قصہ تحریک اور محرک کا


سنی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے خادم حسین رضوی لاہور میں محکمہ اوقاف پنجاب کے زیرِ انتظام چلنے والی ایک مسجد میں خطیب تھے۔ انہیں ناپسندیدہ بیانات کی وجہ سے سرکاری نوکری سے نکال دیا گیا تو وہ درس نظامی کے ایک مدرسے سے منسلک ہو گئے۔
وہ اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پہلی دفعہ منظر عام پر تب آئے جب ممتاز قادری کی پھانسی پر انہوں نے لاہور میں ایک بڑا مجمع ترتیب دے کر داتا دربار سے پنجاب اسمبلی اور گورنر ہاؤس کی طرف ایک جلوس نکالا۔ ٹانگوں سے معذوری کے باوجود وہ خود کو ختمِ نبوت کے خود ساختہ محافظ کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
داتا دربار لاہور میں نماز جمعہ کے اجتماع کو وہ چند دوسری سنی بریلوی جماعتوں کی حمایت سے ایک بڑے احتجاجی جلوس میں بدلنے میں کامیاب رہے۔ یہ جلوس گاڑیوں پر لدے لاوڈ اسپیکروں سے ممیز تھا جن پر مذہبی جوش وجذبے سے نعتیں پڑھی اور جذباتی تقریریں کی جا رہی تھیں۔ لاہور کی انتظامیہ دم سادھے بیٹھی رہی جبکہ یہ جلوس ناصر باغ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، سنٹرل پولیس آفس، جی پی او، لاہور ہائیکورٹ اور مال روڈ جیسے اہم مقامات سے گزرتا رہا۔ جلوس کے شرکا، حکومت، عدلیہ اور فوج پہ بھڑک رہے تھے کہ کیوں انہوں نے ایک مجاہد ختم نبوت ممتاز حسین قادری، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے محافظ دستے کے رکن جنہوں نے توہینِ ختم نبوت کے شبے میں گورنر کو 27 گولیاں مار کر انہیں قتل کر دیا تھا، کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔
یہ غیر معروف خادم رضوی کا پہلا عوامی تعارف تھا۔ انہوں نے ختم نبوت جیسے حساس معاملے پر عوام کے جذبات برانگیختہ کر کے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ مذہب کو کیوں ذاتی حد تک محدود رہنا چاہیے۔ حساس مذہبی معاملات پر ان کی جذباتیت نے لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا اور عام طور پر منشتر سنی بریلوی گروہ ختمِ نبوت پر متحد نظر آنے لگے۔
اس کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے۔ روایتی طور پر دیوبندی یا سلفی مکتبہ فکر کے لوگ زیادہ کٹر اور متحرک رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاسی سطح پر دیوبندی اہلحدیث حضرات ہی نامور رہے ہیں۔ ماضی قریب میں پہلی دفعہ متبادل بریلوی طاقت بھی منظرعام پر آنا شروع ہوئی۔
جہاد میں اپنے متحرک کردار کی وجہ سے فوجی انتظامیہ کا بھی زیادہ رجحان دیوبندی اہلحدیث دھڑوں کی جانب ہی رہا ہے اور بالعموم سواد اعظم اہلسنت کی نمائندگی انہی کے پاس رہی ہے۔ بدلتے ہوئے علاقائی و بین الاقوامی حالات کے تناظر میں انتظامیہ بھی متبادل کی تلاش میں تھی چنانچہ خادم رضوی کی ختمِ نبوت تحریک کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
لیکن جلد ہی خادم رضوی کی مقبولیت پرتشدد رجحان اختیار کرنے والی تھی۔ خادم رضوی طاقت حاصل کر رہے تھے اور طاقت اپنا اظہار چاہتی ہے۔ ناصرف یہ بلکہ وہ انتظامی حلقوں کی نظر میں بھی آ رہے تھے چنانچہ 2017 کی سردیوں میں انہیں تجرباتی بنیادوں پر لانچ کرنے کا سوچا گیا۔
وفاق اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی جو خود کو منتحب وزیراعظم سمجھنے لگے تھے جس کے نتیجے میں وزیراعظم کے دفتر اور جی ایچ کیو میں تناؤ بڑھ رہا تھا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ نواز ہمیشہ سے ہی دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتی تھی اور پنجاب کے مذہبی سنی ووٹ سے فائدہ اٹھاتی آئی تھی۔ مسلم لیگ نواز کا وسطی و جنوبی پنجاب کے انتہاپسند مذہبی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اشتراک کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔
فوج اور نواز شریف کی منتحب حکومت کے درمیان کھنچاؤ کی وجہ سے مذہبی حلقے درمیان میں جھول رہے تھے۔ ایک طرف وہ اپنے دیرینہ سیاسی رفیق کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے جبکہ دوسری طرف وہ پاکستان کی واحد حقیقی طاقت کی ناپسندیدگی کا خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ ایسے میں وہ اس تنازعے کے اونٹ کی کروٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
2017 کی گرمیوں کے آخیر تک فوج اور نواز شریف تقریباً آمنے سامنے آ گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور پریس کانفرسوں اور ٹوئٹر پر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ ایک انتہائی متنازعہ ٹوئیٹ میں جنرل غفور نے ایک حکومتی اعلان کے لیے ریجیکٹ کا لفظ تک استعمال کر ڈالا۔ بعد میں زبردست تنقید کے باعث انہیں اس ٹوئیٹ کو واپس لینا پڑا مگر اب وہ حکومت کو سبق سکھانے اور اصل طاقت کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکے تھے چنانچہ الیکشن قوانین میں ایک ترمیم کا بہانہ بنا کر ختم نبوت کا مسئلہ دوبارہ زندہ کیا گیا۔ لامحالہ طور پر یہ موقع ایک تیر سے کئی شکار کرنے والا تھا۔
ایک طرف نواز شریف کا جمہوری وزیراعظم ہونے کا نشہ اتارا جانا تھا تو دوسری طرف نودریافت شدہ اثاثے کے کس بل کی آزمائش مقصود تھی۔ تیسری طرف روایتی مذہبی اتحادیوں کو واضح ہو جاتا کہ ایک نیا مقابل بھی اکھاڑے میں کود آیا ہے اور چوتھی طرف مغربی طاقتوں کو پیغام جاتا کہ جہادی تنظیمیں ہی ہمارا واحد ہتھیار نہیں ہیں اور یہ کہ جمہوری حکومتیں ہمارے ہی رحم و کرم پہ قائم ہیں۔
الیکشن ترامیم کو واپس لینے اور وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ لے کر خادم رضوی کی قیادت میں ایک لانگ مارچ لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے بعد کے واقعات پراسرار ہیں۔ کیسے ایک غیر معروف سرکاری ملازم صوبائی دارالحکومت میں ایک مجمعے کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا؟ کیسے اس مجمعے نے مسلم لیگ نواز کے قریب سمجھے جانے سنی بریلوی رہنماؤں کی حمایت حاصل کی اور حکومت اس سے بےخبر رہی؟
 کیسے یہ احتجاجی جلوس لاہور میں کینال روڈ اور رنگ روڈ پر مظاہرے کرتا رہا اور صوبائی انتظامیہ حرکت میں نہیں آئی؟ کیسے یہ احتجاجی جلوس واضح مطالبات کے ساتھ حکومتی رٹ کو چیلنج کرتا ہوا شہر در شہر بڑھتا ہوا پورے پنجاب کا سفر طے کر کے وفاقی دارالحکومت تک پہنچ گیا اور راستے میں کہیں بھی اسے روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی؟
یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اس مجمعے کو بڑھنے دیا اور اسے وفاقی دارالحکومت تک پہنچنے دیا تاکہ یہ جا کر دارالحکومت کو یرغمال بنا لے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ کہیں اور سے احکامات وصول کر کے ان پر عملدرآمد کر رہی تھی۔ یہ جلوس راولپنڈی میں فیض آباد انٹرچینج پر جا کر دھرنے میں تبدیل ہو گیا کیونکہ اب یہ طاقت کے اصل مرکز کے پاس پہنچ گیا تھا۔
وہاں پہ پولیس کے ساتھ چند دکھاوے کی جھڑپوں کے بعد ابلتے جذبات والا یہ جلوس پر امن پڑاؤ میں بدل گیا۔ غیب سے جلوس کے شرکا کے لیے کھانا اور دیگر سہولیات نازل ہونے لگیں۔ جلوس نے تب تک پڑاؤ جاری رکھا جب تک جمہوری حکومت نے گھٹنے نہیں ٹیک دیے۔ ایک غیر منتحب مذہبی جماعت کی جانب سے ایک وفاقی وزیر کے استعفیٰ لیے جانے کا یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ وفاقی حکومت کی کمزوری عیاں ہو چکی تھی اور نئے اثاثے نے اپنی وقعت ثابت کر دی تھی۔
تمام مقاصد پورے ہو جانے کے بعد جلوس کے شرکاء میں بالکل ویسے ہی نقد رقم کے لفافے بانٹے گئے جیسے حال ہی میں طالبان نے اپنے خودکش حملہ آوروں کے خاندانوں کو کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں بلا کر انعامات سے نوازا ہے۔ رقم کے یہ لفافے ایک باوردی فوجی افسر کی جانب سے بانٹے جانا اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ اصل طاقت کون ہے اور کس کی فرمانبرداری لازم ہے۔
اس سارے وقوعے کے دوران مقتدرہ نے اپنا سارا وزن مظاہرین کے پلڑے میں ڈالے رکھا۔ آرمی چیف نے کہا کہ مظاہرین کے ساتھ معاملات افہام و تفہیم اور پرامن طریقے سے کیے جائیں۔ دوسری طرف جنرل غفور نے بیان دیا کہ ختمِ نبوت کے لیے جان بھی قربان ہے اور ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی شعور سے بےبہرہ کچھ سیاستدانوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ شیخ رشید کے جذباتی بیانات آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی دھرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
حالیہ سالوں میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ بریلوی مسلک نے اپنی طاقت دکھائی تھی۔ ویسے بھی پاکستانی انتظامیہ خود کو سلفی دیوبندی گروہوں سے دور کر رہی تھی کیونکہ ان کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات ثابت ہو رہے تھے۔ تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش سے ان کے تعلقات منظر عام پر آ رہے تھے۔
لیکن قانون سے بالاتر طاقت کے حصول کے سنگین نقصانات ہوتے ہیں جو یہاں بھی ہوئے کہ ایسی طاقت بےمحابا ہونا چاہتی ہے چنانچہ یہاں بھی طاقت کے مظاہرے یکے بعد دیگرے دیکھنے میں آئے۔ 2017 میں وفاقی حکومت کو جھکانے کے بعد 2018 میں آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے بینچ کے قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ 2019 میں توہینِ رسالت پر کئی افراد کے قتل کے بعد 2020 میں ایک دفعہ پھر تحریک لبیک اور حکومت آمنے سامنے تھے۔ 2020 میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ لے کر خادم حسین رضوی ایک دفعہ پھر راولپنڈی اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔
اب کی بار میدان، مدعی اور بنیاد وہی تھے مگر مدعا علیہم پرانے رفیق تھے۔ اب کی بار گھمسان تحریک انصاف کی حکومت سے تھا جو 2017 کے دھرنے میں تحریک لبیک کی حمایتی تھی۔ اپنی گود میں پالے ہوئے دوست مخالف بن کر سامنے کھڑے تھے۔ حالانکہ مقتدرہ کی حمایت یافتہ تحریکِ انصاف اور خود فوج کو احساس ہو جانا چاہیے تھا کہ گھر کے تیار کئے ہوئے اثاثے کیسے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں مگر پاکستانی انتظامیہ کی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی روایت خراب ہے چاہے وہ 1949 کی قرارداد مقاصد ہو، 1971 کا سانحہ ہو یا طالبان، چنانچہ انتظامیہ نے کئی بار کی دھرائی ہوئی غلطی ایک بار پھر دھرائی اور خادم رضوی سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی مہلت طلب کی۔
اس سے پہلے فروری 2019 میں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جسٹس عیسیٰ کے لکھے 43 صفحات اور 56 پیروں کے فیض آباد دھرنے پر لیے گئے از خود نوٹس کے فیصلے میں ان فوجی افسروں، جنہوں نے اپنے حلف اور آئینی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیض آباد دھرنے میں سہولت کاری کی تھی، پر تنقید کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی تھی۔ اپنے فیصلے کے پیرا نمبر 53 کی شق 15 میں سپریم کورٹ نے ان فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا جنہوں نے دھرنے میں تعاون کرتے ہوئے اپنا حلف توڑا تھا کہ سرکاری ملازم کسی سیاسی کارروائی میں حصہ نہیں لے سکتا۔
حالانکہ حکومت اور بین الاقوامی تعلقات کی معمولی سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنا ناممکن تھا لیکن پھر بھی انتظامیہ نے مذہبی حلقے کی خوشنودی کے لیے ان کے سامنے جھکنا مناسب سمجھا جس سے انہیں اپنے مطالبات پہ مزید سختی سے جمے رہنے کی تحریک ملی۔ حکومت کی چار مہینے کی مہلت جلد ہی ختم ہو گئی اور تحریک لبیک ایک دفعہ پھر سڑکوں پر تھی۔ اب کی بار انتظامیہ پہلے سے تیار تھی جس نے تحریک کے نئے امیر سعد رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
اس کے بعد اپریل 2021 سے لے کر اکتوبر 2021 تک حکومتی قلابازیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ حکومت انہیں کالعدم قرار دیتی ہے مگر ان کے انتخاب لڑنے پر پابندی نہیں لگاتی کیونکہ الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی لسٹ نہیں کیا تھا۔ صوبائی حکومت ایک طرف سعد رضوی کی رہائی کے احکامات دیتی ہے تو دوسری طرف انہیں رہا بھی نہیں کرتی۔ یہ بلی چوہے کا کھیل اقتدار کی غلام گردشوں کا جانا پہچانا کھیل ہے۔
اس سب میں ایک پہلو جنرل باجوہ کو احمدی قرار دینے کی پروپیگنڈا مہم کا بھی ہے۔ دوسری طرف جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا چیف برقرار رکھنے کی کوشش بھی ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہر دو فریق تیل دیکھنے اور تیل کی دھار دیکھنے میں لگے ہیں۔ یہ انتظار کی جنگ جیتنے کی کوشش ہے۔ عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں اس مہرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ حکومت موجودہ مارچ کو روک بھی رہی ہے اور نہیں بھی روک رہی۔
اگر آپ کو تاش کا یہ کھیل پیچیدہ لگتا ہو تو آپ گجرات کے قریب جی ٹی روڈ کے بیچوں بیچ 12 فٹ گہری اور 12 فٹ چوڑی خندق پر پکنک منانے آ سکتے ہیں جو حالیہ ایام میں حکومت نے مارچ کا راستہ کھوٹا کرنے کے لیے کھودی ہے۔ ہاں یاد آیا، کل ہی کراچی کا ایک معصوم ٹیکسی ڈرائیور 19 سال گوانتاناموبے میں قید رہنے کے بعد چھوٹا ہے جسے 2002 میں پاکستانی فوج نے شناخت کی غلطی کی بنیاد پر 5000 ڈالر کے عوض امریکہ کو بیچ دیا تھا۔
حالانکہ متعلقہ حکام کو اس ڈرائیور کی گرفتاری کے دوسرے روز ہی اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تھا مگر پھر بھی اسے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا جہاں اس پر بلیک سائٹس پر تشدد ہوتا رہا۔ وہ ڈرائیور اپنے اغوا کے چند مہینے بعد پیدا ہونے والے اپنے 19 سالہ بیٹے  سے پہلی دفعہ ملے گا تو شاید مسجد نبوی میں نوافل اور کعبہ میں طواف کرتے ان عسکری اہل کاروں کے نور سے اس کی آنکھیں چندھیا جائیں جو مذہبی میدان پر اپنی ذاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments