورا کیے بغیر فنکشن کر رہے ہیں۔ صوبے میں شرح خواندگی کی صورتحال قابل تشویش ہے جہاں مردوں کی شرح خواندگی 44 فیصد اور خواتین کی 27 فیصد ہے جبکہ دیہی بلوچستان میں خواتین کی شرح خواندگی 17 فیصد رہ گئی ہے۔ پرائمری سطح پر طلباء اور اساتذہ کا تناسب 1.30 ہے جبکہ مڈل، ہائی اور ہائی سیکنڈری کی سطح پر یہ تناسب بڑھ کر 1.40 ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف، کلاس روم اور طلباء کا تناسب اوسط 1.21 ہے، جو کہ بین الاقوامی معیار سے بہت نیچا ہے۔ سکولوں کا انفراسٹرکچر قابل رحم حالات میں ہے جہاں صرف 21 فیصد سکولوں میں بجلی دستیاب ہے جبکہ 43 فیصد سکولوں میں بیرونی دیواریں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، صوبے کے صرف 29 فیصد سکولوں میں بیت الخلا دستیاب ہیں، جب کہ کمپیوٹر لیب صرف 1.3 فیصد سکولوں میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 11795 سکول پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ سکولوں سے باہر بچوں کا تناسب 47 فیصد ہے جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔ دوسری طرف نصابی کتب بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں جبکہ نصاب پرانا ہے جس نے طلباء کی سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ امتحان کا نظام و ہی پرانے ڈگر پر ہے جس کا زیادہ حصہ رٹے والے سوالات پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہیں

اگرچہ بہت سی وجوہات کے تعلیمی تنزلی کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان میں دو اہم ترین وجوہات قابل ذکر ہیں۔ بجٹ اور انتظامی نظام۔

2014۔ 15 میں، تعلیمی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب کل ​​بجٹ کا 24 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی دیکھنے میں آئی۔ 2015 سے 2021 تک، بجٹ مختص کرنے کا تناسب 17 سے 18 فیصد کے گرد گھومتا ہے۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ تنخواہوں پر خرچ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دوسری شعبوں کے لئے آٹے میں نمک کے برابر رقم بچتی ہے جو کہ بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس لیے دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ سکولوں اور اساتذہ کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔

تعلیمی شعبے کے زوال کی ایک اور وجہ بڑا طرز تعلیمی نظام ہے۔ اگرچہ صوبائی حکومتوں نے بار بار حکمت عملیوں تیار کی ہے، لیکن ان پر کبھی بھی حقیقی جذبے کے ساتھ عمل نہیں کیا گیا۔ صوبائی حکومت کو 18 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 25 اے کو نافذ کرنے میں چار سال لگے۔ اس کے علاوہ، 2020۔ 25 کے تعلیمی شعبے کے منصوبے میں، بلوچستان حکومت خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ 2013۔ 18 کے منصوبے کا 36 فیصد حصہ کبھی نافذ نہیں ہوا۔

دوسری طرف پرائیویٹ سکولوں کے ساتھ ساتھ مدارس کا چیک اور بیلنس نہ ہونے سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے دوران افسران کی سیاسی وابستگی اور اساتذہ یونینوں کے مافیاز نے تعلیمی سیکٹر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جونیئر اساتذہ کو مقامی سطح پر ڈی ای او، ڈی او ای اور ہیڈ ماسٹر کا اضافی چارج دیا جاتا ہے، جبکہ صوبائی اور ڈویژنل سطح پر جن افسران کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، وہ اعلیٰ سطح کے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بدانتظامی کے ہوتے ہوئے تعلیم کے شعبے میں ترقی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ EMIS کی آفیشل ویب سائٹ گھوسٹ سکولز، گھوسٹ اساتذہ، اور اساتذہ کی کم حاضری کا دردناک منظر دکھاتی ہے، لیکن پروا کون کرے۔ کیونکہ انتظامیہ کا دم سیاسی اور اساتذہ یونینوں کے گروہوں نے گھٹا دیا ہے۔

صوبے کا سیکنڈری تعلیمی نظام خراب سے خراب تر ہو رہا ہے۔ کوئی بھی ایسا تعلیمی اشاریہ ایسا نہیں جو اس شعبے کی تعلیمی صورتحال کی تسلی بخش پیش رفت کو ظاہر کرے۔ لہذا صورتحال کا

تقاضا کرتی ہے کہ فوری طور پر قلیل مدتی اور طویل مدتی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ جس میں سب سے اہم توجہ بہتر طرز حکمرانی پر مرکوز کرنا ہے۔ جب تک اچھی طرز حکمرانی نہیں اپنائی جاتی تب تک ایک مضبوط سیکنڈری تعلیمی نظام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments