پاکستان کی جیت، ویرات کی مسکراہٹ اور محبتوں کے بے تاب موسم   


پشاور کے ایک ریستوران میں سب کی نظریں بڑی سی سکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ پاکستان اور برطانیہ کی ٹیمیں پنجے جھاڑ کے ایک دوسرے کے مقابلے میں اتری ہوئی تھیں۔ انگلینڈ کے بالر نے یوسف یوحنا کی وکٹ اڑائی تو ساتھ بیٹھا ہمارا برطانوی رفیقِ کار چمچ سے گلاس بجا کر خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ انضمام الحق نے روایتی انداز میں کوور ڈائیو پہ سٹروک کھیلتے ہوئے دو فیلڈرز کے بیچ سے گیند نکالی تو یہی برطانوی دوست بے ساختہ بولا، یہ انضمام کس قدر خوبصورت کھلاڑی ہے۔ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکلنے لگا تو ہم خاصے افسردہ ہوگئے۔ مگر نکلتا ہوا میچ جب واپس ہاتھ میں آیا تو برطانوی دوست کے چہرے پر خوشی کے تاثرات اسی لہر میں تھے۔ پاکستان جیت کی طرف بڑھنے لگا تو ہمارے ساتھ برطانوی دوست کی بے تابیاں بھی دیکھنے والی ہوگئیں۔ جیسے پارٹی بدل کر وہ اچانک سے ہمارا طرف دار ہوگیا ہو۔ پاکستان نے وننگ شاٹ کھیلا تو فتح مندی ایک ایک شور اٹھا اور برطانوی دوست نے بے ساختہ چمچ اٹھاکر گلاس بجانا شروع کردیا۔ ساتھ ہی خوشی سے بولا، آج کے میچ کی خوشی میں ڈنر میری طرف سے ہوگا پلیز۔

میں سوچ میں پڑگیا کہ اگر برطانیہ جیت جاتا تو کیا ہم اس کی خوشیوں میں اس طرح سے شریک ہو پاتے۔ اگر ہو بھی جاتے، تو کیا دائیں بائیں بیٹھے ہمارے ہم وطن دوست ہمارے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کر پاتے۔ شاید میرے باقی دوستوں کو بھی ایسے ہی سوالات ستا رہے تھے۔ اچانک ایک دوست نے پوچھا، آپ لوگ مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے شاٹس، چھکوں، چوکوں، ففٹیوں، سینچریوں اور جیت کو بھی برابر سراہتے ہو۔ ٹیم ہارجائے تو تم لوگ اپنے کھلاڑیوں کو برا بھلا کہتے ہو اور نہ ان کا گھیراو کرتے ہو۔ ایسا کیسے کر لیتے ہو آپ لوگ؟ کہنے لگا، کیا یہ واقعی کوئی ایسی بات ہے جو سمجھ سے باہر ہو؟ یہ تو بہت سمپل سی بات ہے، ہماری ٹیم جب جیتتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہماری ٹیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب مخالف ٹیم جیتتی ہے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی بری تھی۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ مخالف ٹیم کی کارکردگی بہت شاندار تھی۔

اس نے مزید کہا، جس طرح آج پاکستان کی ٹیم کھیلی ہے، اگر یہ ہار بھی جاتی تو میں ان کی محنت کو اور کھیل کو ضرور سراہتا۔ یہ میچ اس لیے بھی بہت اچھا تھا کہ پاکستانی ٹیم کسی چانس، اتفاق یا خوش قسمتی سے نہیں جیتی، بلکہ خالصتاً اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر جیتی ہے۔ میں خوش ہوں کہ مجھے پوری کیلکولیشن کے ساتھ کھیلے گئے ایک بہترین میچ کا لطف اٹھانے کا موقع ملا۔ میں دراصل اسی خوشی میں ڈنر دینا چاہتا ہوں۔

پاکستان کے عوام کل رات جس قدر اپنی جیت پر خوش ہوئے، اس سے کہیں زیادہ ویرات کوہلی کے رویے پر خوش ہوئے ہیں۔ ویرات نے اپنی ذاتی حیثیت میں کل شام بھی ایک بیدار شکاری کی طرح پلٹ جھپٹ کے اور ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ آخری اوور تک اُس نے جیت کا ہر امکان تلاش کرنے کی پوری کوشش کرتا رہا۔ بازی مات ہوئی تو ویرات کا الجھا ہوا چہرہ فورا سلجھ گیا۔ آگے بڑھا اور ایک بڑے انسان کی طرح بابر اعظم اور محمد رضوان کی کارکردگی کو سراہا۔

مگر میرا برطانوی رفیقِ کار مجھے ویرات کے رویے سے نہیں، ویرات کی گفتگو سے یاد آیا جو اُس نے میڈیا سے کی۔ ویرات کی سو باتوں کو چند باتوں میں سمیٹا جائے تو گفتگو یہ بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے بہت اچھا کھیلا۔ پاکستان کسی چانس کے بدولت نہیں جیتا بلکہ جتنی گیندیں جتنے اوور اور جتنے کھلاڑی ایک ٹیم کے پاس ہوتے ہیں اسی کے ساتھ پاکستان کھیلا اور جیت گیا۔ ہم نے کئی بار کوشش کی کہ پریشر سے نکلیں، مگر پاکستان آخر تک اپنا پریشر برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان نے ناقابلِ یقین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمیں کوئی بھی عذر تراشے بغیر پاکستان کی کارکردگی کو سراہنا چاہیے۔

ہمارے لیے محبتوں کے یہ رنگ اس قدر دل فریب اس لیے بھی ہیں کہ اس کی پیاس یہاں بہت زیادہ ہے۔ خوشی کا موقع ہمیں کم ہی ملتا ہے، ملتا ہے تو رنگ میں کوئی بھنگ پھیر کے چلا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کے سینے پر آٹھ تمغے سجا دیے جاتے ہیں۔ دراصل ہندوستان اور پاکستان میں نیشنل ازم کی بنیاد نفرت پر رکھی گئی ہے۔ ہماری محبتیں کہیں جانے سے پہلے نفرت سے اجازت لیتی ہیں۔ اچھا پاکستانی وہی ہے جو ہندوستان سے نفرت کرتا ہے۔ اچھا ہندوستانی وہی ہے جو پاکستان کو برباد ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ کُھل کے یہاں وہی ناچ سکتا ہے جو گالی دیتا ہے، نفرت پھیلاتا ہے، مداخلت کرتا ہے اور جج کرتا ہے۔ ہاتھ ملانے، گلے لگانے اور بوسہ دینے والوں کے خلاف گلی سے ایوان تک عدالتیں قائم ہوجاتی ہیں۔

ہندوستان میں ایسے واقعات بھی ہوئے کہ میچ شروع ہونے سے ایک دن پہلے پاکستانی کھلاڑیوں کے پتلے جلا دیے گئے۔ بلوائی گراونڈ میں داخل ہوئے اور پِچ ادھیڑ کے چلے گئے۔ رات بھر لوگ کھلاڑیوں کے ہوٹل کے باہر دین دھرم اور نسلی منافرت میں لتھڑے ہوئے نعرے لگاتے رہے۔ دنگے کرتے ہوئے اِن معلوم چہروں کو کبھی کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر آج سے تین چار برس پہلے جب انڈین ٹیم کے کپتان دھونی نے پاکستان کے کپتان سرفراز کے نومولود بچے کو گود میں لے کر مبارکباد دی تو لگا کہ انڈیا کے سوشل میڈیا پر کسی نے تیزاب چھڑک دیا ہے۔ اگلے دن بھارتی ٹیم جب وہ میچ ہاری تو ہندوستان کی آدھی آبادی نے یہی تصویریں لگا کر دھونی کو بھاڑ میں جھونک دیا۔ انسان سوچتا ہے کہ آخر یہ لوگ کہنا کیا چاہ رہے تھے۔ کیا یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ انسانیت آڑے آجائے تو ٹیمیں کمزور ہوجاتی ہیں؟

چونکہ مقابلہ سارا نفرت کا ہے تو سیر کے لیے ہمیشہ ہم سوا سیر ثابت ہوتے ہیں۔ انڈیا کے لوگ اپنی ٹیم کو اذیت دیتے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ چنانچہ ایک زمانے میں یہاں انڈیا سے شکست کے بعد جن کی رسائی مشکل ہوتی تھی وہ اپنے ٹی وی توڑ لیا کرتے تھے۔ جو ذرا ہمت کر پاتے تھے وہ سڑک پر کھلاڑیوں کے پتلے جلاکر دل ہلکا کر لیتے تھے۔ جن کی حب الوطنی سِوا ہوتی تھی وہ انڈے ٹماٹر کے کریٹ لے کر ایئرپورٹ کے داخلی دروازے کے سامنے بستر ڈال لیا کرتے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں کو احتیاطاً دیگر ممالک کے ویزے لگوانے پڑتے تھے تاکہ شکست کی صورت میں پتلی گلی سے نکلا جا سکے۔

چھیانوے میں انڈیا سے ہارنے کے بعد سارے کھلاڑی آس پڑوس کے ممالک میں نکل گئے، مگر ویزا نہ ہونے کی وجہ سے ثقلین مشتاق پھنس گئے۔ چار وناچار ان کو پاکستان ہی آنا پڑا، مگر لاہور کی فلائٹ کینسل کروا کر وہ کراچی پہنچے گئے۔ نفرت کی وبا سے بچانے کے لیے ائیر پورٹ کے احاطے میں واقع ایک ہوٹل میں انہیں ڈیڑھ ہفتے کے لیے کورنٹائن کیا گیا۔ انہیں کمرے کی کھڑکی سے سر نکالنے تک کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ڈیڑھ ہفتے بعد رات بارہ بجے کی ایک فلائٹ پکڑ کے وہ چوری چپکے اپنے گھر پہنچے، مگر مستانون کی نگاہ سے کب کوئی بچا ہے جو ثقلین بچتا۔ منہ اندھیرے لوگ نکلے اور ثقلین کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ گھر کے دروازے پر ثقلین کے بزرگ والد کے ساتھ جو بد تمیزی کی گئی، اسے یاد کرکے ثقلین آج بھی اداس ہوجاتے ہیں۔

اس کے بالکل برعکس ایک رویہ اور بھی ہے جو پرانے کھلاڑی اب بیان کر پاتے ہیں۔ مثلا، انڈیا کی ٹیم پاکستان آئی تو کپتان انضمام الحق اپنے بیٹے کو ٹنڈولکر سے ملوانے لے کر گئے۔ ٹنڈولکر سے کہا، یہ بچہ تمہارا فین ہے تم پر جان چھڑکتا ہے۔ مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ سچن ٹنڈولکر سے مجھے آٹو گراف دلواؤ گے۔ ٹنڈولکر نے بچے کو گلے لگایا، پیار کیا اور آٹو گراف دیا۔ ٹنڈولکر آج بھی اس واقعے کو انضمام کی عظمت کا نشان بتاتے ہیں۔

سدھو، راہول ڈریوڈ اور گنگولی بتاتے ہیں کہ ہم نے ملتان اور لاہور کے بازاروں میں بچوں کے لیے خریداری کی تو دکان داروں نے ہم سے پیسے نہیں لیے۔ لوگوں نے ہمارے ساتھ تصویریں کھنچوائیں، کھانے کھلائے اور تحائف دیے۔ ہربھجن اور یوراج بتاتے ہیں کہ شاہد آفریدی اور شعیب اختر کے ساتھ ہماری دوستی بہت اچھی تھی۔ اکثر ہم ایک دوسرے کے کمروں میں پائے جاتے تھے۔ تاش کھیلتے تھے، پرینک کرتے تھے اور بچوں کی طرح ایک دوسرے کو مسہریوں پر پٹختے تھے۔ ظاہر ہے یہ اچنبے کی باتیں تو نہیں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ سب ہو رہا تھا اس زمانے میں یہ سب کیوں نہیں بتایا جاتا تھا۔ محبت اور امن کے ہر حوالے پر پردے کیوں ڈال دیے جاتے تھے۔ ظاہر ہے، کھلاڑی جانتے تھے کہ ہمارے بازاروں میں نفرت کا سکہ چلتا ہے۔ اسی بازار میں محبت کی ایک قیمت ہے، جو وزرائے اعظم نہیں چکا سکتے ہم جیسے ہما شما کیا چکائیں گے۔

ایک کھلاڑی کے پاس تیکنیک، ٹیمپرامنٹ اور ٹائمنگ ہوتی ہے۔ ان تینوں میں سے ایک چیز ایسی نہیں ہے جس پر کوئی نسل یا مذہب اپنی ملکیت کا دعوی کر سکے۔ تماشائی کی آنکھ میں ذوق کا پانی ہو تو یہ تین چیزیں جس بلے سے صادر ہوں گی، تسکین ملے گی۔ پھر وہ بلا ویرات کوہلی کے ہاتھ میں ہو یا بابر اعظم کے ہاتھ میں، ذوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سال دو ہزار سترہ میں پاکستان نے انڈیا کو ہرایا تو یونس خان نے ایک خوب صورت پیغام جاری کیا۔ خوب صورت لوگ خوب صورت پیغام ہی دیتے ہیں۔ کہنے لگے، ہمیں اپنی خوشی بہت وقار کے ساتھ سیلیبریٹ کرنی چاہیے۔ میچ سے پہلے کسی انڈین سیلیبریٹی نے ہمارے لیے کچھ برا بھلا کہا ہو تو اسے بھول جائیں، دھونی اور ویرات جیسے کھلاڑیوں نے جو اچھا رویہ دکھایا بس اس کو یاد رکھیں۔ اگر ہم بھی کسی جذباتی شخص کی طرح جواب میں نفرت انگیزی ہی کریں گے، اگر انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں کی تذلیل یا تحقیر کریں گے تو ہم اپنی خوشی کا وقار کھو دیں گے، مزا نہیں آئے گا۔

ویرات کوہلی نے کل جس رویے کا اظہار کیا، اس میں کچھ نیا نہیں تھا۔ سارے دنیا کے کپتان جیتی ہوئی ٹیم کو ایسے ہی سراہتے ہیں۔ ہندوستان کے باقی کپتان بھی پاکستانی کپتان سے ایسے ہی ہاتھ ملاتے تھے۔ ویرات نے ایسا کیا نیا کر دیا؟ ویڈیو نکال کر دیکھیں تو یہ گزرتا ہوا ایک رسمی سا منظر ہی تو ہے جس میں مسکارہٹ کا دورانیہ لمحے بھر کا ہے۔ تصویر نکال کر دیکھیں تو یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا ہے۔ ہربھجن اور سہواگ ناروا کہتے رہے، مگر پاکستانی شائقین نے ویرات کی ویڈیو سے ایک مسکراتے ہوئے لمحے کو ہی کیسے چرا لیا؟ دیکھیے، سچ مچ کی مسکراہٹ سے پھوٹنے والی انرجی دل کو کھینچتی ہے، وہ دل پروپگنڈوں، بیانیوں اور نصابوں کا مارا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔

چھوٹی سی ایک بات نے سیلیبریشن کو کتنا باوقار بنا دیا ہے۔ اس بات کو اگر کھینچ کر ہم کرکٹ کے علاوہ کے دائروں میں بھی لے جائیں تو سوچیے محبتوں کے کتنے موسم ہیں جو سرحدوں پر اترنے کو بے تاب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments