’نا بالغ’ شوہر نے اپنی بیوی کو فروخت کر ڈالا


گائل فوٹو
اڈیشہ میں لڑکیوں کی سمگلِنگ ایک بڑا مسئلہ ہے
انڈین ریاست اڈیشہ سے تعلق رکھنے والے ایک نابالغ شوہر نے اپنی بیوی کو ریاست راجستھان میں فروخت کر دیا۔ لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے رپورٹ درج کرنے کے بعد مقامی پولیس نے شوہر کو گرفتار کر کے بچوں کے اصلاحی گھر بھیج دیا اور لڑکی کو راجستھان سے برآمد کر لیا گیا۔

اب یہ لڑکی اس وقت اپنے والدین کے ساتھ ضلع بالنگیر کے ٹکراپاڑا گاؤں میں ہے۔

دھوکے کا شکار ہونے والی لڑکی نے فون پر بی بی سی کو بتایا ‘شادی کے آٹھ دن بعد وہ مجھے یہ کہتے ہوئے راجستھان لے گیا کہ وہ وہاں اینٹوں کے بھٹے میں کام کرے گی۔ تقریباً دو ماہ کے بعد ایک دن وہ مجھے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ اگلے دن مجھے معلوم ہوا کہ اس نے مجھے ایک لاکھ روپے میں فروخت کردیا ہے۔ خریدار نے مجھ سے گھر اور کھیت میں کام کرایا۔ پھر بالنگیر پولیس کی ایک ٹیم وہاں پہنچی اور مجھے گھر واپس لے آئی۔’

جب لڑکی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ شادی کرینگی تو انھوں نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ فی الحال میں اپنے والدین کے گھر رہوں گی’۔

تاہم لڑکی نے واضح کیا کہ خریدار نے انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا۔ بیل پاڑہ پولیس سٹیشن، جہاں کیس درج کیا گیا تھا’ اس کے انچارج بولو منڈا کا کہنا ہے کہ لڑکی کو ایک ادھیڑ عمر شخص نے خریدا تھا اور اگلے چند دنوں میں وہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔

بولو منڈا کا کہنا تھا’جب ہماری ٹیم مقامی باران تھانے کے اہلکاروں کی مدد سے واپس آرہی تھی تو گاؤں والوں نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ لڑکی کو لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اسے ایک لاکھ اسی ہزار روپے میں خریدا گیا ہے’۔

’جسم فروشی کے لیے بچیوں کو جوان کرنے کے لیے ہارمونز‘

لاہور سے لاپتہ ہونے والی چار بچیاں ’جسم فروشوں کے ہتھے چڑھنے سے بچ گئیں‘

’روہنگیا خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیا جا رہا ہے‘

پولیس لڑکی تک کیسے پہنچی؟

بیل پاڑہ پولیس سٹیشن کے انچارج بولو منڈا نے کہا ‘ہماری ٹیم نے مقامی پولیس کی مدد سے انھیں تھانے جانے اور بات کرنے پر راضی کیا۔ ہمارے افسران لڑکی کو وہاں سے پچھلے راستے سے لے گئے۔

منڈا نے کہا کہ وہاں خواتین بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں جن کی تجارت یا سمگلِنگ بہت عام ہے۔

بالنگیر کے ایس پی نتن کشالکر نے کہا کہ پولیس کے لیے راجستھان میں لڑکی کو تلاش کرنا بہت مشکل کام تھا۔

انھوں نے کہا ‘لڑکی کے پاس پہنچنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس کے پاس موبائل فون نہیں تھا۔ ہم نے لڑکی کے گھر والوں سے اس کی تصویر لی اور باران پولیس کی مدد سے اس کا سراغ لگایا۔’

انھوں نے بتایا کہ راجستھان پولیس نے اس شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس نے لڑکی کو خریدا تھا۔

سٹیشن انچارج نے بتایا کہ نابالغ شوہر نے پہلے پولیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی اسے چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ جب پوچھا گیا کہ انھوں نے مقامی پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی تو انھوں نے کہا کہ میں خوفزدہ تھا۔

منڈا نے کہا ‘آخر کار جب ہم نے اسے حراست میں لیا اور سختی سے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بیوی کو بیچ دیا ہے’۔

شوہر نابالغ، بیوی بالغ

لڑکی کے شوہر کی عمر پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ لڑکی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کا شوہر بالغ ہے اور اس کی عمر 24 سال ہے۔ لیکن مقامی پولیس اور شوہر کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی عمر صرف 17 سال ہے۔

بیل پاڑہ پولیس سٹیشن انچارج نے کہا کہ ہم نے اس کے سکول سرٹیفکیٹ اور آدھار کارڈ چیک کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی عمر 17 سال ہے اور وہ نابالغ ہے۔

ملزم کے وکیل پرتھوی راج سنگھ نے بھی اس کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا ‘یہی وجہ تھی کہ جب انھیں جمعہ کے روز عدالت میں پیش کیا گیا تو بالانگیر کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انھیں بچوں کے اصلاحی گھربھیجنے کا حکم دیا۔’

انھوں نے بتایا کہ منگل کو وہ بالنگیر کی ضلعی عدالت میں ملزم کی ضمانت کے لیے درخواست دائر کریں گے۔

اگر ملزم نابالغ ہے تو اس کی سزا کم ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کے خاندان کے افراد کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ پولیس نابالغ لڑکے کی شادی کرنے پر والدین کے خلاف مقدمہ درج کرنے جا رہی ہے۔

گرفتاری کے خوف سے ملزمان کے اہل خانہ گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں ، تاہم کئی کوششوں کے باوجود ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

عورتوں کی اسمگلنگ

اس کیس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ عورتوں کے اسمگلروں کے لیے انھیں پھنسانا کتنا آسان ہے۔ اڈیشہ میں یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔

ملک بھر میں خواتین کے سمگلروں کی نظریں ہمیشہ اڈیشہ پر لگی رہتی ہیں۔ طرح طرح کے وعدے کر کے دلال لڑکیوں کے والدین کا اعتماد حاصل کر کے وہ انھیں دوسری ریاستوں میں لے جا کر بیچ دیتے ہیں۔

اس طرح کے کیس ریاست کے قبائلی علاقوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہاں سے دھوکے سے لائی جانے والی لڑکیاں زیادہ تر شمالی ریاستوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ لڑکیاں زیادہ تر پنجاب اور ہریانہ میں فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن دہلی، راجستھان اور یوپی بھی اس معاملے میں زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔

فائل فوٹو

اڈیشہ میں لڑکیوں کی سمگلِنگ ایک عام مسئلہ ہے

اڈیشہ اور خواتین کی سمگلنگ

آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سال اڈیشہ سے ہزاروں لڑکیاں دوسری ریاستوں کو فروخت جاتی ہیں؟

سماجی کارکن انورادھا موہنتی کہتی ہیں ‘اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ غربت اور شعور کی کمی۔ بعض اوقات لڑکیوں کو اچھی جگہ شادی کا جھانسہ دیکر پھانس لیا جاتا ہے۔غربت کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہ کر پانے والے والدین دلالوں کی نیت نہیں سمجھ پاتے اور بیحد آسانی سے ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں والدین کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کئی مرتبہ جھوٹی شادیاں بھی رچائی جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ‘شادی کے علاوہ یہ دلال لڑکیوں اور ان کے والدین کو اچھی ملازمت دینے کے جھوٹے وعدے کر کے بھی انھیں اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ دلالوں کا کام آسان ہوتا ہے کیونکہ متاثرہ لڑکی یا اس کے والدین کو قانون کا علم اور زیادہ تر معاملات نہیں ہوتیں۔

ایک اور سماجی کارکن انورادھا داشا کہتی ہیں ‘اڈیشہ سے اتنی لڑکیوں کی سمگلنگ کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کی لڑکیاں بیحد بھولی ہوتی ہیں۔ دلالوں کے لیے ان کا اعتماد حاصل کرنابہت آسان ہوتا ہے’۔

ہر سال سینکڑوں خواتین کو اڈیشہ سے سمگل کیا جاتا ہے۔ اگر کسی لڑکی کی قسمت اچھی ہوتی ہے تو بعض اوقات وہ دلدل سے بچ جاتی ہیں، جیسا کہ اس لڑکی کے معاملے میں ہوا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments