اور سنچری ہو گئی۔۔۔


لوگ پوچھ رہے ہیں پیغام بھیجوا رہے ہیں کہ کیا ہوا۔۔؟ ننانوے پر رک گیں؟ ایک ہی تو باقی ہے سو پورے ہونے میں۔ ایک زور دار شاٹ لگائیں اور باونڈری پر چوکا چھکا ماریں، لیکن باونڈری مارنے میں کیچ آوٹ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ چوکا چھکا مارنے کے بجائے ایک سنگل رن بنا لیں؟ لیکن اس میں بھی رن آوٹ کا ڈر ہے۔ بات یہ ہے کہ لکھنے پر دل نہیں آمادہ۔ اور یہ کرکٹ کی ٹرمنولوجی، اس سے تو چڑ ہو گئی ہے۔

لکھیں تو کیا لکھیں؟ کس پر لکھیں؟ جھوٹی موٹی باتیں لکھ کر کس کو خوش کر سکتے ہیں؟ سچ لکھیں تو پھر وہی قدغن، وہی بندشیں، وارننگز ملتی ہیں ۔ پوسٹ ہٹانے کو کہا جاتا ہے کبھی خود سے ہی ہٹا دی جاتی ہے۔ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ دل کانپ رہا ہے۔ دھڑکا سا لگا ہے۔ کہیں کچھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ ایسے میں کوئی کیا کرے اور کیا کہے؟ کس کو سنائے؟

ایسا لگتا ہے کہ میری تخلیقی صلاحیت (اگر کوئی تھی) کوئی چرا لے گیا ہے۔ کسی نے سوچ پر پہرے لگا دیئے۔ کوئی میرا یاتھ بار بار روک رہا ہے۔ اس قدر بے کیفی ہے کہ دل کہیں ٹکتا ہی نہیں۔

کس پر لکھیں؟ کابل کے ہوٹل میں چائے کی پیالی پر؟ فوجی یونیفارم سے شلوار قمیض کی تبدیلی پر؟ وہ جو ایبسولیوٹلی ناٹ کہہ کر اب کسی خفیہ معاہدہ پر آمادہ ہیں اس پر؟ وہ قافلہ جو لاہور سے ہوتا اب پھر اسلام اباد میں جمع ہونے جا رہا ہے اس پر؟ اس بار شاید فیض بھی کچھ زیادہ ہو۔۔۔ ہزار روپے کا ریٹ اب ابسولیوٹلی ناٹ۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ فیض بھی بڑھایئے۔ یا اس کالم پر لکھیں جس میں کچھ استعارے تھے جو آپ اپنے پر لے گئے۔ لکھنے والوں کو لکھنے کی اجازت نہیں، صحافیوں پر بندشیں ہیں لیکن مظاہرے کرنے والوں کا جمہوری حق ہے کہ وہ شہر کے شہر بند کر دیں۔ اتنے منافق ماحول میں کوئی کیسے کچھ کہے۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ بھکاری ملک اور پھر دہشتگرد بھی۔ عزت کون کرے گا ہماری؟ ملک اتنے بڑے بحران میں گھرا چھوڑ کر وزیر داخلہ کو کرکٹ میچ دیکھنا ہے۔ وزیراعظم کوعین وقت پر سعودی عرب یاد آجاتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو جھولی میں ڈال ہی دیا جائے گا۔ اور وہ یوں واپس لوٹیں گے گویا ایک اور ورلڈ کپ جیت کر لے آئے ہیں۔ اس پر لکھیں؟ ویسے وہاں جانے کی ایک اور وجہ بھی بتائی جا رہی ہے لیکن اس پر تو بالکل بھی نہیں لکھنا۔ یا اس پر لکھیں کہ نوٹیفیکیشن اب تک کیوں جاری نہیں ہوا؟  یا اپنے عالی تعلیم یافتہ گورنر اسٹیٹ بنک کے بیان پر کچھ لکھ ماریں؟ ٹی وی ڈراموں پر نئی پابندیاں لگنے پر لکھیں؟ اب مزاحیہ شوز بھی نہیں ہوں گے اس پر؟ نہیں بھئی، کوئی فائدہ نہیں۔ کس کس کو رویں کس کس بات پر سر پیٹیں۔

لکھنے والوں سے عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اندر کی کہانی بیان کریں گے۔ کچھ گتھیاں سلجھائیں گے۔ سوالوں کے جواب مہیا کریں گے۔ کچھ سوال تو ہمارے بھی ہیں۔ ہم بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ بھائی آپ نے کبھی کوئی کام کیا ہے؟ میرا مطلب ہے کوئی جاب کی ہے؟ تنخواہ وصول کی ہے؟ گھر چلایا ہے؟ بچوں کے اسکولوں کی فیسیں ادا کی ہیں؟ لائن میں لگ کر بجلی گیس کے بل جمع کروائے ہیں؟ تپتی راتوں میں جب بجلی جاتی ہے تو ہاتھ کے پنکھے سے بچوں کو بہلایا ہے؟ کبھی بس میں سفر کیا ہے؟ رکشہ میں بیٹھے ہیں؟ جب کبھی کوئی اضافی خرچا نکل آئے تو بجٹ فیل ہوجائے تو مہینے کا آخری ہفتہ کیسے گذارا ہے؟ آپ کو ان باتوں کا کچھ علم نہیں۔ آپ سے پہلے والوں کو بھی یہ سب نہیں معلوم تو پھر آپ اس عوام کے نمائندے کیسے ہو سکتے ہیں؟

ایسا لگتا ہے کسی کو بھی اس ملک کی فکر نہیں ہے۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ ادھر پاکستانی گرینز نے انڈیا سے میچ جیتا، ادھر “ہم سب” پر میری تحریروں کی بھی سنچری ہو گئی۔ چلیئے آج تو میچ جیتنے پر خوشیاں منایئے۔ کل کی کل دیکھی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments