منوبھائی (مرحوم) کے جگنو اور اللہ میاں کا ریفرنس


دنیا میں خوراک اور تعلیم ایسی عیاشیاں ہیں جو رفتہ رفتہ عوام کے لیے کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ اپنے بچوں کو پڑھا نہیں پاتے یا خوراک فراہم نہیں کر پاتے اور پھر یا تو ان بچوں کو ساتھ لے کر خود کشیاں کرتے ہیں یا پھر ضمیر کو مردہ کر کے نشے پے لگ جاتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار کہانیاں آپ روز سنتے ہیں لیکن اس کے جواب میں ہر کوئی مختلف عمل کرتا ہے۔ کچھ اسے ایک عام روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، کچھ جذباتی ہو کر کسی ادارے کو چندہ فراہم کر دیتے ہیں اور کچھ ایک آدھ بچے کو تعلیم کی سہولیات فراہم کر کے سکون پاتے ہیں۔ مگر لوگوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کچھ خاص ہوتے ہیں اور اپنے کام اور دھن کے پکے نکلتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں اور شاید دوسروں کی نجات کا بھی باعث بنتے رہتے ہیں۔

اسی خاص قسم کی ایک شخصیت فرح دیبا بھی ہے۔ میں ذاتی طور پر نہ ان کو اور نہ ہی ان کے ادارے کو جانتا ہوں، اس بلاگ کی وجہ نزول، استادوں کے استاد محترم منو بھائی (االلہ ان کے درجات بلند کرے ) بنے ہیں۔ میں ان کے پرانے کالم پڑھ رہا تھا تو ایک کالم ’ایک نکی جئی کڑی‘ کے نام سے ملا تو اس شخصیت اور اس ادارے (عالم بی بی ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ) کا تعارف ہوا۔ کچھ ریسرچ میں نے کی اور کچھ اپنے کالم۔ ’گریبان‘ میں منو بھائی مرحوم نے تفصیل سے ادارے کا تعارف اور فرح دیبا کے بارے میں بیان کیا ہوا ہے۔ میرا یہ بلاگ ان کے کالم کے آگے کچھ بھی نہیں لیکن عالم بی بی ٹرسٹ کے حوالے سے میں انسانی نفسیات کے ایک اور پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ منو بھائی جیسی شخصیت اگر کسی انسان کے بارے میں کوئی مثبت بات کر چکی ہے تو ان کے چاہنے والوں کے لیے بعینہ وہی بات ایک خاص درجہ رکھتی ہے۔

میں پہلے عرض کر چکا ہوں کے کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں اور ان میں عزم و ہمت کا خاص مادہ ہوتا ہے جو ان کے ایک مقصد پے پختگی سے قائم رہنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ فرح دیبا (جیسا کے ان کی acheivements بتاتی ہیں ) اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا عالم بی بی ٹرسٹ اپنی مثال آپ ہے۔ 2005 سے شروع کیا جانے والا سفر کئی بار اس نہج پر بھی پہنچا کہ شاید جاری نہ رہ سکتا لیکن روشنی کا سفر چلتا رہا۔ جہاں تک میرا علم ہے یہ ٹرسٹ بغیر کسی سرکاری امداد کے چل رہا ہے (اگر میں غلط ہوں تو براہ کرم تصحیح فرما دیں ) ۔ کیسے چل رہا ہے اس میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایسے کاموں کے لیے سر پھرے انسان تو ہوتے ہی ہیں ان کے پیچھے جو پراسرار طاقت مدد کر رہی ہوتی ہے وہ خدائے وحدہ لاشریک کی ہوتی ہے۔

غربت کی لکیر سے نیچے کے لوگوں کی منتیں کر کے ان کے بچوں کو پڑھانے کے لیے ایک خاص سوچ چاہیے۔ ان علاقوں میں سروے کر کے دیکھا گیا ہے (جیسے کہ منو بھائی مرحوم کا کالم بتا رہا ہے ) ، کہ ایسے غریب لوگوں کے بچے اس ٹرسٹ میں پڑھتے ہیں جن کے پاس کھانے کو تو رہا ایک طرف یہ بھی آسرا نہیں کہ ان کے سر پر کوئی باپ نام کی شے بھی ہے یا وہ بھی چھوڑ کر جا چکی ہے۔ یہاں پر (االلہ کے بعد ) ماں کا عظیم رشتہ ہی ان کے کام آتا ہے جو کبھی اپنی اولاد کو نہیں چھوڑتی اور یا پھر ماؤں جیسی شخصیات جو غیر کے بچوں کو بھی اپنے بچوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں اور ان کے تعلیم، تربیت، قابلیت اور پھر روزگار تک کے بارے میں نہ صرف سوچتے رہتے ہیں بلکہ عملاً اس پر کام بھی کرتے ہیں۔

اس ادارے اور اس کے منتظمین کے بارے میں میری معلومات بھلے سیکنڈ ہینڈ ہی ہوں گی لیکن سات سو سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینا، کھانے پینے کو پوچھنا، تربیت کرنا، بچیوں کے لیے سلائی کڑھائی کی تربیت فراہم کر کے ان کو پاؤں پے کھڑا کرنا، یہ سب نہ تو ایک دن کا کام ہے اور نہ ہی اس کو لے کر چلنا ہے۔ اور ایک خاص بات جو کالم سے پتہ چلتی ہے کہ یہاں ’االلہ میاں کا ریفرنس۔‘ بہت مانا جاتا ہے، جو عورتیں اپنے بچے اور بچیوں کو تعلیم دلوانے آتی ہیں ان کے پاس کوئی ریفرینس ہو یا نہ ہو اللہ میاں کا ریفرینس ضرور ہوتا ہے۔ ہاں جب فرح دیبا کئی سرکاری اداروں میں ٹرسٹ کی مدد کی درخواست لے کر گئیں تو ان کو یہ ضرور کہا گیا کہ کیا ’آپ کے پاس کسی بڑے صاحب کا ریفرنس ہے‘ ؟ اب فرح دیبا جیسے لوگ تو ٹھہرے منو بھائی کے جگنو اور ان کے پاس تو صرف اللہ میاں کا ریفرینس ہی ہوتا ہے۔

آخری بات میں ’خواب نگر کے پرائم منسٹر‘ سے کرنا چاہتا ہوں جو مدینہ کی ریاست کے نہ صرف خواب دیکھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر اس کا ذکر بھی فرماتے ہیں، بہت اچھی بات ہے حقیقت کیا ہے یہ منو بھائی (مرحوم) بیان فرما گئے ہیں کہ نیکی کے کام کے لیے بھی کسی بڑے صاحب کا ریفرینس چاہیے جبکہ عرش و فرش کا ایک ہی بڑا مالک ہے جس کے ریفرنس سے عالم بی بی ٹرسٹ میں ہر کسی کو داخلہ بھی مل جاتا ہے، عزت کی پڑھائی اور کھانے کو بھی کچھ مل جاتا ہے۔

تو جناب جس سسٹم کو ٹھیک کرنے کا راگ الاپتے ہوئے آپ ایوانوں تک پہنچے ہیں وہ تو تین سال بعد بھی بڑے صاحب کا ریفرینس مانگ رہا ہے شاید مدینے کی ریاست کا یا تو آپ کو ٹھیک سے پتہ نہیں یا پھر اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ ملتے ہیں نظریات دماغ میں کچھ ہوتے ہیں جبکہ منہ سے کچھ اور ہی ارشادات نکل رہے ہوتے ہیں۔ (عالم بی بی ٹرسٹ سے آپ اس ویب سائٹ پر ڈائرکٹ رابطہ کر سکتے ہیں (www.alambibitrust.org)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments