پاکستان میں ڈینگی کے بڑھتے کیسز: کیا کورونا وائرس پر زیادہ توجہ ڈینگی کے پھیلاؤ کا باعث بنی؟


ڈینگی
’اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی کے تقریباً 1300 سے زیادہ مریض زیر علاج ہیں‘
’ڈینگی کا سیزن شروع ہوتے ہی میں نے باقاعدگی سے اس بات کا خیال رکھا کہ گھر کے کسی کونے میں کہیں پانی جمع نہ ہو، ہر طرح کی احتیاطی تدبیر کی لیکن اس کے باوجود بھی میں ڈینگی کا شکار ہو گیا۔‘

’پہلے دو دن تو تیز بخار میں مبتلا رہا۔ اس کے بعد میرے پلیٹلیٹس گرنا شرع ہو گئے۔ ادویات کا استعمال تو پہلے ہی کر رہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی نے مشورہ دیا کہ پپیتے کے پتوں کا جوس پیوں۔۔۔ پانچ چھ دن بعد میرے پلیٹلٹس مستحکم ہو گئے۔ یہ تو جانتا ہوں کہ بہتری ڈاکٹر سے مکمل علاج کروانے سے آئی لیکن یہ نہیں جانتا کہ کیا پپیتے کے پتے کا جوس فائدہ مند تھا یا نہیں۔‘

’سچ پوچھیں تو کورونا اور ڈینگی کے بعد اب تو مجھے سموگ کا انتظار ہے کیونکہ اگر تو آنے والے دنوں میں وہ بھی آ جاتی ہے تو میرا اللہ ہی حافظ ہے۔‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈینگی کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے تاہم حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور کے ایکسپو سینٹر کو ڈینگی کے لیے فیلڈ ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

لاہور کے رہائشی علی حمزہ نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج سے تین ماہ پہلے وہ اور ان کے گھر کے بیشتر افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں ’جب سے کورونا شروع ہوا تو ہم نے اچھی خاصی احتیاط کی لیکن ہمارے گھر کا ایک شخص کورونا وائرس سے متاثر ہو گیا۔ جس کے بعد گھر کے دیگر افراد بھی اس وائرس کی زد میں آ گئے۔‘

’مجھے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد والی تکلیف اب بھی یاد ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے جسم میں جان ہی نہیں۔ اس خطرناک وائرس نے میرے جسم کے ہر عضو کو کمزور بنا دیا تھا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی میں اس کمزوری کو محسوس کر سکتا ہوں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ابھی اس کمزوری سے ہی نہیں نکل پایا تھا کہ ڈینگی کا شکار ہو گیا۔ بخار کی شدت، تکلیف اور مزید کمزوری نے مجھے بستر سے ہی لگا دیا۔ جب کورونا وائرس آیا تو سب نے کہا احتیاط کرو۔ میں نے خود اتنی احتیاط کی لیکن اس کے باوجود بھی میں اس وائرس کا شکار ہو گیا۔‘

ڈینگی

’مجھے شکوہ حکومت وقت ہے‘

علی حمزہ کہتے ہیں کہ جب کورونا وائرس پاکستان آیا تو معلوم تھا کہ یہ نئی بیماری ہے اور دنیا بھر کے لیے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہے لیکن ڈینگی کو کنٹرول کرنے اور اس سے لڑنے کا آزمودہ طریقہ کار سابقہ حکومت نے دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے کہ پہلے ڈینگی ٹیمیں بار بار آیا کرتی تھیں اور سپرے کیے جاتے تھے لیکن اس بار میرے گھر کوئی ٹیم تو کیا آگاہی مہم کے لیے بھی کوئی نہیں آیا۔ ہم تو بھول چکے تھے ڈینگی کو، یہ تو اس وقت دوبارہ یاد آیا جب کیسز رپورٹ ہوئے۔‘

علی حمزہ کے مطابق ’پچھلے دور حکومت نے ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 90 روپے مقرر کی تھی۔ اب جب میں ٹیسٹ کروانے گیا تو لیب والے نے کہا کہ 750 روپے دینے ہوں گے۔ اگر 90 روپے میں ٹیسٹ کروانا ہے تو ڈاکٹر سے لکھوا کر لاؤ کہ تمھیں ڈینگی ٹیسٹ کی ضرورت ہے۔‘

’اگر آپ اپنے ٹیسٹ میں زیادہ تفصیل چاہتے ہیں تو وہ ٹیسٹ 2900 روپے کا ہے۔ اگر پلیٹلیٹس لگوانے ہیں تو کراس میچ سمیت دیگر ٹیسٹوں پر اٹھنے والا خرچہ لگ بھگ 31 ہزار کا ہے۔ یہی نہیں اس کے لیے بھی تقریباً سو افراد ہم سے پہلے لائن میں کھڑے ہیں۔ ایسے حالات میں عام شہری حکومت وقت سے شکوہ نہ کرے تو کیا کرے۔‘

ڈینگی سپرے

ڈینگی کیسز میں اضافہ کیوں ہوا؟

حکومت وقت سے شکوہ صرف علی حمزہ کو ہی نہیں بلکہ اکثر لوگوں کو ہے کہ ڈینگی ٹیموں کی جانب سے اس طرح کا کوئی کام سامنے نہیں آیا جیسا پچھلی حکومت کی جانب سے کیا جاتا تھا۔

تاہم اس کے برعکس کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پچھلے سال تو نہیں لیکن اس سال ڈینگی کی ٹیمز فیلڈ میں کام کرتی دکھائی دیں ہیں۔

اس معاملے کی مزید تصدیق کے لیے بی بی سی کی ٹیم کی جانب سے معلومات کے لیے متعدد مقامات کا دورہ کیا۔

جیسے مارکیٹ میں موجود مختلف ٹائر شاپس، جہاں یہ ٹیمز سب سے زیادہ وزٹ کرتی ہیں تاکہ ہاٹ سپاٹس پر کڑی نظر رکھ سکیں۔

لاہور کی ایک ٹائروں کی مارکیٹ میں بیٹھنے والے دکاندار محمد حفیظ نے بتایا کہ ہماری دکان مین روڈ پر واقعہ ہے اور آج کل ڈینگی ٹیمیں باقاعدگی سے دورہ کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ڈینگی سے کیسے بچیں اور ہو جائے تو کیا کریں؟

پاکستان میں ڈینگی پر پہلے کیسے قابو پایا گیا؟

ڈینگی کے خاتمے کے لیے مچھر کو بانجھ بنانے کا تجربہ

’چیکنگ کے بعد ہمیں تلقین بھی کی جاتی ہے کہ ٹائروں کو خشک رکھا جائے اور کہیں پانی نہ جمع ہونے دیا جائے۔‘

تاہم جب ہم نے تنگ گلیوں اور چھوٹے علاقوں میں موجود دکانداروں سے گفتگو کی تو ان کا تجربہ اس سے مختلف تھا۔

سلیم اجمل کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ٹیم بمشکل ایک مرتبہ ہی وزٹ کے لیے آئی ہو گی۔ اس سے پہلے تو بلکل نہیں آئی پورا سال اور نہ ہی کوئی سپرے کیا گیا۔‘

ڈینگی

تو کیا انتظامیہ کی غلطی کے باعث ڈینگی کو نہ روکا جا سکا؟ یہ سوال ہم نے ڈاکٹر وسیم اکرم سے کیا جو ماہر حیاتیات ہیں اور حکومت پنجاب کی جانب سے بنائی گئی کیبنٹ کمیٹی برائے ڈینگی کنٹرول کے رکن ہیں۔

ان کے مطابق اس سال ڈینگی کے پھلاؤ کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ یا حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

وہ کہتے ہیں ’سنہ 2020 اور 2021 میں پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث ڈینگی کی مہم میں کمی آئی۔ جس کی وجہ سے لاروا پیدا ہوا اور اسے ختم نہیں کیا جا سکا اور اب وہ مچھر میں تبدیل ہو گیا۔‘

’دیکھا جائے تو ڈینگی کی سخت مانیٹرنگ کے لیے انسانی وسائل درکار ہوتے ہیں جو انھیں کورونا کا مقابلہ کرنے لیے ایک بڑی تعداد میں چاہیے تھے۔ یہی نہیں آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پولیو کی جنگ کو بھی جاری رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس کے باوجود بھی ٹیمیں فیلڈ میں کام کرنے جاتی رہی ہیں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ انسانی لاپرواہی بھی کئی علاقوں میں ہوئی ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہاں یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ لوگوں نے کورونا کے خوف کی وجہ سے ڈینگی ٹیموں کو گھروں میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس دفعہ کی ڈینگی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ ڈینگی چھوٹے علاقوں کے بجائے شہروں کے پوش علاقوں سے شروع ہوا۔‘

’بڑے بڑے گھروں میں ہر کونا ہر وقت صاف اور خشک رکھنا زیادہ مشکل یے۔ بڑے بڑے فوارے اور خوبصورتی کے لیے رکھے گئے گملوں میں پانی پوری طرح خشک نہیں جاتا جس کی وجہ سے لاروا پیدا ہوا۔‘

ڈینگی

’جہاں تک بات سپرے نہ کرنے کی ہے تو ہم اب بھی ہر طرف سپرے نہیں کر رہے۔ اگر کسی گھر سے لاروا برآمد ہوتا ہے اور اس کے ارد گرد کے 50 گھروں میں سپرے کیا جاتا ہے۔‘

’اس کی بنیادی وجہ یہ کہ اس سپرے اور مچھر مار دھواں میں انتہائی مضر صحت کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جو انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ جب ہم نے پچھلے دور میں یہ سپرے اور دھواں زیادہ مقدار کیا تھا تو جگنو اور تتلیاں تک لاہور شہر سے غائب ہو گئی تھیں۔‘

’پاکستان میں ڈینگی ایک مخصوص پیٹرن پر سامنے آتا ہے‘

ڈاکٹر وسیم کے مطابق ڈینگی کے خاتمے کے لیے آج بھی وہی پالیسی اور سسٹم چل رہا ہے جو گذشتہ دور حکومت میں تھا اور یہ انتہائی اچھا اور مفید سسٹم ہے۔ تاہم کورونا کے باعث اس پر مناسب انداز میں عمل درآمد نہیں ہو پایا۔

’یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دینا کے باقی چند ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ڈینگی ایک مخصوص پیٹرن پر سر اٹھاتا ہے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ہر تین یا چار سال بعد یہ بیماری اتنی بڑھتی ہے کہ اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سنگاپور میں بھی اس مچھر کی ایک قسم ایسی ہے جو وہاں دو سال بعد متحرک ہو جاتا ہے۔‘

’اس مچھر کے لاروا کی پیداوار کا سال بھر میں دو مرتبہ سیزن ہوتا ہے۔ جو زیادہ تر برسات کے موسم میں جنم لیتا ہے۔ اس لیے ان دنوں میں انھیں ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘

کیا آنے والے دنوں میں ڈینگی کے کیسز میں کمی آئے گی؟

ڈاکٹر وسیم کے مطابق اگر یہ کہا جائے کہ آنے والے چند دن میں ڈینگی کنٹرول ہو جائے گا تو یہ ممکن نہیں۔

’لاروا مچھر بن چکا ہے اس لیے یہ طریقے سے ختم ہو گا۔ ہاں اگر سردی پڑنا شروع ہو گئی تو اس سے بھی فرق پڑے گا۔ ابھی لوگ صرف زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں۔ پورے بازوؤں والی قمیض پہنیں، ماحول کو صاف اور خشک رکھیں۔ کوڑے کے ڈرم کو ڈھانپ کر رکھیں تاکہ اس بیماری سے بچ سکیں۔‘

محکمہ صحت کے مطابق اس وقت پنجاب بھر میں تقریباً ساڑھے سات ہزار سے زیادہ ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں سب سے زیادہ کیسز لاہور شہر میں پائے جاتے ہیں۔

اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں تقریبا 1300 سے زائد مریض زیر علاج ہیں جبکہ 25 سے زائد افراد کی ڈینگی کے باعث موت واقع ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments