آپ جب گاؤں کو چھوڑتے ہیں


کیا آپ کو پتا ہے جب آپ اپنا گاؤں چھوڑتے ہیں تو کیا کیا چھوڑتے ہیں؟

آپ گاؤں کو چھوڑتے ہیں، گاؤں میں رہنے والوں کو چھوڑتے ہیں۔ بس یادوں کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ آپ گاؤں کی زندگی چھوڑ دیتے ہیں جہاں پر لوگ بڑے دل والے اور محبتی رہتے ہیں جو فوائد دیکھے بنا مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ آپ سبھی کو چھوڑ جاتے ہیں اور ہر کسی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نئے گھر کی خوشی میں کچھ ہی ہفتوں میں شاید کچھ ہی دنوں میں گاؤں کو بھول جاتے ہیں۔ گاؤں کی حسین شاموں کو چھوڑتے ہیں، بارشوں کے نظاروں کو چھوڑتے ہیں۔

عید اور دیوالی پر جلتے چراغ سے روشن ہونے والے گاؤں کو چھوڑتے۔ ترقی کی راہ پر نکل کر گاؤں کو چھوڑ کر جاتے ہیں۔ اپنے پیچھے عزیز دل دوست اور محبتی لوگ چھوڑ کر یادیں ساتھ میں لے کر جاتے ہیں۔ آپ ان سبھی کو چھوڑ کر اپنے نئے گھر میں ہوں گے، وہاں پر زندگی کی سبھی آسائشیں فراہم ہوگی لیکن گاؤں والی زندگی نہیں ہوگی۔ جہاں پر ہر انسان دوسرے انسان کی بنا معاوضے مدد کرنے پر تیار رہتا ہے۔

آپ اس گھر کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ جہاں پر آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ دکھ سکھ کو دیکھا ہے، جہاں پر آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامے اور فلمیں دیکھتے تھے، جہاں آپ کی ماں اور دادی دھوپ سینکا کرتی تھیں۔ اس گھر کو چھوڑتے ہیں جو کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا، جس کی بنیاد آپ کے باپ دادا نے اپنے ہاتھوں سے رکھی ہوتی ہے۔ آپ صحن کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ نے پہلی بار چلنا شروع کیا تھا، جہاں پر بارشوں میں نہاتے تھے۔

اور بارش پڑتے ہی مٹی کی خوشبو ہوا میں اڑتی پھرتی تھی اور اس مٹی کی خوشبو کو چھوڑتے ہے۔ آپ وہ باورچی خانے کو چھوڑتے ہیں جو نعمت خانہ ہوتا تھا، اور جہاں پر آپ سردیوں میں بیٹھ کر ہاتھ سینکتے تھے۔ آپ گھر کی چھت کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ پتنگ اڑانے کے بعد گالیاں کھاتے تھے اور رات کو چھت پر سوتے تھے۔ ان کمروں کو چھوڑتے ہیں جو گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے تھے اور سردیوں میں گرم۔ جہاں پر نہ تو ائر کنڈیشنر کی ضرورت ہوتی تھی نہ ہی ہیٹر کی۔

آپ ان سیڑھیوں کو چھوڑتے ہیں جس میں دیواریں اسٹیل کے بجائے اینٹوں کی بنی ہوتی ہے اور اس پر ہاتھوں کے نشاں مٹانے کے لیے ہر سال چونا کراتے ہیں۔ آپ ان گلیوں کو چھوڑتے ہیں جو پتلی ہوا کرتی تھی جس میں آپ اپنے دوستوں کے ساتھ دوڑتے پھرتے تھے، اور سائیکل چلانا سیکھتے ہیں، اس گلی میں بیٹھ کر اپنے باپ کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کھلونے لے کر آئیں گے۔ آپ روشن دان چھوڑتے ہیں جہاں سے صبح کی پہلی کرن جھانکا کرتی تھی اور پنچھی اپنا گھونسلہ بناتے تھے۔

آپ اس بیٹھک کو چھوڑتے ہیں جس پر آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے اور آپ ان ہوٹلوں کو چھوڑتے ہیں جس پر آپ اپنے دوستوں کے ساتھ رات کا وقت گزارتے تھے۔ آپ چارپائیوں پر سونا چھوڑتے ہیں جو شدید گرمیوں میں بھی گرم نہیں ہوتی تھیں۔ آپ کھلے تلے سونا چھوڑتے ہیں جہاں آپ چارپائی پر لیٹ کر ستاروں کو گنتے تھے اور ستاروں کی روشنی میں لیٹ کر سکون حاصل کرتے تھے۔ آپ ان راتوں کو چھوڑتے ہیں جس میں آپ کی دادی اور نانی آپ کو کہانیاں سناتی تھیں۔

آپ ان میدانوں کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ نے پتنگ بازی کی اور جہاں پر آپ نے کرکٹ کھیلتے تھے، اور آپ نے اس میدان میں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنا بچپن گزارا تھا اور کھیلنے کے بعد امی کے ہاتھوں مار کھاتے تھے۔ آپ اس ڈھول والے کو چھوڑتے ہیں جو آپ کو رمضان میں سحری کے وقت ڈھول کی آواز سے جگانے میں مدد کرتا تھا۔ آپ ان پرندوں کو چھوڑتے ہیں جن کا دانہ اور پانی آپ کے یہاں ہوتا تھا اور ہر صبح پنچھیوں کی میٹھی آوازوں سے گھر گونج اٹھتا تھا۔

آپ ان دوستوں کو چھوڑتے ہیں جن کے ساتھ آپ پورے محلے میں گھومتے پھرتے ہیں، چھتوں پر اچھلتے کودتے ہیں اور درختوں پر چڑھتے ہیں۔ آپ پیچھے بھینسوں کا تبیلا چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ دودھ لینے کے لیے جاتے ہیں اور بھینسوں سے ڈر کر دور کھڑے رہ کر دودھ خریدتے ہیں۔ آپ وہ پودے اور درخت چھوڑتے ہیں جن کو آپ کے بھائیوں نے بڑے پیار سے لگایا تھا اور ہر روز پانی دیتے تھے۔ اب وہ نئے مالک کی مدنظر ہوتے ہیں اور ایک دن ان کو بڑی بے رحمی سے جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکا جائے گا۔

آپ ان بازاروں کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ عید کی خریداری اپنے بڑوں کے ساتھ مل کر کرتے تھے اور عید کے روز اپنے کزنز کے ساتھ اس بازار کے بلب پھوڑتے تھے۔ آپ باغ اور کھیتوں کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ اپنے کزنز کے ساتھ مل کر کچے آم توڑنے جاتے تھے اور باغبان ڈنڈا لے کر آپ کے پیچھے دوڑتا تھا۔ آپ ٹیوب ویل چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ اپنے دوستوں، بھائیوں اور کزنز کے ساتھ نہانے جایا کرتے تھے، اور وہ حسین لمحات ہوتے تھے جب آپ پانی میں غوطہ لگا کر سانس کا دم چیک کرتے تھے اور جو کامیاب ہوتا تھا اس کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ رہتی تھی۔

آپ اس عید گاہ کو چھوڑتے ہیں جہاں پر آپ اپنے باپ دادا، نانا اور ماموں لوگ کے ساتھ نماز پڑھنے جاتے تھے اور اکثر اوقات نماز کے دوران ایک چھوٹی بات پر سبھی ہنس پڑتے تھے اور نماز قضا ہوجاتی تھی اور سارا دن سب کو نماز قضا ہونے کا قصہ سناتے پھرتے تھے۔ آپ اس گاؤں کو چھوڑتے ہیں جہاں پر سب رشتے دار شادیوں میں ایک جگہ اکٹھے ہوتے تھے۔ مرد، عورتیں، چھوٹے بچے، نوجوان اور بوڑھے سبھی ساتھ اکٹھا ہوتے تھے۔ ہنسی مذاق، ناراضگی اور جھگڑے بھی ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی مشکلات میں ساتھ دیتے تھے۔

آپ گاؤں کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہاں رہنے والوں کو چھوڑتے ہیں۔ اور اپنے ساتھ یادوں کو لے کر جاتے ہیں۔
آخر میں اشفاق حسن کی غزل کے ساتھ تحریر کا اختتام کروں گا

گاؤں میں جتنے دن گزارے تھے
پھول تھے خواب تھے ستارے تھے
صبح کے دوپہر کے شاموں کے
سارے موسم بہت ہی پیارے تھے
ہر گلی میں چراغ جلتے تھے
ہر قدم پر نئے اشارے تھے
کچھ تمنا کی سبز جھیلیں تھیں
کچھ محبت کے استعارے تھے
ہم اسی راستے پہ چلتے رہے
خواب جس راستے پہ ہارے تھے
جو ترے ساتھ سیر میں گزرے
وہی دو چار دن ہمارے تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments