بیروت: 1983 کا ’سب سے بڑا بم دھماکہ‘ جس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا


23 اکتوبر 1983، صبح کے وقت فوجیوں کو جگانے والے بگل کے بجنے میں ابھی آٹھ منٹ باقی تھے۔ بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں قائم امریکی فوجی اڈے میں رہنے والے 350 کے لگ بھگ مرین فوجیوں کی اکثریت ابھی سو رہی تھی۔ اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کی وجہ سے ویسے بھی زیادہ سرگرمی نہیں ہوتی۔

سارجنٹ (ر) کیوِن جیِگٹس رات کی ڈیوٹی ختم کرکے نیچے اپنے کمرے میں آئے۔ وہ جنگی یونیفارم پہنے ہوئے تھے کیونکہ ان کی بٹالین اُس کثیر الملکی امن فوج کا حصہ تھی جو لبنان میں آٹھ سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور غیر ملکی جنگجوؤں کے وہاں سے انخلا میں مدد دینے کے لیے آئی تھی۔

انھوں نے جوتے اتار کر ایک طرف رکھے، مگر وردی چینج نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حالتِ جنگ میں پتا نہیں ہوتا کب کیا ہو جائے۔

نومبر 2018 میں امریکی مرین کور کے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اُس صبح کو پیش آنے والے ہولناک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: ‘چھ بجکر 22 منٹ کے قریب مجھے عمارت کے اندر فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ میں دروازے کی طرف لپکا مگر اسے کھولا نہیں۔ میں نے سوچا کہ وہ لوگ عمارت کے اندر پہنچ گئے ہیں۔ ایک مرین ہونے کے ناتے میں سوچنے لگا کہ میں کہاں پر خود کو مورچہ بند کروں۔ مجھے پتا تھا کہ دوست کون ہے اور مارنا کسے ہے۔ میں نے چند لمحوں کے اندر اپنے دماغ میں سارا نقشہ بنا لیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی چارپائیوں پر نظر ڈالی۔ اور اپنی بندوقوں کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے چلّا کر کہا: لیڈیز، کچھ کر گزرنے کا وقت آگیا ہے! اُس کے بعد ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔’

ہوا کیا تھا؟

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق یہ دھماکہ جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں کے بعد سب سے زیادہ زور دار نان۔نیوکلیئر یعنی غیر جوہری دھماکہ تھا جس سے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر قائم امریکی مرین کور کی بیرک ‘بٹالین لینڈنگ ٹیم ہیڈکوارٹرز’ کی چار منزلہ عمارت پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی۔

سارجنٹ جیگٹس کو ہوش آیا تو کچھ لوگ انھیں ملبے کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا ایک پاؤں اور ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ انھیں ابتدائی طبی امداد کے مرکز لے جایا گیا۔ وہ روہانسے لہجے میں بتاتے ہیں: ‘مجھے پتا چل گیا تھا کہ کچھ بہت ہی برا ہوا ہے کیونکہ فضا میں ہر سو چیخ و پکار اور موت کی بو تھی۔ مجھے تین دن بعد پوری عمارت کے گرنے کا پتا چلا۔ وارڈ میں موجود ٹیلی ویژن کی سکرین پر مرنے والوں کے نام ایک ایک کر کے آ رہے تھے۔ میں اپنے جاننے والوں کے نام دیکھ کر کہے جا رہا تھا، ‘ارے یہ بھی نہیں بچا، ارے یہ بھی نہیں رہا’۔ یہ سلسلہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔’

23 اکتوبر 1983 کو ہونے والا یہ دھماکہ ایک خودکش حملہ تھا جس میں 241 امریکی فوجی مارے گئے تھے اور 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جزیرۂ اِیوو جیما پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی کے بعد یہ امریکی فوج کو پہنچنے والا سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔

جزیرۂ اِیوو جیما میں کیا ہوا تھا؟

یہ جاپانی جزیرہ ٹوکیو سے تقریباً 750 میل دور مغربی بحرالکاہل میں واقع ہے جس کا کل رقبہ آٹھ مربع میل ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کی فوجی اہمیت کی وجہ سے امریکہ نے فروری 1945 میں ‘آپریشن ڈیٹیچمنٹ’ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔

تقریباً پانچ ہفتے جاری رہنے والی اس لڑائی میں 6,800 امریکی مرین مارے گئے تھے جبکہ 19,200 زخمی ہو گئے تھے۔ دوسری جانب 18,500 سے زیادہ جاپانی فوجی بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ امریکی مرین کور کی تاریخ کی سب سے زیادہ خونریز لڑائی تھی۔

فرانسیسی فوج پر حملہ

اس روز صرف امریکی مرین ہیڈ کوارٹرز پر ہی دھماکہ نہیں ہوا تھا۔ چند منٹوں کے اندر وہاں سے تقریباً تین میل دور بیروت میں واقع فرانسیسی فوجی اڈے میں بھی ایک زوردار دھماکے میں 58 فرانسیسی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس طرح اس روز شہر میں چند لمحوں کے دوران ہونے والے دو دھماکوں میں 299 غیر ملکی فوجی مارے گئے تھے۔

1954 میں انڈو چائنا وار کے بعد یہ فرانسیسی فوج کا ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔

اگرچہ سرکاری طور پر اسے بھی خودکش حملہ قرار دیا گیا تھا مگر تین دہائیوں بعد 2013 میں فرانس کے موقر روزنامہ ‘لہ مونڈے’ نے اس کی نوعیت کے بارے میں سوالات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی۔

اس دھماکے میں بچ جانے والوں کے انٹرویوز پر مبنی رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا فرنچ فوجی بیرکوں والی ‘ڈریکر’ نامی اس 9 منزلہ انتہائی محفوظ عمارت کے احاطے میں خودکش ٹرک داخل بھی ہو سکتا تھا۔

رپورٹ میں اس سرکاری موقف پر بھی شبہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس گاڑی کے داخل ہوتے وقت اس پر فرانسیسی گارڈز نے فائرنگ بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی بیرک پر ہونے والے بم دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی کا مُڑا تُڑا ڈھانچہ مل گیا تھا مگر ڈریکر عمارت کے پاس سے ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔

تاہم فرانسیسی وزارت دفاع اس نوعیت کے اعتراضات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اپنی لڑائی میں لبنان کو استعمال نہ کریں: امریکہ

کیا مشرق وسطیٰ میں ایک نیا طوفان پنپ رہا ہے؟

اسرائیلی فوجی جس کی باقیات کے بدلے دو شامی رہا ہوئے

چار منزلہ عمارت چشم زدن میں ملبے کا ڈھیر

چک گومر اس وقت امریکی مرین کور میں لانس نائیک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کو کبھی بھلا نہیں پائیں گے: ’میں نے اپنے بنکر میں بائیں جانب بنی ہوئی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو میری نظر بٹالین ہیڈکوارٹر پر پڑی۔ میں نے مشروم (گرد و غبار کا بگولا) اٹھتے دیکھا۔ جس چیز نے مجھے حیرت زدہ کیا وہ ملبہ تھا جو اڑ کر اتنی اوپر چلا گیا تھا۔‘

ماہرین کے مطابق دھماکے کی شدت 1 لاکھ 12 ہزار پاؤنڈ کے برابر تھی جس نے لوہے اور سمینٹ کے مضبوط ستونوں پر کھڑی اس چار منزلہ عمارت کو بنیادوں سے اکھاڑ کر ہوا میں اچھال دیا تھا۔ اور پھر وہ زمین بوس ہو گئی۔ اس میں موجود تقریباً تمام ہی لوگ یا تو کچلے گئے یا پھر ملبے میں پھنس کر رہ گئے۔

اس میں استعمال ہونے والے مخصوص قسم کے دھماکہ خیز مواد کی شدت کو کمپرسڈ گیس کی مدد سے بڑھا کر ڈائنامائٹ کے تقریباً 20 ہزار پاؤنڈ کے برابر کیا گیا تھا۔

زخم جو اب تک نہیں بھرا

سارجنٹ جیگٹس کو اس واقعے کو حقیقت ماننے میں کئی برس لگ گئے، ’مجھے اس کے بارے میں بات کرنے میں تیس سال لگے۔ میں جب آرلنگٹن قبرستان کے اس حصے میں جاتا ہوں جہاں اس حملے میں مرنے والوں کی قبریں ہیں تو مجھے وہاں پر اپنے وہ ساتھی نظر آتے ہیں۔‘

گنری سارجنٹ (ر) ڈینی جوئے بھی اس روز بٹالین لینڈنگ ٹیم ہیڈکوارٹرز کے ایک بنکر میں تھے جو دھماکے میں تباہ ہو گیا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ بچ گئے تھے: ‘مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ میرے لیے اب بھی اس وقت کے بارے میں زیادہ بات کرنا مشکل ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے، مگر ایسا ہے نہیں۔’

امریکی اور فرانسیسی فوج کا لبنان میں کیا کام؟

لبنان کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی اکائیوں پر مشتمل ہے جن میں میرونائٹ کرسچین، سُنی، شیعہ اور دروز نمایاں ہیں۔ مختلف دھڑوں کے درمیان محاذ آرائی کا نتیجہ 1975 میں خانہ جنگی کی شکل میں نکلا۔

خانہ جنگی بند کرانے کی مختلف کوششوں کی ناکامی اور غیر ملکی مداخلت نے صورتحال کو پیچیدہ تر کر دیا تھا۔ بالآخر 1982 میں ایک ملٹی نیشنل فورس (کثیرالملکی فوج) ملک کے اندر امن قائم کرنے کی غرض سے بیروت میں داخل ہوئی جس میں امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور اطالوی فوجی شامل تھے۔

خودکش حملہ آور کون تھے؟

بی بی سی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق پہلا خود کش دھماکہ 26 سالہ ابو مازن جبکہ دوسرا 24 سالہ ابو سِجان نے کیا تھا۔ دونوں کا تعلق فری اسلامک ریوولوشنری موومنٹ سے بتایا گیا تھا۔ اس گروہ کے بارے میں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس گروہ کا تعلق لبنان میں شیعوں کے ایک شدت پسند دھڑے امل ملیشیا سے تھا۔

کہا جاتا ہے کہ لبنان کے شیعہ شدت پسندوں کو ایران اور شام کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔ اور بعد میں اِن ہی شدت پنسدوں نے لبنان میں حزب اللہ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے آج بھی ایران کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔

لبنان سے امریکی اور فرانسیسی افواج کا انخلا

مرین ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد صدر ریگن کی لبنان کے بارے میں پالیسی پر بہت سے اعتراض اٹھائے جانے کے باوجود حملے کے فوراً بعد امریکی صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ امریکی فوج کو لبنان سے نہیں نکالیں گے۔

مگر چند ہفتوں کے بعد ہی انھوں نے لبنان میں قیام امن کے لیے موجود کثیر الملکی مشن سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کر دیا اور 26 فروری 1984 کو امریکی مرین کا بڑا دستہ لبنان چھوڑ گیا، سوائے ان چند فوجیوں کے جو بیروت میں قائم امریکی سفارتخانے کی حفاظت پر مامور تھے۔

صدر ریگن نے دسمبر 1983 میں لبنان سے امریکی فوج کے انخلا کے بارے میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ ان کے پاس دو ہی راستے رہ گئے تھے: تمام غیر ملکی افواج کا انخلا یا لبنان کی لڑکھڑاتی حکومت کا دھڑن تختہ۔

چند روز بعد فرانس کا فوجی دستہ بھی لبنان سے نکل گیا تھا۔

امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ

اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وقت کہا تھا کہ ‘میرے پاس رنج و غم کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہیں جو ان جوانوں کے مرنے اور زخمی ہونے سے ہمیں پہنچا ہے۔ اور میرے پاس وہ الفاظ بھی نہیں ہیں جو ان جوانوں کے اہل خانہ کا دکھ کم کر سکیں۔’

تاہم 2016 میں امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا کہ امریکہ میں منجمد ایران کے تقریباً دو ارب ڈالر کے اثاثے 1983 کے بیروت بم دھماکے ہلاک ہونے والے 241 امریکی فوجیوں کے 1,300 سے زیادہ لواحقین میں تقسیم کر دیے جائیں۔

امریکی حکومت لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ، جسے ایران کی حمایت حاصل ہے، اس کارروائی کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ حزب اللہ اور ایران دونوں ہی ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments