اجیرن زندگی


عاشر کورونا کا شکار ہوکر آئی سی یو میں داخل تھا۔ مصنوعی تنفس کی مشین اور الا بلا نلکیوں میں جکڑا ہوا بے بس عاشر ہرگز اس عاشر جیسا نہیں دکھتا تھا جو خود کو فرعون سمجھتا تھا جس نے فرناز کی زندگی جھنم سے زیادہ اذیت ناک بنا رکھی تھی۔ عاشر کی والدہ سیاہ عبایے میں لپٹی، انتظار گاہ کی بنچ پر بیٹھی مسلسل تسبیح پڑھے جارہی تھیں اور اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا کر رہی تھیں۔ لیکن انہوں نے فرناز کی سلامتی کے لیے نہ کبھی دعا کی نہ دوا۔ جب عاشر جنونی وحشی کی طرح فرناز کو بالوں سے پکڑ کے فرش پر گھسیٹتا اور اس کا سر دیوار سے بھنبھوڑتا تو فریسہ بیگم اسے میاں بیوی کا آپس کا معاملہ قرار دے کر تماشہ دیکھتی رہتیں یا حسب توفیق جلتی پر تیل چھڑک دیا کرتیں۔ جب عاشر مار پیٹ کر فرناز کو گھر سے باہر دھکیل دیکر دروازہ بند کردیتا اور فرناز فریاد کرتی تو وہ کانوں میں سیسہ ڈال کر بیٹھی رہتیں تاہم جب عاشر خود ہی اسے گھسیٹ کر واپس گھر میں لے آتا تو فریسہ بیگم میٹھے لہجے میں گھر کی بات گھر میں رکھنے کا سبق پڑھاتیی۔
عاشر شروع سے ہی جنونی تھا۔ بچپن میں چھوٹی بہنوں کو بری طرح پیٹتا، محلے میں دنگا کرکے آجاتا۔ جوان ہوا تو اپنی کزن فرناز کو اپنے تئیں جاگیر سمجھ لیا۔ قسمت کا حال بتانے والے طوطے سے ایک بار فال نکلوائی۔ شامت اعمال طوطے نے جو لفافہ چونچ میں دبایا اس میں لکھا تھا لڑکی نصیب میں نہیں۔ قضا ہی آگئ اس معصوم بے زبان کی کہ فرعون صفت نے گردن ہی مروڑ دی۔ طوطے کی گردن مروڑ کر وہ سمجھا تھا گویا کاتب تقدیر سے قلم چھین کر اپنے نام کے ساتھ فرناز کا نام لکھ ڈالا ہے۔ لیکن شومئی قسمت جب فرناز کے لئے اس کا رشتہ بھیجا گیا تو فرناز کے والدین نے انکار کردیا ان کے کانوں تک بھی اس کی شدت پسندی کی داستانیں پہنچ گئی تھیں۔ عاشر کہاں انکار کی تاب لاتا ہمارے معاشرے میں یوں بھی لڑکے کو انکار سہنے کی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ جیسے زر زمین کی طرح کوئی ملکیت ہو۔ جانے یہ محبت تھی یا ملکیت کے حق سے انکار کا طیش عاشر کو بے چین کئے رکھتا وہ راتوں کو گھر سے باہر رہنے لگا۔ وہ کہاں جاتا ہے کیا کرتا ہے کن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، ماں باپ نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بس وہ جو کہانی سناتا من و عن اس پر یقین کرلیتے۔ پھر ایک دن اچانک وہ بیرون ملک چلا گیا چار سال بعد باہر کی ڈگری لے کر لوٹا تو دوبارہ رشتہ بھیجا گیا۔ والدین کی طرف سے یقین دہانی کرائ گئی کہ اب وہ میچور ہوگیا ہے دھیما پن اور ٹھہراؤ آگیا ہے۔ چند ملاقاتوں میں فرناز کے گھر والوں کو بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملا۔ بالاخر انہوں نے ہاں کردی۔
شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فرناز کو اندازہ ہوا کہ اس نے انگارے نگل لئے ہیں۔ عاشر بیک وقت محبت اور نفرت کا دعوے دار تھا اور دونوں میں سے کب کس کی شدت بڑھ جاتی ہے یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہ تھا۔ بات بے بات جاہل، بے وقوف، دو ٹکے کی کہہ کر پندار کو کچلنے سے ابتدا ہوئی پھر اس کی شخصی آزادی پر قدغن لگائی گئی وہ کس سے ملے کس سے نہ ملے اس کا فیصلہ حاکم کے ہاتھ میں تھا۔ اور پھر ایک دن حد پار ہوگئ۔ معمولی بات پر تھپڑوں اور لاتوں سے لہو لہان کرکے جو خون منہ کو لگا تو نشہ بڑھتا ہی گیا۔ کھال ادھیڑتے، ہڈیاں توڑتے ہوئے عاشر کو یہ خیال بھی نہ رہتا کہ وہ حاملہ ہے یا زچہ۔ بس اتنا ضرور ہوتا کہ نشہ اترنے کے بعد معافی مانگ لیتا، زخموں پر دوا لگادیتا۔ اس ساری صورتحال میں کوئی فرناز کا مددگار نہیں تھا۔ عاشر کی ماں جنہوں نے بیاہتے وقت ذمہ داری لی تھی کہ وہ فرناز کا تحفظ کریں گی، بس اسے پچکارتیں اور کہتیں “دیکھو نا تم بھی تو اسے غصہ نہ دلایا کرو۔ گھر بسانا عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایسی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں اپنے گھر والوں کو نہ بتانا۔ “
فرناز نے اپنے گھر میں تو ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا یا شاید انہیں ایسا اس لئے لگتا تھا کہ وہ خود بھی اپنے شوہر سے اسی طرح پٹا کرتی تھیں۔ عاشر کی بہن مذہبی لبادے میں بی جمالو تھیں۔ نقاب اور عبایے میں دین کا درس دیتیں۔ شادی بیاہ کی مخلوط محفل میں کچھ کھائے پئے بنا اٹھ آتیں کہ کھانے کے لئے نقاب ہٹانا پڑتا، بے پردگی ہوتی۔ لیکن اس کڑی تپسیا نے بھی پاپی من کی سیاہی کو نہ دھویا تھا۔ قطامہ عاشر کو خوب انگیخت کرتیں۔ ایک بار فرناز نے ہمت کی تھی اور پلٹ کر اسے تھپڑ مارا تھا لیکن یہ ایک بھیانک غلطی تھی زخمی بھیڑیے کی طرح وہ اس پر پل پڑا تھا۔ بھلا جسمانی طاقت میں اس کا کیا مقابلہ تھا۔ فرناز یونہی ظلم سہتی اور چھپاتی رہتی لیکن ایک دن معاملہ کھل گیا۔ فرناز کی بھاوج آئی ہوئی تھی۔ عاشر غصے میں بھرا ہوا گھر میں داخل ہوا اور لاونج میں ہی اس پر تھپڑوں مکوں اور لاتوں کی بوچھاڑ کردی وہ مغلظات بکتا جارہا تھا اور کہتا جارہا تھا اسکے منع کرنے کے باوجود فون پر منزہ سے کیوں بات کی۔ وہ اس بےدردی سے اسے مار رہا تھا کہ بھاوج خوفزدہ ہوگئی کہ کہیں مار ہی نہ ڈالے اس نے اپنے میاں کو فون کردیا۔
اب بات کھل گئی تھی اور گھر والے فرناز کو اس وحشی کے پاس واپس بھیجنے کو تیار نہیں تھے۔ نہ جانے کیا ہوا کہ فرناز نے خود فیصلہ سنادیا کہ وہ اپنے گھر واپس جائے گی۔ عاشر نے معافی مانگ لی ہے۔ بہن نے سمجھایا کہ یہ اس طرح کے جنونی نفسیاتی مریضوں کا حربہ ہوتا ہے کہ پہلے تو ماریں ییٹیں پھر معافی مانگ لیں۔ اس کے ساتھ جانا زندگی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ وہ بہن کو کیا بتاتی ایسا ہی ہوتا رہا ہے لیکن اسے بچے چھین لینے کی دھمکی دی گئی تھی وہ یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اس عقوبت خانے میں لوٹ گئی۔ یہ طاقتور اور کمزور کی جنگ تھی اس جنگ میں وہ کمزور تھی اور ایک مرد اور دو عورتیں قوی تھے۔ ہتھیار اسے ہی ڈالنے تھے اب جو بھی ہو اسے سہنا تھا کیونکہ کشتیاں تو خود ہی جلائی تھیں۔
ان دنوں ہر طرف کورونا کی وبا پھیلی گئی تھی۔ کچھ اسے عالمی سازش قرار دے کر ہنسی میں اڑا دیتے تھے۔ کچھ اس پر یقین تو کرتے مگر احتیاطی تدابیر اختیار کر نے میں تردد کرتے۔ عاشر بھی کورونا کو افواہ سمجھنے والے لوگوں میں سے تھا اس لئے جب اسے بخار ہوا تو نہ اسپتال گیا نہ کورونا کا ٹیسٹ کرایا۔ دو گولی ڈسپرین کھا کر کام پر چلا گیا۔ لیکن ایک دو دن میں جسم کا درد اسقدر شدید ہوگیا کہ گھر پر ٹھہرنا ہی پڑا۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنا اب بھی در خود اعتنا نہ سمجھا۔ خود ہی اپنے ٹوٹکے آزماتا رہا حالانکہ اب سانس میں کھنچاؤ سا بھی محسوس ہونے لگا تھا۔
اس دن عاشر کی ماں اپنی بیٹی کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ فرناز نے کھانے کی ٹرے بستر پر لاکر رکھی تو عاشر نے کہا کھانے کو طبیعت مائل نہیں، بعد میں کھالے گا۔ اس نے فرناز سے کہا کہ وہ جاکر سودا سلف لے آئے۔ فرناز اسے تنہا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن عاشر نے کہا اسوقت بخار اترا ہوا ہے وہ بچوں کو دیکھ لے گا اس لئے وہ ہو ائے۔ فرناز چلی گئی۔ بازار میں اسے توقع سے زیادہ وقت لگ گیا۔ ٹریفک جام کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا پڑ گیا۔ دروازہ بچوں نے کھولا۔ سودا کاؤنٹر پر رکھ کر وہ جیسے ہی مڑی عاشر باورچی خانے کے دروازے پر کھڑا اسے شعلہ بار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اگے بڑھ کر اس نے چھری اٹھائی اور فرناز کے گلے پر رکھ کر دہاڑا۔
“کہاں تھی اتنی دیر، کس یار سے مل کر آرہی ہے”
“آپ ہی نے تو سودا لینے بھیجا تھا”چھری کے دباؤ تلے بمشکل اس کی آواز نکل سکی۔
“تجھے پتہ نہیں تھا میں نے کھانا نہیں کھایا ہے پھر بھی اتنی دیر لگائی”
“کھانا رکھا تو تھا آپ کھا لیتے “وہ کسی طرح چھری اس کے ہاتھ سے لیکر پھینکتے ہوئے بولی۔
اس جملے نے عاشر کی جانے کونسی رگ دبادی کہ وہ بیلٹ اتار کر کوڑے برسانے لگا لیکن تھوڑی سی دیر میں سانس اکھڑنے لگی اور وہ کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ لیکن غضب کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی ہتھیار بدل کر اس نے حملہ کیا
“میں تجھے طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق”۔
فرناز سناٹے میں کھڑی تھی مشروط طلاق کی سولی پر تو اکثر لٹکایا کرتا تھا کہ اگر فلاں کام کیا تو طلاق، بہن سے بات کی تو طلاق، لیکن یوں صاف اور واضح لفظوں میں اس سے پہلے طلاق کا لفظ ادا نہیں کیا تھا۔ اب اس گھر میں رہنا جائز نہیں تھا وہ اپنا پرس اٹھانے کےلئے کمرے کی طرف بڑھی مگر عاشر نے اسے دھکیل کر بیرونی دروازے سے باہر کیا اور دروازہ مقفل کردیا۔ سوا سال کا احمد حلق پھاڑ کر رونے لگا سات سالہ اریج کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا بھائی کو سنبھالے یا خود کو کیونکہ اسے خود بھی تو رونا آرہا تھا۔
فرناز کچھ دیر اندھیرے میں دہلیز پر بیٹھی احمد کے رونے کی آواز سنتی رہی جب وہ چپ ہوگیا تو اس نے رکشہ روکا اور میکے کا پتہ بتادیا۔
_________________
فرناز بستر پر لیٹی گھومتے ہوئے چھت کے پنکھے پر نظریں جمائے لیٹی تھی۔ بھابی نے کوئ سوال نہیں کیا تھا سمجھ گئی تھیں کہ عاشر نے پھر ہاتھ اٹھایا ہوگا لیکن جو بات ان کے سان گمان میں نہیں تھی وہ یہ کہ اس بار طلاق دے کر اس نے قصہ ہی ختم کردیا ہے۔
“,تو آپ اب طلاق یافتہ ہوگئیں۔ کلنک کا ٹیکہ لگ گیا آپ کو “فرناز نے خود کلامی کی
“ہاں! مرحومہ ہونے سے تو بہتر ہے طلاق یافتہ کا ٹائٹل”اس کے اندر سوئی ہوئی ترقی پسند عورت انگڑائی لے کر بولی
کتنا عجیب ہے یہ میاں بیوی کا رشتہ بھی۔ جب بنتا ہے تو ایک جہان آباد کردیتا ہے کتنے نئے رشتے وجود میں آجاتے ہیں اور طلاق کے لفظ کے ساتھ ہی پل کے پل میں سب کالعدم۔ ایک زہریلا لفظ کتنے کڑوے رشتوں کا تریاق بن گیا تھا اب نہ کوئی ساس تھی نہ نند۔ اب وہ کسی کی چچی اور ممانی بھی نہیں تھی لیکن ایک رشتہ اس تلوار کی دھار نہ کاٹ سکی تھی وہ اب بھی ماں تھی احمد اور اریج کی ماں۔ احمد اور اریج کا خیال آتے ہی اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ پتہ نہیں بچے کس حال میں ہونگے۔ کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں۔ بچوں سے بات کرنے کے لئے اس نے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی بجتی رہی کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی رات کے دو بج رہے تھے۔
سپیدہ سحر نمودار ہوا اور موذن نے نئے دن کی خبر دی تو اس نے بارگاہ ایزدی میں جھک کر اپنے اور بچوں کے لئے سلامتی اور ہمت کی دعا مانگی۔ جانے رات بھر کی تھکن تھی یا دعا کا سکون، اسے نیند اگئی
____________
بھابی اسے بے طرح جھنجھوڑ رہی تھیں وہ بوکھلا کر اٹھی
“عاشر آئی سی یو میں ہے”انہوں نے بغیر کسی تمہید کے خبر سنائی
وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے انہیں یک ٹک تکے گئی رات کو تو قوای کے اضمحلال کے کوئی آثار نہیں تھے رات تک تو وہ فرعون کی طرح طاقتور تھا۔
بھابی نے بتایا عاشر کی ماں آج جب بیٹی کے گھر سے لوٹیں تو اسے بے ہوش پڑا پایا آنہوں نے اس کے بہن بھائیوں کو فون کیا ایمبولینس بلا کر ہاسپٹل لے گئے۔ ڈائیریکٹ آئ سی یو میں داخل کیا ہے۔
“بچے کہاں ہیں “فرناز نے بس ایک سوال کیا
“تمہارے بھائی لینے گئے ہیں” انہوں نے کہا۔
عاشر کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو تھا۔ اس کے پھیپھڑے آکسیجن کی ضروری مقدار فراہم کرنے سے قاصر تھے اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس کی ناک، گلے اور مثانے میں نلکیاں ڈال دی گئ تھیں وہ معذور، محتاج، بے کس اور طفیلی کی طرح پڑا ہوا تھا۔ کاش ایک رات پہلے کسی کشف، کسی جادو کسی جنتر منتر کے ذریعے یہ منظر اسے دکھادیا جاتا تو شاید یہ بصیرت اسے حاصل ہوجاتی کہ وہ خدا نہیں خدا کا ادنیٰ سا بندہ ہے۔ مجازی خدا کا رتبہ اسے عورت پر لطف و کرم کرنے کےلئے عطا کیا گیا ہے جبر و قہر کے لئے نہیں۔ افسوس تو یہ تھا کہ فریسہ بیگم خود ایک جبار و قہار شوہر کے ظلم و ستم کا بدلہ اپنی ہی جنس کی ہستی سے لے رہی تھیں۔ جانے کیوں انہیں اپنی جلا دوسری عورت کی فنا میں نظر آتی تھی۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جس پر تکیہ ہے وہ تو خود ایک برگ فانی ہے تیز ہوا کا جھکڑ چلا کہ پات ڈال سے جدا۔ نہ دعا کام آسکے گی نہ دوا۔ موت اور زندگی کی کشمکش میں روح قبض کرنے والے کا پلہ بھاری ہوا اور عاشر کا فسانہ زندگی تمام ہوا۔
بھابی فرناز کو لے کر گھر پہنچیں تو جنازہ تیار تھا۔ اس کی ماں اور بہنیں بین کر رہی تھیں۔ فرناز خاموشی سے ڈولی کے سرہانے بیٹھ گئی وہ کفن میں لپٹے چہرے کو دیکھے جارہی تھی اس کی آنکھیں خشک تھیں۔ کسی خاتون نے کہا
“ارے یہ سکتے میں ہے اسے رلاؤ”
کوئی اسےلپٹا کر پیار کر رہا تھا کوئی سر پر ہاتھ رکھ رہا تھا کوئ دلاسہ دے رہا تھا ان سب کے انداز میں ہمدردی تھی۔ اللہ نے فرناز کی عزت رکھ لی تھی۔ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت قابل تعزیر و حقارت ہے لیکن بیوہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ہمدردی کی مستحق ہوتی ہے۔ وہ ایک بیوہ کی طرح بھبھک کے رودی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments