پاکستان میں مہنگائی: اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندانوں کو کیسے متاثر کیا؟


عامر شہزاد
عامر شہزاد بمشکل اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی دے پا رہے ہیں
’دو دن سے میرے گھر میں روٹی نہیں پکی کیونکہ آٹا خریدنے کے لیے پیسے نہیں۔ دو سال ہو گئے میری بیٹی سکول نہیں جا سکی کیونکہ میں اب فیس نہیں دے سکتا۔ میں نے داڑھی رکھی ہے تاکہ شیو کرانے کے سو روپے گھر میں استعمال ہوں۔ پانچ کلو کی بجائے ایک کلو آٹا لاتا ہوں اور تین وقت کی بجائے دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ مہنگائی نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ غریب اس دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور اس ملک میں غریب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘

کھولنے بیٹھیں تو عامر شہزاد کے پاس شکایتوں اور مجبوریوں کا ایک پینڈورا باکس ہے۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی کے رہائشی عامر پاکستان کی اس نصف سے زائد آبادی کا حصہ ہیں جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہی تھی اور اب مہنگائی کی حالیہ لہر نے ان کی کمر ہی توڑ دی ہے۔

دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں رکھی ہر شے یہاں رہنے والوں کی بدحالی کا پتہ دیتی ہے۔ عامر شہزاد پیشے کے اعتبار سے الیکٹریشن اور مکینک ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے مگر پھر واپس نہ جا سکے۔ وہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک سال پہلے وہ جو چیز ایک ہزار میں خریدتے تھے اس کی قیمت اب دو ہزار کو پہنچ گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے ’میرا ایک بیٹا چار ماہ کا ہے مگر ہم اس کے پیمپر نہیں خرید سکتے۔ پیٹرول اتنا مہنگا ہے کہ میں کام ڈھونڈنے نہیں جا سکتا کہ پہلے مجھے ایک سو چالیس روپے چاہیے جس کا پیٹرول ڈالوں اور پھر کام ڈھونڈوں لیکن انھی 140 روپے کی مجھے گھر میں آٹا لانے کے لیے بھی ضرورت ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں انیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کوکنگ آئل کی قیمت اڑتیس فیصد بڑھی ہے۔ بجلی بائیس فیصد مہنگی جبکہ گیس سلنڈر کی قیمت میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

عامر شہزاد کہتے ہیں کہ روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود تھے، کورونا وائرس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

’کبھی ہفتے میں ایک ہزار کی مزدوری ملتی ہے کبھی دوہزار کا کام۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کام ہی نہیں ملتا۔‘

یہ تو ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جن کی آمدنی کافی کم اور غیر مستحکم ہے۔ بی بی سی نے ایک متوسط طبقے کے خاندان سے بھی بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہے۔

زاہدہ شاہد

زاہدہ شاہد سمیت کئی افراد مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں

زاہدہ شاہد راولپنڈی کے علاقے سیٹلائیٹ ٹاون کی رہائشی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب کفایت شعاری کے باوجود ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہو رہا ہے۔

’پہلے ایک سال بعد بجٹ آتا تھا مگر اب میرے خیال میں ہر آٹھویں دن، ہر چوتھے دن اعلان ہوتا ہے۔ پہلے بجلی مہنگی ہوتی ہے، دو دن بعد پٹرول مہنگا ہو جاتا ہے۔ سبزی لینے جاؤ، گوشت لینے جاؤ، ہر چیز مہنگی ہے۔ ہمیں پہلے نہیں معلوم تھا کہ آٹا کتنے روپے کلو ہے، اب اچھی طرح پتا چل گیا کہ آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے۔ جو کہتے تھے کہ بہت خوشحالی آئے گی اب اتنی ہی پریشانی آ گئی ہے۔‘

پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔

عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال میں ہی بیس لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔

کورونا کی عالمی وبا کے دوران حالات بدتر ہوئے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق وبا کے دوران پاکستان میں کام کرنے والے افراد کی نصف تعداد کی نوکریاں ختم ہو گئیں یا ان کی آمدن کے ذرائع سکڑ گئے جبکہ اس کا سب سے بڑا دھچکا ان ہنرمند افراد کو لگا جو عارضی دیہاڑی کے طور پر کام کر رہے تھے۔

زاہدہ شاہد کہتی ہیں کہ مہنگائی نے سب سے زیادہ دسترخوان کو متاثر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

کیا مہنگائی کے ساتھ قوّت خرید میں اضافے کا حکومتی دعویٰ صحیح ہے؟

’میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں‘

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

’پہلے ہم ہفتے میں تین بار گوشت کھاتے تھے، اب وہ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار کھاتے ہیں۔ جو چیز آدھا کلو پکاتے تھے، وہ اب پاؤ بھر پکاتے ہیں۔ عزیز و اقارب سے میل ملاقات اور رشتہ داروں کی گھر آنا جانا چھوڑ دیا کیونکہ پیٹرول اب ہمارے بس سے باہر ہے۔‘

پاکستان میں عام خاندان اپنی آمدن کا نصف سے زیادہ حصہ کھانے پینے اور بجلی، گیس کے بلوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں اگر ایک خاندان کی کل آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ تھی تو اشیائے خوردونوش اور بلوں کے بعد رہائش، تعلیم، علاج معالجے وغیرہ اور باقی تمام خرچوں کے لیے بمشکل بیس یا بائیس ہزار ہی بچتے تھے۔

ماہرین کے مطابق مہنگائی نو فیصد کے سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اگر سرکاری اعداد و شمار کو درست مان بھی لیں تو پچاس ہزار کی آمدن تقریبا پینتالیس ہزار کے برابر رہ جاتی ہے یعنی کھانے پینے اور بلوں کی ادائیگی کے بعد ایسے خاندان کے پاس سترہ سے اٹھارہ ہزار روپے بچتے ہیں تو اس رقم میں رہائش، تعلیم، علاج معالجہ کیسے ممکن ہے؟

اسی بارے میں حکومتی مؤقف جاننے کے لیے متعدد متعلقہ وزرا سے رابطے کیے گئے مگر تادم تحریر کوئی جواب نہیں ملا۔

پاکستان میں اکنامک ایڈوایزری کمیٹی کے رکن عابد سلہری کہتے ہیں کہ ’حکومت سوشل سیفٹی پروگرام احساس پروگرام کے تحت ٹارگٹڈ سبسڈی دینے جا رہی ہے۔ ان اشیا میں دال، گھی، کوکنگ آئل، چینی اور آٹا شامل ہیں۔‘

عابد سلہری کہتے ہیں کہ ’ڈیٹا ٹیکنالوجی کی مدد سے کم آمدن والے افراد، جو موٹر سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہوں، ان کو براہ راست کیش کی منتقلی یا خاص سبسڈی دی جانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے تاکہ پیٹرول کی قیمت کا ان پر اثر نہ ہو۔‘

محمد الطاف

محمد الطاف بچوں کے لیے چوزے فروخت کرتے ہیں

اسلام آباد کے علاقے آبپارہ کی رہائشی شمسہ زینب نے بی بی سی کو اپنے دو بچوں کے سکول کے داخلہ کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ انھوں آج ہی اپنے بچوں کا داخلہ ایک سستے سکول میں کروایا ہے کیونکہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتیں۔

’مہنگائی میں کمی کی کوئی امید نہیں۔ ہم نے کھانے پینے کی چیزوں کے معیار پر سمجھوتہ کیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کریں؟ کوئی امید نہیں کہ حالات بہتر ہوں، حالات بگڑتے ہی جائیں گے۔‘

راولپنڈی میں ہی ہماری ملاقات محمد الطاف سے ہوئی جو روزانہ بچوں میں رنگ برنگے چوزے بیچتے ہیں مگر ان کی اپنی زندگی میں غربت کی سیاہی کے علاوہ اور کوئی رنگ نہیں۔

’لوگ خودکشی کر رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو کہاں سے کھلائیں یا انھیں تعلیم کہاں سے دیں۔ میں بچوں کو سکول نہیں پڑھا سکتا، یہاں دو وقت کی روٹی مشکل ہے، اس لیے میں نے انھیں بھی کام پر لگا دیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ دن میں ’سو، دو سو روپے سے زیادہ نہیں کماتے۔‘

زاہدہ شاہد سمیت یہ تمام افراد اس مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ وزیراعظم عمران خان کا ایک مشہور جملہ دہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خان صاحب نے کہا تھا سکون قبر میں ملے گا۔ اب ہم یہی سوچتے ہیں کہ واقعی قبر میں ہی سکون ملے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments