ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان انڈیا کرکٹ مقابلوں کا جنون جس میں صحافی بھی مبتلا ہو جاتے ہیں


تماشائی
پاکستان انڈیا کرکٹ میچ کی روایتی سحر انگیزی کو پہلی بار میں نے اس وقت محسوس کیا، جب میں نے اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ نیشنل سٹیڈیم کراچی کے جنرل انکلوژر میں بیٹھ کر ٹیسٹ میچ کے آخری دن عمران خان کو بشن سنگھ بیدی کی گیندوں پر چھکے لگاتے اور جاوید میانداد اور آصف اقبال کو وکٹوں کے درمیان تیز رفتاری سے دوڑ کر پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرتے دیکھا تھا۔

اور جب عمران خان نے اسی نیشنل سٹیڈیم کراچی میں انڈین بیٹنگ لائن کو اپنی آٹھ وکٹوں کی شاندار کارکردگی سے بکھیر کر رکھ دیا تھا تو اس وقت بھی میں سٹیڈیم میں بیٹھا دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی کرکٹ کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا۔

پاکستان انڈیا کرکٹ کی اس جادوگری کے بارے میں اس وقت میرے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ میری زندگی کا بھی حصہ بن سکتی ہے اور جن لمحات سے میں ایک عام شائق کے طور پر خود لطف اندوز ہو رہا ہوں ان لمحات کو میں صحافی کی حیثیت سے دنیا کے سامنے بیان کرنے لگوں گا۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ کھیلوں کی صحافت سے وابستگی کی ان چار دہائیوں میں پاکستان کرکٹ میچ کی کوریج کو میں نے ہمیشہ منفرد انداز میں دیکھا، جس میں پیشہ ورانہ تقاضوں کو دیگر ایونٹس کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی پورا کرنے کا دباؤ ہوتا ہے لیکن اس کے بدلے یہ خوشی بھی ملتی ہے کہ آپ دو روایتی حریفوں کی کرکٹ کے یادگار لمحات کا حصہ ہیں۔

پاکستان انڈیا کرکٹ میچ

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سنہ 1994 میں جب بی بی سی اردو نے مجھے پہلی بار پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ سری لنکا کی کوریج کے لیے بھیجا تو میں اس دو ماہ کے طویل دورے کے ان آخری چند دنوں کا شدت سے انتظار کررہا تھا جب سنگر ٹرافی میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں کولمبو کے پریما داسا سٹیڈیم میں مدمقابل ہونے والی تھیں۔

لیکن میرے لیے وہ لمحہ انتہائی مایوس کن تھا کہ بارش نے اس میچ کو ممکن نہیں ہونے دیا تاہم اس ٹورنامنٹ کے دوران مجھے اس دور کے چار بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک کپل دیو اور انڈین کپتان اظہرالدین سے انٹرویو کرنے کا موقع ضرور ملا۔

اظہرالدین سے تعلق تادیر قائم رہا۔ وہ جب بھی ملے میں نے انھیں ہمیشہ پرُخلوص انسان پایا۔

کپل دیو

نوے کی دہائی میں شارجہ، پاکستان انڈیا کرکٹ کی غیرمعمولی گہما گہمی کے اہم ترین مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ ان میچوں میں شائقین کا جوش و خروش اپنے عروج پر ہوتا تھا اور پھر جب دو طرفہ سیریز کا موقع آتا تو دونوں طرف کے شائقین کے جذبات الگ ہی لیول پر نظر آتے تھے۔

دونوں ملکوں کے تعلقات کی تلخیوں نے دو طرفہ کرکٹ سیریز کے دروازے بند کر رکھے ہیں ایسے میں اب صرف آئی سی سی ایونٹس کا راستہ ہی کھلا رہ گیا ہے جہاں یہ روایتی کرکٹ اپنے شائقین کو جنون میں مبتلا کر دیتی ہے۔

کسی عالمی ایونٹ میں پاکستان انڈیا میچ کی کوریج کا مجھے پہلی بار موقعہ سنہ 2003 میں ملا اور جنوبی افریقہ میں سنچورین کے میدان میں قدم رکھتے ہی اس خاص موقع کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔

جس سٹینڈ کی طرف نظر دوڑائی وہاں پاکستان اور انڈیا کے سپورٹرز برابر ہی نظر آرہے تھے لیکن جب وریندر سہواگ اور سچن تندولکر نے وقار یونس اور شعیب اختر کے خلاف جارحانہ بیٹنگ شروع کی تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے گراؤنڈ میں صرف جوشیلے انڈین تماشائی ہی موجود ہیں۔

اس ورلڈ کپ میں انضمام الحق مسلسل ناکام ہو رہے تھے۔ میں نے منیجر شہریار خان سے اجازت لے کر جب انضمام الحق سے بات کرنی چاہی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر ذہنی دباؤ میں ہیں۔ انضمام الحق نے مجھے کہا ’کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں؟ مجھے تو اس وقت اپنا آپ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔‘

اظہرالدین

سنہ 2007 میں پہلی بار منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی ٹیم ایک تنازعے کی وجہ سے شہ سرخیوں میں آ گئی تھی جب شعیب اختر نے ڈریسنگ روم میں ہونے والی ایک بحث کے دوران غصے میں آکر ساتھی فاسٹ بولر محمد آصف کو بیٹ مار دیا جس کے نتیجے میں ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وطن واپس بھیج دیا تھا اور صحافیوں کو ہوٹل بلا کر محمد آصف کے انٹرویو کرائے جا رہے تھے۔

اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی اصل خوبصورتی پاکستان اور انڈیا کے دم سے ہی تھی۔ ڈربن کے گروپ میچ میں مصباح الحق رن آؤٹ ہوئے اور میچ ٹائی ہو گیا اور پھر جوہانسبرگ کے فائنل میں بھی بدقسمتی مصباح الحق کے ساتھ رہی کہ جس شاٹ کو انھوں نے وننگ شاٹ سمجھ کر کھیلا تھا وہ پاکستانی ٹیم کو جیت سے دور کر گیا۔

جوہانسبرگ کے وانڈررز سٹیڈیم کے پریس باکس میں اس وقت ماحول میں خاموشی تھی جب مصباح الحق جوگیندر شرما اور ہربھجن سنگھ کی گیندوں کو باؤنڈری کے باہر پہنچا رہے تھے۔ انڈین صحافیوں کے چہروں پر فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔ مصباح الحق کی بیٹنگ دیکھ کر وہ یہی سوچ رہے تھے کہ بازی انڈیا کے ہاتھ سے نکل گئی لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی ان سب کے چہرے چمک اٹھے تھے۔

مصباح الحق

عالمی مقابلوں کے دوران پریس باکس اور اس سے ملحقہ ایریا میں سابق کرکٹرز سے ملاقاتوں کا بھی اپنا ایک مزا ہے۔

سنیل گواسکر سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے ان کی کرکٹ سے متعلق وسیع معلومات سننے کو ملتی ہیں لیکن ان کی بذلہ سنجی کا بھی جواب نہیں۔ اکثر ہم پاکستانی صحافی دوستوں نے جاوید میانداد کا ذکر چھیڑ دیا اور سنیل گواسکر نے مسکراتے ہوئے ہمارے ارادے بھانپ لیے اور انھوں نے میانداد کی آواز نکال کر کوئی نہ کوئی چٹکلہ سنا دیا۔

یہ بھی پڑھیے

سخت گیر کپتان، ٹیم میں اختلافات اور ایک ناقابل یقین فتح

پاکستان انڈیا میچ اور ’موقع موقع‘: ’کوئی چانس نہیں بھائی، ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے‘

’کم آن جیجا جی!‘

سنیل گاوسکر

پاکستان اور انڈیا کرکٹ کوریج کے دوران صحافیوں پر کچھ زیادہ ہی دباؤ ہوتا ہے لیکن اس دباؤ سے نکلنے کا راستہ بھی وہ خود ہی نکالتے ہیں۔ میچ ختم ہونے کے بعد میڈیا باکس میں آپ کو پاکستانی صحافی شاہد ہاشمی، رفیع، کشور اور کمار سانو کے گانے گاتے نظر آئیں گے اور انڈین صحافی ہرپال سنگھ بیدی اپنے مخصوص انداز میں لطیفے سناتے ہوئے۔

پاکستان انڈیا کرکٹ دو طرفہ نہ سہی لیکن دونوں ملکوں کے صحافیوں کو قریب لانے میں ضرور کام آئی ہے۔ ان کے درمیان دوستی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور مضبوط ہوتی گئی ہے۔

سنہ 2016 میں انڈیا میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میرے صحافتی کریئر کا سب سے مشکل دورہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شہر میں داخل اور وہاں سے جاتے وقت پولیس میں رپورٹ کرنا لازمی تھا۔ تمام پاکستانی صحافیوں کو ان مراحل سے گزرنا تھا۔

بدقسمتی سے ٹریول ایجنٹ نے کولکتہ میں ایک ایسی جگہ ہوٹل بک کروا دیا جو کولکتہ کی شہری حدود سے باہر تھا۔ ایسے میں انٹری کے لیے کم ازکم تین پولیس تھانوں میں جانا پڑا جہاں جواب ملتا کہ آپ کا ہوٹل ہماری حدود میں نہیں۔ بالآخر ہوٹل تبدیل کرنا پڑا لیکن اس سے قبل ایک پولیس افسر کی فون کال بھی سننی پڑی جس نے کہا ابھی تھانے نہیں آئے تو حراست میں لیے جا سکتے ہو۔

عالمی کپ کے موقع پر کچھ ایسے دلچسپ کردار بھی ملے ہیں جن کے بغیر پاکستان انڈیا کرکٹ کے رنگ پھیکے ہیں۔

سدھیر کمار گوتم سے تقریباً ہر ورلڈ کپ میں ملاقات ہوتی ہے۔ وہ سچن تندولکر کے شیدائی ہیں اور اپنے جسم پر انڈین پرچم کے رنگ پینٹ کرتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ سائیکل پر پاکستان بھی آ چکے ہیں۔

ایک اور دلچسپ شخص بشیر بوزئی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ خود پاکستانی لیکن ان کی بیگم انڈین ہیں۔ شائقین میں بیٹھ کر وہ دلچسپ فقرے اور نعرے لگاتے رہتے ہیں مثلاً ’جس دیس میں گنگا بہتی ہے اس میں میری بیوی رہتی ہے۔‘

بشیر بوزئی کو سنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں موہالی کے سیمی فائنل کے موقع پر میچ کے ٹکٹ نہیں مل رہے تھے۔ وہ پریکٹس کے موقع پر گراؤنڈ کے باہر نعرے لگا رہے تھے کہ انڈین میڈیا نے کہا کہ آپ ’انڈیا جیتے گا‘ کے نعرے لگا دیں تو ہم آپ کو ٹکٹ دلوا دیں گے۔

بشیر بوزئی نے انکار کر دیا اور کہا کہ پاکستان جیتے گا۔ اسی دوران ان کا انٹرویو کسی ٹی وی چینل نے دکھایا۔ اگلے دن وہ سٹیڈیم کے باہر کھڑے تھے کہ ایک گارڈ نے انھیں کہا کہ آپ کو اندر بلایا جا رہا ہے۔

دھونی

وہ انھیں انڈین ڈریسنگ روم کی طرف لے گیا جہاں انھوں نے دیکھا کہ مہندر سنگھ دھونی موجود ہیں، جنھوں نے ان کا وہ انٹرویو دیکھ لیا تھا اور انھیں میچ کے ٹکٹ دے دیے۔ اس کے بعد بشیر بوزئی کو مہندر سنگھ دھونی کی طرف سے میچ دیکھنے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ ملتے رہے ہیں۔

مہندر سنگھ دھونی کا ذکر آیا ہے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ ایسے کرکٹر ہیں جن سے بات کر کے آپ خوشی محسوس کریں گے۔ ان کی پریس کانفرنس کا اپنا منفرد انداز ہوتا ہے جس میں قہقہے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں بناوٹ نہیں اور سخت سے سخت سوال پر وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتے نظر آتے ہیں۔

ایک مرتبہ انڈین ٹیم کی پریکٹس کے موقع پر ان سے بات ہوئی تو میں نے ان کے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سفیدی آ رہی ہے تو وہ مسکرا کر بولے ’انڈین ٹیم کی قیادت کوئی مذاق کی بات نہیں۔ یہ بہت بڑا پریشر ہے۔‘

سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ سے قبل انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے آئے ہوئے چند نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو پاکستانی ٹیم کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ اپنے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لائے تھے لیکن انھوں نے اسے سکیورٹی والوں سے چھپا کر رکھا اور گراؤنڈ میں لے گئے اور میچ کے دوران اس جھنڈے کو لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔

سرفراز

جب میں سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کولکتہ سے دلی جا رہا تھا تو ائیرپورٹ پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی ٹیم سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے، یہ عالمی رینکنگ کی ساتویں نمبر کی ٹیم ہے۔‘

مجھے سنہ 2003 کا ورلڈ کپ یاد آ گیا جب شہریار خان ٹیم کے مینیجر تھے۔ ُاس وقت پاکستانی ٹیم کے عالمی کپ سے باہر ہو جانے کے بعد ہم چند صحافی ان کے کمرے میں گئے تو وہ بہت مایوس نظر آرہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیم سے اس سے زیادہ کارکردگی کی اُمید نہیں تھی۔

ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کی کہانی ایک جیسی رہی ہے یعنی پچاس اوورز کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم ساتوں مرتبہ انڈیا سے ہاری ہے۔ رہی بات ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تو اس میں بھی کھیلے گئے پانچ میچوں میں سے چار میں پاکستانی ٹیم ہاری جبکہ ایک میچ برابر ہوا۔

مطلب یہ کہ پاکستانی ٹیم کے حالات طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود نہیں بدل پائے۔ مقام تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن ہر نئی شکست پاکستانیوں کو نئے زخم دیتی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments