ٹمبر مافیا: انتہائی قیمتی درخت دیار کو غیر قانونی طور پر کاٹنے اور کم جرمانے پر کالام کے باسیوں کا غم و غصہ


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے تفریحی مقام کالام میں محکمہ جنگلات کی زمین پر پاکستان کا قومی درخت قرار دیے گئے قیمتی دیار یا دیودار کے درخت کاٹنے والے ملزمان کو پانچ لاکھ جرمانے کے عوض رہا کرنے پر کالام میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں کالام اور بحرین کو ملانے والی اہم سڑک پر محکمہ جنگلات کی زمین پر اُگے دیار کے پانچ درختوں کو بھاری مشنیری کی مدد سے کاٹا گیا تھا جبکہ مزید درختوں کو کاٹنے کی کوشش پر اہلیانِ علاقہ نے محکمہ جنگلات کو اطلاع دی، جس نے موقع پر ہی تین افراد کو حراست میں لے لیا۔

محکمہ جنگلات کالام کے ایس ڈی ایف او محمد ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ جب موقع پر پہنچے تو اس وقت تک کم از کم پانچ درخت کاٹے جا چکے تھے۔‘

محمد ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مزید درخت کاٹنے سے روک کر ان کو اپنی حراست میں لے لیا اور پانچ لاکھ روپیہ جرمانہ عائد کیا۔

درخت جس مقام سے کاٹے گئے ہیں وہاں نہ صرف کالام کی خوبصورتی متاثر ہوئی بلکہ اس سے ماحولیات اور دیار کے درخت کے تحفظ کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اس واقعے پر جنگل بچاؤ تحریک نامی تنظیم احتجاج کر رہی ہے۔ اس کے سیکرٹری جنرل اختر علی جان کہتے ہیں کہ ’دیار کے درخت کاٹنے پر صرف پانچ لاکھ جرمانہ ایک مذاق ہے۔‘

’یہ ایسے ہی ہے کہ چوروں کو معمولی جرمانہ کر کے ان کو کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا لائنسس دے دیا جائے۔ اس وقت کالام میں دیار کے جنگل اور درخت ٹمبر مافیا اور قبضہ گروپ کے ہاتھوں خطرے کا شکار ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’معمولی جرمانوں کی بدولت غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ پکڑے گئے تو معمولی جرمانہ ہو گا جس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

اسسٹنٹ کمشنر بحرین ہدایت اللہ کا کہنا ہے کہ ’ٹمبر سمگلروں پر جرمانے کرنے کی وجہ سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو جیلوں میں بھیجنا چاہیے تاکہ ان میں خوف پیدا ہو۔‘

تاہم محمد ظاہر شاہ اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات قانون کے مطابق جرمانے کرتا ہے۔ حالیہ واقعے کا جرمانہ بھی قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ کیا گیا۔

درخت کاٹنے کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

محمد ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ کالام میں ابھی تک زمینوں کا بندوبست نہیں ہوا مگر محکمہ جنگلات کے پاس سنہ 1927 کے ایک سروے کے علاوہ مکمل دستاویزات اور نقشے موجود ہیں جن کی رو سے کالام اور بحرین کے علاقے میں بیس ہزار ایکڑ پر مشتمل رقبہ محکمہ جنگلات کی ملکیت ہے۔

جس میں ایک بڑے رقبے پر قیمتی درخت لگائے گئے ہیں جبکہ اس رقبے پر قدرتی جنگلات بھی موجود ہیں جن کی حفاظت قانونی طور پر محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعے میں 100/100 فٹ کی جگہ پر ملزمان نے اس قیمتی اور مہنگی جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے راتوں رات درخت کاٹنے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ بعد میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اس مقام پر درخت موجود نہیں تھے اور یہ جگہ محکمہ جنگلات کی ملکیت نہیں۔

محمد ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ان کو کالام میں تعنیات ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں۔ کالام کے اندر یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اس طرح درخت کاٹ کر محکمہ جنگلات کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہوئی ہو۔

’ان چھ ماہ کے دوران ہم نے چھ ایسے واقعات روکے ہیں جن پر اس وقت قانونی کارروائی جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو درخت کاٹے گئے ہیں ان کی عمریں تقریباً پچاس سال تھی یعنی ابھی وہ جوان یا میچیور نہیں ہوئے تھے۔ دیار کا ایک درخت سو سال بعد جوان تصور کیا جاتا ہے۔

اختر علی جان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو یہ بات ٹھیک لگتی ہے کہ حالیہ واقعے میں درخت کاٹنے کا مقصد قیمتی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی اور اس مقصد کے لیے بھاری اور جدید مشنیری لائی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ زمینوں کا بندوبست نہ ہونا ایک بڑا سقم ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ جس میں لوگوں نے محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ اس طرح نہ صرف محفوظ اور جنگلات کے لیے مختص زمین ختم ہو رہی ہے، ساتھ میں دیار کے جنگلات بھی ختم ہو رہے ہیں۔

اختر علی جان کا کہنا تھا کہ ’ہم مقامی لوگ ہیں اور ہمیں اچھے سے پتا ہے کہ درخت کہاں سے کاٹے گئے ہیں۔ وہ جگہ محکمہ جنگلات کی تھی۔ محکمہ جنگلات نے درخت کاٹنے کا جرمانہ کیا گیا ہے جبکہ زمین پر قبضے کا کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا گیا۔ جس کی بنا پر ایسے لوگوں کی مزید حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے پانچ لاکھ خرچ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘

غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے اور سمگلنگ پر سزائیں

محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور سمگلنگ پر جرمانوں کی صورت میں سزا دیتا ہے۔ یہ جرمانے ہر سال ازسر نو مقرر ہوتے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی ایسی گاڑی جو کہ غیر قانونی لکڑی سمگل کرتی ہوئی پائی جائے اس پر زیادہ سے زیادہ 70 ہزار روپیہ جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

رات کے اوقات میں پکڑی جانے والی ایسی گاڑی پر جرمانہ دگنا ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ جرمانہ صرف گاڑی پر ہونے والا جرمانہ ہے۔ اب اس کے بعد محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے پاس پکڑی جانے والی لکڑی کے حوالے سے کچھ قانونی اختیارات ہوتے ہیں۔

پکڑی جانے والی لکڑی پر الگ سے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ جن لوگوں سے لکڑی پکڑی جاتی ہے اگر وہ اپنا جرم تسلیم کر لیں تو محکمہ جنگلات کے اہلکار ان پر پکڑی جانے والی لکڑی کا جرمانہ کرتے ہیں۔ کم از کم جرمانہ پندرہ سو روپے فٹ سے لے کر چار ہزار روپے فٹ تک ہے۔

مختلف اقسام کی لکڑی پر مختلف جرمانے ہیں۔ سب سے زیادہ جرمانہ دیار اور سب سے کم جرمانہ چیڑ کی لکڑی پر ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق یہ جرمانے مارکیٹ ریٹ کے مطابق مقرر کیے جاتے ہیں۔ ان میں کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جرمانے مقرر کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

سات صدیاں پرانا درخت جسے تواہم نے بچا رکھا ہے

تنازعات میں گِھرا افسانوی درخت جس نے کروڑوں انسانی زندگیاں بچائیں

شجرکاری جب جنون بن جائے

محکمہ جنگلات چترال کا وہ اہلکار جس کے خون میں جنگلات سے محبت شامل تھی

حالیہ واقعہ پر ہونے والا جرمانہ

محمد ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ دیار کے ایک جوان درخت کی کالام کے اندر خرید و فروخت تو بیس، تیس ہزار روپے میں ہوتی ہے مگر پاکستان کی مارکیٹوں میں جا کر اس کی کم از کم قیمت 25 لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعہ میں جرمانہ کم کیا گیا ہے بالکل غلط ہے۔ ’ہم نے زیادہ سے زیادہ جرمانہ کیا ہے۔ یہ واقعہ رات کا تھا اس لیے گاڑیوں پر دگنا جرمانہ ہوا۔ کاٹے جانے والے دیار کے درخت جوان نہیں تھے ان کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ ان میں سے صرف سو فٹ لکڑی برآمد ہوئی تھی۔ اس حساب سے جرمانہ ہوا۔‘

اختر علی جان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ قانون کے مطابق جرمانے وغیرہ درست ہوں مگر یہ جرمانہ اور سزائیں درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور سمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹمبر مافیا بھی بہت زیادہ فعال ہو چکی ہے جو اکثر اوقات چوری چھپے درخت کاٹتی ہے۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ کالام کا حسن اور خوبصورتی صرف اور صرف درختوں کے مرہونِ منت ہے۔ جس رفتار سے یہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ کالام مکمل طور پر گنجا ہی نہ ہو جائے۔‘

ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ ’ہونا تو یہ چاہیے کہ جب محکمہ جنگلات کسی سمگلر کو پکڑے تو اس کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے، میجسٹریٹ ان کو جیل بھیجنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ درخت کاٹنے اور سمگلنگ کرنے والوں کو چند دن کے لیے جیل اور پھر بعد میں سزائیں ملنی چاہیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔‘

ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایک سال کے دوران کئی لوگوں کو جیل بھیجا اور اس کے بعد ان پر جرمانے عائد کیے۔ محکمہ جنگلات کو چاہیے تھا کہ وہ سمگلروں پر زمین پر قبضے کا مقدمہ بھی درج کروائیں۔‘

بدقسمتی سے مؤثر کارروائیاں نہ ہونے کی بنا پر بحرین اور کالام میں درختوں کی کٹائی اور محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضے کے کئی واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔

کالام دیار کا گھر

صوبہ خیبر پختونخوا کے ریٹائرڈ چیف کنزرویٹر آفیسر جاوید ارشد کے مطابق قومی درخت دیار کے جنگلات مالاکنڈ، ہزارہ ڈویژن کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کالام اور بحرین میں ان کے بڑے جنگلات موجود ہیں۔ یہ درخت کم از کم چھ ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں۔

سید ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کالام دیار کا گھر ہے۔ کالام میں ان کی قدرتی آمجگاہیں موجود ہیں جہاں پر یہ قدرتی طور پر پرورش پاتے ہیں۔ کالام کے جنگلات میں سب سے زیادہ جنگل دیار کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیار کو آج تک لگانے کے طریقے زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تاہم اپنی آمجگاہوں پر جہاں اسے قدرتی ماحول دستیاب ہوتا ہے وہاں پر جوان قدر آور درختوں کے بیچ ہوا سے گرتے ہیں اور ان بیچوں سے دیار پرورش پاتا ہے۔

اختر علی خان کا کہنا تھا کہ اب جن لوگوں نے پچاس پچاس سال کے کم عمر درخت کاٹے ہیں انھوں نے انسانیت کے ساتھ جرم کیا ہے۔

’دیار کا درخت نہ صرف کالام، سوات بلکہ پورے خطے کے لیے ماحولیاتی طور پر انتہائی کار آمد درخت ہے۔‘

دیار کیوں انتہائی قیمتی ہے؟

جاوید ارشد کا کہنا تھا کہ ’دیار انتہائی مضبوط لکڑی کا حامل درخت ہوتا ہے۔ اس کو برسوں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ قدرتی طریقے سے پرورش پانے کے بعد موسمی تبدیلیوں کو بھی برداشت کر لیتا ہے۔ انتہائی مضبوط لکڑی ہونے کی بنا پر اس کو بحری جہازوں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘

جس مقام پر اس کے درخت ہوں گے یا کسی فرنیچر اور عمارتی کام میں اس کا استعمال ہوگا وہاں پر ہر وقت ایک خوشگوار خوشبو رہتی ہے۔ یہ خصوصیت کسی اور درخت میں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا تیل مختلف کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے کے علاوہ مقامی طریقہ علاج میں بھی بڑا کار آمد ہے۔ اس کو کپڑے کی صنعت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جاوید ارشد کا کہنا تھا کہ سب سے بڑھ کر یہ کہ دیار قدرتی آفات کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہوتا ہے۔ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ کے موقع پر یہ ان کی شدت کو کم کرتا ہے۔ جہاں پر دیار کے درخت موجود ہوں وہاں پر لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیار کا درخت صرف اس علاقے ہی کے ماحول کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے اردگرد میلوں تک کے علاقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ دیگر درختوں کی بھی حفاظت کرتا ہے۔

پاکستان میں موجود درختوں میں یہ سب سے قیمتی اور خطرے کا شکار درخت ہے۔ یہ قومی درخت ہے اس کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کاٹنا جرم ہی نہیں بلکہ انتہائی شدید جرم سمجھا جانا چاہیے۔

اختر علی خان کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاج اور مہم کے باوجود پیسوں کی لالچ میں کئی لوگ دیار کا بے دریغ کٹاؤ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق ’مقامی لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کالام کی بقا دیار کی مرہوں منت ہے۔ جس رفتار سے کالام میں یہ درخت کٹ رہے ہیں، وہ افسوسناک ہے۔ اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مینگورہ اور پشاور کا بھی رخ کر سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments