چڑیل کا سایہ اور مائیکل کی تحقیق


بچپن میں اکثر ہم سنتے تھے کہ چڑیل کے پاؤں مڑے ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی نے مڑے ہوئے پاؤں والی چڑیل نہیں دیکھی تھی۔ جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ مڑے ہوئے ہاتھ پاؤں والی چڑیلیں صرف کہانیوں میں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں یا پھر ہارر فلموں میں خوبصورت لڑکیوں کے مڑے ہوئے پاؤں دکھا کر انھیں چڑیل کا گیٹ اپ دیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ قدیم دور میں جب کسی بچے یا بڑے کے ہاتھ یا پاؤں مڑ جاتے تو کہا جاتا کہ اس پر چڑیل کا سایہ ہے، کچھ توہم پرست اسے خدا کا قہر بتا کر دوسروں کو ڈراتے رہتے تھے لیکن کبھی بھی کسی نے یہ بات جاننے کی کوشش نہ کی کہ ایک نارمل انسان کے ہاتھ اور پاؤں اچانک کیوں مڑ گئے اور وہ کیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہو گیا؟

عرصہ دراز تک لوگ اس عجیب کیفیت کے متعلق توہم پرستی پر مبنی مختلف قیاس آرائیاں پیش کرتے رہے لیکن حتمی نتیجہ کوئی بھی اخذ نہ کر سکا۔ آخر سن 1783 ء میں ایک برطانوی طبیب ”مائیکل انڈرووڈ“ نے بچوں اور بڑوں کے ہاتھ، پاؤں مڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس کیفیت پر تحقیق کی تو اس معذوری کو چڑیل کا سایہ یا خدا کا قہر قرار دینے کی بجائے اسے ایک بیماری قرار دیا۔ اس دور میں مائیکل کی نئی تحقیق لوگوں کے لئے حیران کن تھی اس لئے کسی نے بھی اس کی تحقیق کو تسلیم نہ کیا حتیٰ کہ دیگر اطباء بھی عام لوگوں کی طرح اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ اچانک ہاتھ، پاؤں کا مڑ جانا ایک بیماری ہے لیکن حقیقت میں برطانوی طبیب مائیکل انڈرووڈ کی تحقیق بالکل صحیح تھی، اس کی بات کو چاہے اس وقت تسلیم نہ کیا گیا ہو لیکن 51 سال بعد دنیا کو ماننا ہی پڑا کہ مائیکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔

مائیکل کی تحقیق پر وقت کے ساتھ ساتھ مزید تحقیق و تجربات کا سلسلہ جاری رہا اور با الآخر سن 1840 میں آرتھوپیڈسٹ ”جیکب ہیین“ نے ہاتھ، پاؤں مڑنے کی کی اس کیفیت کو ایک بیماری کے طور پر تسلیم کر ہی لیا جس کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ کسی انسان کی اس طرح کی حالت، بھوتوں، چڑیلوں کا سایہ کہلانے کی بجائے ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے کی علامت ہے۔ اس بیماری کو پولیو کا نام دیا گیا۔

پولیو کا انگریزی نام ”Poliomyelitis“ ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق پولیو اعصاب کو کمزور کرنے والی ایک لاعلاج بیماری ہے جو بچوں میں عام ہے لیکن بالغ افراد بھی اس کا شکار بن سکتے ہیں۔ پولیو کا وائرس متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فالج ہوجاتا ہے۔ پولیو سے متاثر ہونے والے ہر 200 افراد میں سے ایک فرد ٹانگوں کے فالج میں مبتلا ہوجاتا ہے جبکہ فالج کا شکار ہونے والوں میں سے 5 سے 10 فی صد افراد کے سانس کے پٹھوں کی حرکت اس مہلک وائرس کی وجہ سے بند ہوجاتی ہے اور مریض چند لمحوں میں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اسی لئے پولیو کو ایک سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک متعدی بیماری کہا جاتا ہے۔

تاریخ میں کورونا کی طرح پولیو کی بیماری بھی بڑی جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس بیماری کی وجہ سے ایک دن میں ایک ہزار بچے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔ جب 1916 ء میں نیویارک میں پولیو کی وبا پہلی مرتبہ پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دو ہزار تین سو تینتالیس اموات ہوئیں جبکہ امریکہ میں چھ ہزار افراد پولیو کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ پولیو کے سب سے زیادہ کیسز کی تعداد سن 1988ء میں رپورٹ ہوئی جب تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد پولیو سے متاثر ہوئے۔

1916 ء سے 1951 ء تک پولیو کی وبا سے دنیا بھر میں ہلاکتیں ہوتی رہیں، اس دوران سائنس دان اور ماہرین پولیو کی ویکسین بنانے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر 1952 ء میں ڈاکٹر ”جوناس سالک“ نے پولیو کی پہلی موثر ویکسین بنالی۔ لوگوں میں ویکسینیشن کا عمل شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسین میں مزید بہتری کے لئے تحقیق کا عمل بھی جاری رکھا گیا۔ 1961 ء میں البرٹ سبین نے پولیو ویکسین میں جدت پیدا کرتے ہوئے زیادہ آسانی سے دی جانے والی ویکسین OPV تیار کی۔

یہ ویکسین مائع شکل میں بنائی گئی تھی جس کے چند قطرے پینے سے بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ 1962 ء سے لے کر اب تک پولیو کی ویکسین کی باآسانی دستیابی کے باوجود اس بیماری کا ابھی تک دنیا سے مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوسکا۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اب یہ بیماری دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کو پولیو فری زون بنانے اور اپنے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لئے والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، انھیں چاہیے کہ پولیو سے بچاؤ کی مہم کے دوران اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلوائیں تاکہ روشن اور صحت مند پاکستان کی بنیادوں کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments