یہ روزنامچہ نہیں، تاریخ لکھی جارہی ہے !


آج اور کل کا فاصلہ ناپنا ایسا ہی ہے جیسے بہتے پانی پر ہاتھ رکھنا۔ ابھی نظروں میں ہے اور ابھی نظروں سے اوجھل۔ یہ مسافت اس تیزی سے طے ہوتی ہے کہ آج کا، کل میں ڈھلنا، اور ڈھلتے رہنا، غیر محسوس طریقے سے، گھڑی کی مصروف سوئی کی طرح بلا توقف متحرک اور رواں رہتا ہے۔ یہ زندگی کا وہ دائرہ ہے جس کی حرکت کبھی ساکت نہیں ہوتی اور اسی دائرے میں نقش مسلسل بنتے، بگڑتے، ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ نقش ہیں جن کی تخلیق کس بھی جگہ رہنے والوں کے عمل، طرز عمل اور ردعمل سے رونما ہوتی ہے اور جلد یا بہ دیر، بونگ رینگ کی مانند، آنے والے کل، ان ہی کو ہدف بناتی ہے۔

آج کی یہ فطری مجبوری ہے کہ اس نے بالآخر کل کے سانچے میں ڈھل جانا ہوتا ہے اس لئے یہ مذاجاً ”(اور عادتاً) تیز رو، اور طوطا چشم ہوتا ہے۔ یہ کل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے، اور خود (شاید) کل کے عقب میں چھپ کے ان راستوں پر گامزن، فیصلہ سازوں کے چناؤ کو خاموشی سے تکتا رہتا ہے۔ یہ شطرنج کی وہ بساط بن جاتا ہے جہاں، آج کی طے کی گئی چالیں، کل کے منظر نامے پر اپنے نتائج، سیاہ اور سفید میں ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔

آج، بلاشبہ، کل کی بنیاد بھی ہے اور کل کی تعمیر بھی! گویا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کل جو ہونا ہے، وہ درحقیقت آج ہونا ہے۔ یہی بیج، پودا اور پھر شجر بنتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کل کی تشخیص، کل کے آنے سے پہلے، آج کیوں کر ہو، بہ ظاہر مشکل، مگر عملاً نہایت سہل، اگر ( ذاتی ) خواہشات، ( گروہی ) مفادات اور ( سماجی) تعصبات سے بالا ہو کر، نوشتہ دیوار پر لکھا، پڑھنے (اور اسے سمجھنے) کی صلاحیت میسر آ جائے۔ داناؤں کا اتفاق رائے ہے کہ یہ وہ تحریر ہے، جو بنا حرف و لفظ، کسی متلاشی کی منتظر، معنی کے انبار لگائے رکھتی ہے!

پس، کسی بھی صورت حال میں، حقیقت پسندی اور خود احتسابی کے ساتھ سارے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہونے کے امکانات اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، اگر اس کے لئے سچ کا سامنا کرنے کا (جرات مندانہ) حوصلہ ہو، کیوں کہ خود سے جھوٹ بول کر، وقت ٹالا جا سکتا ہے، وقت (اور معاملات) کو سنبھالا نہیں جاسکتا اور نہ ہی ایسے سطحی اور عارضی سہاروں سے وقت کے پردے میں چھپے اشارے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اشارے بہر صورت اپنے وقت پر، (خود رو) نتائج کی صورت میں نمایاں ہو کر رہتے ہیں۔

مصنوعی تنفس کبھی دائم نہیں رہا اس لیے خود فراموشی کی چادر ڈھانکنے سے، منظر بدلتا نہیں (اور یقیناً بدل بھی نہیں سکتا)۔ جو ہے، جیسا ہے، کو تسلیم کر لینے سے ہی پیش رفت ممکن ہے۔ پہاڑ جیسی مثالوں سے چشم پوشی اور سمندر جیسی کوتاہیوں سے لاتعلقی ظاہر کر کے، مزید خطرات اور محرکات کو تو دعوت دی جا سکتی ہے، فضاؤں میں موجود نادیدہ بگولوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور نہ ہی زیر زمین پوشیدہ آتش فشاں کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔

خوش گمانی کے مفروضوں، منصوبوں اور مشوروں کو ترک کرنا، دانش مندی اور دانائی کے اولین مظاہر ہیں اور اسی کے بطن سے تدبیر، توازن اور تعبیر کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاملہ فہمی کا ہمیشہ یہ تقاضا رہا ہے کہ آج کو، کل کا انتظار کیے بغیر، پوری سنجیدگی، دیانتداری، اور ہوش مندی سے لیا جائے کہ بہ ظاہر عام نظر آنے والے یہ ایام، غیر معمولی اور خاص حالات کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

پیچیدہ اور گنجلک صورت حال میں یہ ذمہ داری، دہری ہو جاتی ہے کہ، کیا جانے والا ہر عمل اور کسی بھی سمت میں اٹھایا گیا ہر قدم، دوررس اثرات کو، ( پسندیدہ یا ناپسندیدہ ) شکل دے رہا ہوتا ہے۔ اس دوران میں، بے بنیاد طالع آزمائی، غیر ذمہ دارانہ مہم جوئی اور خود ساختہ قیاس آرائی اور ان سب کے حوالے سے اختیار کی گئی تمام تراکیب اور ان تراکیب کے لیے پھیلائے گئے سارے سلسلے اور ان سلسلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے، کی جانے والی ہشت پا، تگ و دو، الجھاؤ اور محض الجھاؤ کو بڑھاوا دیتی ہے۔

کسی بھی معاشرے کے لیے یہی وہ موڑ ہے، جہاں یہ شعور ناگزیر ہوجاتا ہے کہ ان گزرتے روز و شب میں ہم جو کہہ رہے ہیں، ہم جو کر رہے ہیں، ہم جو دیکھ رہے ہیں، ہم جو دکھا رہے ہیں، ہم جو بتا رہے ہیں، ہم جو جتا رہے ہیں، وہ انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر اتنا سطحی اور سرسری عمل نہیں کہ اس کی نوعیت پر صرف نظر کر کے بہتری کے خواب تراشے جائیں۔ ان کی معنویت اس قدر گہری اور وسیع ہے کہ ان ہی افعال سے مستقبل نے پنپنا ہوتا ہے۔

اس تناظر میں یہ کہنا، بلاشبہ بے جا نہیں کہ آج ہمارے چار سو، جو تلاطم ہے، اس پر ہمارا عمل، طرز عمل اور ردعمل، دراصل وہ نقش ہیں، جو کل ہماری تاریخ کا روپ دھار لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments