مار، نہیں پیار


کمال ہماری میٹرک کی کلاس کا سب سے نالائق سٹوڈنٹ تھا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا، “یار، تم پڑھتے کیوں نہیں؟” “مجھے پڑھائی کا شوق نہیں ہے،” اس نے بجھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ “پھر تمہیں کس چیز کا شوق ہے؟” میں نے پوچھا۔ “کاروبار کا،” اس کی آنکھیں یک دم چمک اٹھیں۔

“تو تم آگے جا کر کامرس یا بزنس ایڈمنسٹریشن بھی پڑھ سکتے ہو،” میں نے لقمہ دیا۔ “لیکن میرے ممی پاپا چاہتے ہیں کہ میں سائنس پڑھوں اور آگے جا کر ڈاکٹر بنوں،” وہ پھر بجھ گیا۔ اب میرے پاس بھی کچھ اور کہنے کے لیے نہیں تھا۔

کمال کا قد دن بدن بڑھ رہا تھا۔ مگر اس میں پڑھنے کی تحریک روز بہ روز کم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ چلتے ہوئے تیز ہوا میں ایک دراز قامت درخت کی طرح جھولتا ہوا نظر آتا۔

ایک روز اس کے ٹیسٹ کے مارکس بہت برے آئے۔ ٹیچر نے اسے سخت ڈانٹ پلائی اور تاکید کی وہ میرے ساتھ پہلے بینچ پر بیٹھا کرے۔ اگلے روز وہ میری دائیں جانب دروازے کے بالکل ساتھ بیٹھ گیا۔

کچھ روز بعد مجھے اس کے برتاؤ میں تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ میں نے سوچا کہ کیا وہ میری صحبت کا اثر تھا؟ اب وہ چست ہو گیا تھا۔ کلاس participation بھی بڑھ گئی۔ ٹیسٹوں میں مارکس بھی بہتر ہو گئے۔ سب ٹیچر اس کی پرفارمنس پر اطمینان محسوس کرنے لگے۔

کچھ روز قبل ایک خاتون ٹیچر ہمیں پڑھانے کے لیے آئی تھیں۔ انہوں نے ہمیں فزکس اور کیمسٹری پڑھانا تھی۔ اس کالج میں وہ دوسری female تھیں۔ ان سے پہلے ہماری کلاس میں ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔ جسے اس کے والدین نے یہ سوچ کر ہٹوا دیا کہ وہ لڑکوں کا اسکول تھا۔ اور اب دوسری یہ میڈم تھیں۔

ایک روز ہم لیکچر کا انتظار کر رہے تھے کہ کمال نے مجھے بتایا، “یار، مجھے فزکس کی میڈم بہت اچھی لگتی ہیں۔” میں نے اس کی بات کو مذاق سمجھا اور ایسے ظاہر کیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ “وہ سچ میں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ میں۔۔۔ میں ان سے محبت کرتا ہوں،” وہ پوری طرح سنجیدہ تھا۔

اب مجھے سمجھ آئی کہ آج کل وہ اتنا ایکٹو کیوں ہوا ہوا تھا۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ مگر میں نے سوچا کہ اگر یہ بے ضرر ون سائیڈڈ محبت اسے ٹریک پر لے آئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ شاید میڈم انڈرسٹینڈنگ کے اس خلا کو پر کر دے جو کمال اور اس کے والدین کے درمیان حائل تھا۔ اور یہ معصوم جذبہ اس کا مستقبل سنوار دے۔

میڈم ایک خاموش طبع اور سنجیدہ خاتون تھیں۔ وہ اپنے سراپے کو چادر سے اچھی طرح لپیٹ کر رکھتی تھیں۔ ہمارے سینئر انہیں attitude والا سمجھتے تھے۔ مگر وہ مجھ سمیت کلاس کے دوسرے برائٹ سٹوڈنٹس کے ساتھ کبھی کبھی فرینک ہو جاتی تھیں۔ ان کا پڑھانے کا انداز بھی موثر تھا۔ انہوں نے ہمارے بہت سے ایلیمینٹری concepts کلئیر کیے۔

ایک دن میڈم کے لیکچر سے قبل دو سینئر ہماری کلاس میں داخل ہوۓ۔ ایک نے دیوداس کی طرح ایکٹنگ شروع کر دی۔ دوسرے نے اپنی ڈائری کھول کر یہ اشعار پڑھے۔

بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری

اگر ہو عنایت اے جان محبت

بنا لیجئے ان کو قسمت ہماری

اتنی دیر میں میڈم آگئیں اور وہ سینئر ہمیں معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر چلے گئے۔ وہ براہ راست تو میڈم کو کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اور کہتے بھی کیا؟ بس وہ ان کے سٹوڈنٹس کے سامنے اپنے نوحے سنا کر چلے جاتے۔

ایک روز میڈم چھٹی پر تھیں۔ وہی سینئر ہماری کلاس میں بوجھل قدموں سے داخل ہوا۔ اور اپنی ڈائری کھول کر بڑے غمگین انداز میں یہ شعر پڑھنے لگا۔

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جمال کی باتیں بھی دن بدن بڑھنے لگیں۔ “یار، آج میڈم نے مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھا۔” “یار، آج میڈم نے میرے کام کی تعریف کی۔” “یار، آپ میری کسی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟”

ایک دن اس نے جذبات سے نڈھال ہو کر فیصلہ صادر کر دیا، “میں میڈم سے عشق کی حد تک پیار کرتا ہوں۔ اور ان سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، بول پڑا۔ “تمہارا دماغ خراب ہے۔ تم پاگل ہو گئے ہو۔”

اگلے روز سے کمال نے میرے ساتھ بیٹھنا چھوڑ دیا۔ اس کی پرفارمنس کا گراف پھر نیچے آنے لگا۔ وہ کلاس کے آخری بینچ پر بیٹھا پچھلے دروازے سے صحن کی طرف گھورتا رہتا۔

وہ شاید مجھ سے مایوس تھا۔ کیونکہ میں نے اس کے جذبات کی قدر نہیں کی۔ وہ شاید میڈم سے بھی مایوس تھا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اس کی جاں فشاں محنت اور دل فگار احساسات کو نہیں پہچانا تھا۔ اور اب شاید وہ زندگی سے مایوس هونے لگا تھا۔

ایک روز میڈم کا لیکچر جاری تھا۔ کمال کا ٹیسٹ بہت برا ہوا۔ میڈم بپھر گئیں۔ انہوں نے مجھے پرنسپل سے سٹک لانے کو کہا۔ ہمارے کالج میں پٹائی کا کلچر نہیں تھا۔ سو سٹک صرف پرنسپل کے پاس موجود تھی۔ اور کسی غیر معمولی صورت حال میں ان سے حاصل کی جا سکتی تھی۔ صرف اسپیشل بچوں کے لیے۔ اور کمال ان میں سے ایک تھا۔

میں نے سٹک میڈم کو لا کر دے دی۔ میڈم نے کمال کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہاتھ آگے کرے۔ کمال منت سماجت کرنے لگا کہ میڈم اس کے ساتھ ایسا نہ کرے۔ گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بری پرفارمنس میں سارا قصور صرف اس کا نہیں۔ بلکہ خود میڈم بھی اس میں برابر کی شریک تھیں۔

ہاتھ آگے نہ کرنے پر میڈم نے کمال کی بازوؤں اور ٹانگوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیا۔ کمال نے سٹک پکڑ لی اور میڈم کو غضب ناک نظروں سے گھورنے لگا۔ گویا وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا تھا اور میڈم کو آخری بار خبر دار کر رہا تھا۔

میڈم نے ڈنڈا چھوڑ کر اس کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ کمال کی مزاحمت بھی ڈھیلی پڑ گئی۔ اور وہ تکلیف سے بلبلانے لگا۔ میں اپنی سیٹ سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اور خود کو اس معاملے میں برابر کا قصوروار سمجھ رہا تھا۔ اور دعا کر رہا تھا کہ آج کمال کے ذہن سے عشق کا بھوت نکل جاۓ۔

کمال کی ہر کراہ گویا یہ فریاد کر رہی تھی، “مار نہیں، پیار۔”  “مار نہیں، پیار۔” اور ڈنڈے کی ہر ضرب سے گویا ایک ہی گونج اٹھ رہی تھی، “مار، نہیں پیار۔” “مار، نہیں پیار۔”

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 39 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments