نیارا گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان


سارے پاکستانی بچوں کی طرح میرا بھی پہلا عشق پاکستانی کرنسی کا نوٹ تھا۔ اور پہلا رقیب عشرت حسین۔ جی ہاں وہی عشرت حسین صاحب جو گورنر سٹیٹ بینک ہوتے تھے۔ اور جن کے دستخط ہر نوٹ پر موجود ہوتے تھے۔ خیر تھوڑا بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ یہ بیچارہ بھی ایک ملازم۔ روپے کا مالک تھوڑی۔ اور اس بات پہ کامل یقین تب ہوا جب عشرت حسین صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد شمشاد اختر گورنر سٹیٹ بینک بنیں۔ اس کے بعد پھر تادم تحریر میں نے کسی گورنر سٹیٹ بینک کو رقیب کا درجہ نہیں دیا۔ اور یکے بعد دیگرے متعدد عشق پالے مگر روپے کو ہاتھ کی میل ہی سمجھا۔

ریاضی میں ہمیشہ سے کمزور رہا ہوں اس لیے میں ذرا حساب کتاب سے دور رہتا ہوں۔ لفظ معیشت سے چڑ ہے۔ کیونکہ اس معیشت نے ہمارے ملک کا ستیاناس کر رکھا ہے۔ اور بجٹ کبھی اپنی ذات کے لیے بھی نہیں بنا سکا۔ میٹرک میں ریاضی کا مضمون رٹے کی مدد سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ ہر سوال کا جوابی عمل درجہ بہ درجہ حتیٰ کے جواب بھی ازبر تھے۔ ان ساری مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پر میں ہر اس شخص کو ذہین و فطین گردانتا تھا جس کا معاشیات سے دور پار کا بھی تعلق ہو۔ شکریہ جناب رضا باقر صاحب کا جن کی وجہ سے میں اس احساس کمتری کو شکست دے پایا ہوں۔ اور اتنی ہمت آئی کہ زمانے کو بتا سکوں کہ میٹرک میں ریاضی کا مضمون رٹا لگا کر پاس کیا تھا۔ اور بچپن کی وہ خواہش بھی پھر سے اٹکھیلیاں کر رہی ہے۔ جس چکر میں عشرت حسین صاحب کو رقیب بنا بیٹھا تھا کہ اس نوٹ پر بڑے ہو کر اپنا نام لکھوانا ہے۔ مگر سکول زمانے میں ہی سمجھ آ گئی تھی کہ نہیں بھئی! یہ حساب و کتاب تیرے بس کی بات نہیں۔ اور پھر یہ شوق سکول کے زمانے میں ہی پینسل سے نوٹوں پر اپنا نام لکھ کر پورا کیا۔ تاہم یہ عیش آج کل کے بچوں کو میسر نہیں کیونکہ اب کسی طرح کی بھی لکھائی کے بعد نوٹ بیکار ہو جاتا ہے۔ باہر حال موجودہ گورنر سٹیٹ بینک کی سامنے آنے والی ہر بات مجھے یہ یقین دلا جاتی ہے کہ میرے اور گورنر صاحب کے حساب و کتاب میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہے۔

سنا ہے کہ پچھلے ہفتے گورنر سٹیٹ بینک نے کسی پریس کانفرنس میں باور کروایا ہے کہ روپے کی قدر گرنے سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کاش! کوئی گورنر صاحب کے گوش گزار اوورسیز کی وہ تمام گالیاں بھی کر دے۔ جو اوورسیز پاکستانی جہاز سے اترنے کے بعد اور جہاز پر چڑھنے سے پہلے حکومت کی پالیسیوں کے تناظر میں نکالتے ہیں۔ اور اسی پریس کانفرنس میں کچھ انہوں نے اعداد و شمار بتائے جو دیگر پاکستانیوں کی طرح میری سمجھ سے بھی بالاتر ہیں۔ اس بیان کے بعد شاید رضا باقر صاحب پہلے گورنر سٹیٹ بینک ہیں جن کے دور میں روپے کی قدر کے ساتھ ساتھ نوٹ پر دستخط شدہ نام کی بھی قدر گری ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے سارے ارسطو اور آئن سٹائن پاکستانیوں کے نصیب میں ہی کیوں آتے ہیں۔ حالانکہ ہم اس قدر پیدائشی سیانے ہیں کہ پہلا عشق کرنسی نوٹ سے فرماتے ہیں۔ میرے ایک انکل جو خاصے کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ اپنے پانچ سالہ پوتے کو بہلانے کے لیے۔ انہوں نے اچھا کاغذ لیا اور اسے مختلف نوٹوں کے سائز میں کاٹا، کرنسی نوٹ کی شکل دی، باقاعدہ استری تک کیا۔ نئے نوٹ والی کڑک لانے کے لیے۔ ان تمام تر کاوشوں کے بعد بھی ان کے پوتے نے گھر میں تیار کردہ معیاری نوٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گورنر سٹیٹ بینک کی عوام کو بہلانے کی حالیہ حرکت ’میرے انکل کی اس کاوش سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن عوام اور اس عوام کے بچے تک اب سیانے ہو چکے ہیں۔ ایسی پیدائشی ذہین قوم کے اندر ایسے گورنر سٹیٹ بینک کہاں سے پیدا ہو جاتے ہیں؟ جو روپے کی قدر گرنا بھی ملکی ترقی سمجھتے ہیں۔

رضا باقر صاحب وطن عزیز کے بیسویں گورنر سٹیٹ بینک ہیں۔ اور میرے عہد کے لوگوں نے بھی بشمول رضا باقر کوئی سات گورنر اس منصب پر براجمان دیکھے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق اس عہد سے ہے جس بارے پروین شاکر نے کہا تھا کہ ”بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے“ ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کے دس بارہ برس کی عمر میں خاصہ چالاک تھا۔ تو بس پھر میری اس چالاکی پر پروین شاکر کی گواہی کو تسلیم کرتے ہوئے۔ یقین کر لیجیے! ان ساتوں میں سے موجودہ گورنر سٹیٹ بینک ”نیارا“ ہے۔ باقی سابقہ ادوار کے تیرہ صاحبان بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں مگر روپے نے یہ والی بے توقیری پہلی بار دیکھی ہے۔

اس نیارے گورنر سٹیٹ بینک کی کارکردگی تو یہ ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں دس فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔ معاشی ماہرین پاکستانی روپے کو براعظم ایشیاء کی بدترین کارکردگی والی کرنسی قرار دے رہے ہیں۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیز یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 180 تک پہنچ جائے گی۔ اس کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے میری حکومت وقت سے التجاء ہے۔ بھلے میرا نام نہ ہو کرنسی نوٹوں پر، مگر گورنر سٹیٹ بینک کو بطور سزا یہ حکم دیا جائے کہ وہ ہر جاری شدہ نوٹ پر پینسل سے اپنا نام لکھیں۔ شاید اس طرح ان کو بھی پاکستانی روپے سے لگاؤ ہو جائے۔

قصور موصوف کا بھی نہیں کیونکہ وہ عالمی معاشی اداروں کے نوکر رہے ہیں۔ اس لیے وہ ڈالر کی اڑان کو ہی درحقیقت ترقی کا معیار سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب روپے کا مقابلہ ڈالر، پاؤنڈ، یورو سے نہیں بلکہ گورنر سٹیٹ بینک سے ہے۔ اور ابھی تک جیت گورنر صاحب کے پلڑے میں ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ موصوف کی رنگ برنگی ٹائیوں، خوبصورت سوٹوں بوٹوں، پہلے سے قدرے نکھری رنگت اور صحت سے اندازہ کر سکتے ہیں۔ جن قارئین کو یقین نہیں آ رہا میری بات پر۔ وہ رضا باقر صاحب کی پاکستان آتے وقت کی ائرپورٹ والی تصویر اور کوئی تازہ تصویر دن میں تین بار صبح ’دوپہر‘ شام دیکھیں۔ اور فرق جان کر جئیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments