آئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے؟


یکم مارچ 2003 کو پاکستان کی اولین انٹیلی جنس ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دو درجن اہلکاروں نے چھاﺅنی والے شہر راولپنڈی کے ایک نجی گھر سے خالد شیخ محمد کو گرفتار کیا جن پر 'نائن الیون' (گیارہ ستمبر 2001) کو امریکی شہروں میں حملوں کے 'ماسٹر مائنڈ' ہونے کا الزام تھا۔ اسی شام آئی ایس آئی نے اسلام آباد میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹر میں پاکستانی اور غیر ملکی صحافیوں کے ایک چنیدہ گروہ کو بریفنگ دینے کے لیے مدعو کیا کہ آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی اس گرفتاری کی بابت اطلاعات سے انہیں آگاہ کیا جاسکے۔

ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اپنے کسی خالصتاً آپریشن کے معاملے پر آئی ایس آئی کے کسی افسر نے اس طرح سے براہ راست غیر ملکی صحافیوں کو بریفنگ دی ہو۔ لیکن یہ واقعہ بھی غیر معمولی تھا جس نے آئی ایس آئی کی صلاحتیوں کے بارے میں دنیا میں ایک بار پھر بحث چھیڑ دی۔ یہ بین الاقوامی بحث البتہ حسب توقع اس گرفتاری سے جڑے ایک اور معاملے کو بھی بیچ میں لے آئی جو آئی ایس آئی کی ایک اہم اور متنازعہ خصوصیت بتائی جاتی ہے۔

بریفنگ میں موجود صحافیوں میں سے اکثریت خالد شیخ محمد کی گرفتاری کی کارروائی کے بارے میں پہلے ہی سے جانتی تھی کہ انہیں راولپنڈی میں ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گھر جماعت اسلامی پاکستان سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک مشہور مذہبی خاندان کی ملکیت تھا۔ ان کے میزبان کا نام احمد عبدالقدوس تھا جن کی والدہ جماعت اسلامی کی ایک سرگرم رہنما تھیں۔

جس وقت بریفنگ جاری تھی تو صحافیوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سے جماعت اسلامی اور القاعدہ یا دیگر دہشت گرد گروہوں سے ممکنہ تعلق سے متعلق سوالات پوچھنے شروع کردیے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے جو بحریہ کے ایک افسر تھے، بریفنگ روم میں اس روز صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’بطور جماعت، جماعت اسلامی کا القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘

اس کارروائی کے بعد آنے والے ماہ وسال میں پاکستانی آئی ایس آئی ان دونوں متضاد تعلقات کے بارے میں اپنے قول کی سچائی برقرار رکھے رہی: ایک طرف پاکستان کے اندر امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ مل کر مشترکہ درجنوں کارروائیاں کی گئیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کے اندر مذہبی لابی (گروہوں) کے ساتھ قریبی تعلقات اور رابطے استوار رکھے۔

بہت سارے فوجی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دنوں میں ایک فوجی (ملٹری) نہیں بلکہ انٹیلی جنس (خفیہ معلومات کی) جنگ لڑی گئی۔ اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس تعاون نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان ‘انٹیلی جنس شیئرنگ’ (خفیہ معلومات کے تبادلے) کا معاہدہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے فوری بعد ہوا تھا جسے کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت فعال ہوا جب افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عناصر افغانستان سے بھاگ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ کے لیے سرگرداں تھے۔ ابتدائی برسوں میں زیادہ تر القاعدہ رہنماﺅں کو پاکستان کے بڑے شہری مراکز سے گرفتار کیا گیا۔ نائن الیون حملوں سے جڑے بڑے نام اور ملزم خالد شیخ محمد کو راولپنڈی جبکہ رمزی بن الشیبہ کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں انٹیلی جنس تعاون معاہدے پر کامیابی سے عمل درآمد اس وقت ہوا جب دونوں ممالک پاکستان کے شہری مراکز میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عناصر کا تعاقب کر رہے تھے۔ القاعدہ کے مشہور ناموں کی پاکستان کے بڑے مراکز سے گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ انٹیلی جنس شئیرنگ کا انتظام مشکلات کو نہیں بڑھا رہا تھا کیونکہ کسی قابل ذکر مزاحمت کے بغیر ہی القاعدہ عناصر گرفتار ہو رہے تھے۔

تاہم جیسے ہی انسداد دہشت گردی کی کارروائی کی توجہ کا مرکز تبدیل ہو کر قبائلی علاقے بنا تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس شئیرنگ میں عملی اور سیاسی نوعیت کی مشکلات کا سامنا کیا جانے لگا۔ عملی مشکلات کی بہترین مثالیں پاکستان حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان قبائلی علاقوں میں ہونے والے امن معاہدے تھے۔ معاہدے سے مقامی اور القاعدہ کے شدت پسندوں کے درمیان ایک تفریق پیدا ہوگئی جو ان علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ عملی سطح پر امریکی افواج پاکستانی حکام کے نکتہ نظر سے متفق نہیں تھیں۔ اس امر کی عکاسی پاکستان کے مبینہ ‘دوہرے معیارات’ کی پالیسی پر امریکی تنقید سے ہوئی۔

آئی ایس آئی کی مبینہ دوہری پالیسی اور ان مذہبی قوتوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے پر واشنگٹن خوش نہیں تھا جو خطے میں امریکہ کی موجودگی کی مخالفت کر رہی تھیں۔ یہ مبینہ رابطے اس وقت بھی جاری تھے جب واشگنٹن نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز اور وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے۔

ادھر ملک کے اندر اپوزیشن نے آئی ایس آئی اور اس کی قیادت پر سیاسی انجینئرنگ (جوڑ توڑ) کا الزام لگایا اور اپنی مدت پوری کرنے والے ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا کہ وہ 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کے پیچھے اصل منصوبہ کار اور معمار تھے۔

اس ادارے کے بارے میں ایسا کیا ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر سے اسے تنقید کا سامنا رہتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ سیاسی تناظر میں کسی بھی اغوا، قتل، دھمکی کا الزام آئی ایس آئی پر دھر دیا جاتا ہے؟ ماسوائے چین خطے کا ہر ملک کیوں سرحد پار دراندازی اور دہشت گردی کے لیے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے؟

ان سوالات کے جواب دینا آسان نہیں لیکن آئی ایس آئی کے ایک حاضر سروس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’آئی ایس آئی پاکستان کی ‘پریمئیر’ انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو خطے میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس سے باخبر ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغانستان میں امن مذاکرات ہوں تو پاکستان اس میں موجود ہوتا ہے، طالبان کابل میں حکومت بنائیں تو دنیا ہماری طرف دیکھتی ہے، افغانستان سے مغربی سفارتکاروں کے انخلا کا معاملہ ہو تو ہماری مدد درکار ہوتی ہے، آپ جس بھی معاملے کی بات کریں، اس میں ہماری اہمیت دکھائی دے گی۔‘

افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اب تک عہدے پر مدت ملازمت مکمل کرنے والے ڈی جی آئی ایس آئی نے دو بار کابل کے دورے کیے ہیں جہاں وہ سینئر طالبان رہنماﺅں سے ملے۔ اسی وقت پاکستان واشگنٹن میں افغانستان صورتحال پر مخصوص توجہ مبذول کیے امریکہ کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔

1979 سے 2021 تک کے عرصے کے دوران آئی ایس آئی افغان صورتحال اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے میں مصروف رہی۔ ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلاشبہ یہ آئی ایس آئی کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے پاکستان کو بڑے نقصان یا افغان صورتحال کے نتیجے میں آنے والے بڑے منفی اثرات سے بچایا اور گزشتہ چالیس سال کے دوران خطے میں اپنے سلامتی کے اہداف کو حاصل کیا۔‘

آئی ایس آئی کا تنظیمی ڈھانچہ

آئی ایس آئی کی بنیادی ذمہ داری ملک کی مسلح افواج کا عملی اور نظریاتی تحفظ یقینی بنانا ہے جس کا اظہار اس ادارے کے نام یعنی انٹر سروسز انٹیلی جنس سے عیاں ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی میں سویلین بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن وہ اس ادارے کے تنظمی ڈھانچے میں غلبہ یا طاقت نہیں رکھتے۔

مصنف ڈاکٹر ہین ایچ کیسلنگ نے اپنی کتاب ’آئی ایس آئی آف پاکستان‘ میں اس ادارے کا ‘آرگنائزیشنل چارٹ’ (تنظیمی خاکہ) شامل کیا ہے۔ جرمن سیاسی ماہر ڈاکٹر کیسلنگ کی اسے کتاب کے مطابق انھوں نے 1989 سے 2002 کا عرصہ پاکستان میں گزارا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں واضح کیا ہے کہ یہ ایک جدید آرگنائزیشن ہے جس کی توجہ کا بنیادی محور خفیہ معلومات جمع کرنا ہے۔ ان کے مطابق سات ڈائریکٹوریٹس اور محکموں کی متعدد پرتیں یا تہوں کے علاوہ ‘وِنگز’ (منسلک شعبے) ہیں جو کسی بھی جدید انٹیلی جنس ایجنسی کی طرح آئی ایس آئی میں بھی ہیں۔

آئی ایس آئی کے تنظیمی ڈھانچے میں فوج کا غلبہ زیادہ ہے، اگرچہ بحریہ اور فضائیہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی تنظیم کا حصہ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسلام آباد میں قائم غیر ملکی سفارت خانوں میں تعینات فوجی اتاشیوں سے رابطوں کے مرکز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح درپردہ وہ انٹیلی جنس امور پر وزیراعظم کے چیف ایڈوائزر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افواج آرمی، ائیر فورس اور نیوی میں ایک الگ انٹیلی جنس ایجنسی ہوتی ہے جس میں ملٹری انٹیلی جنس، ائیر انٹیلی جنس اور نیول انٹیلی جنس شامل ہیں جو اپنی اپنی متعلقہ فوج کے لیے ضروری معلومات جمع کرتی اور فرائض بجا لاتی ہیں۔

آئی ایس آئی اور ان افواج کی ہر متعلقہ انٹیلی جنس ایجنسی کے امور کار میں کبھی کبھار ایک ہی قسم کی معلومات بھی اکٹھی کر لی جاتی ہیں کیونکہ سب ہی فوجی پیش رفت پر نظر رکھتی ہیں اور دشمن کی چالوں اور حرکتوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ لیکن فوج کی ترکیب میں دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مقابلے میں آئی ایس آئی سب سے بڑی، سب سے زیادہ مؤثر اور طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی سمجھی جاتی ہے۔

آئی ایس آئی ملک میں سب سے بڑی اور وسیع انٹیلی جنس ایجنسی تصور ہوتی ہے لیکن اس میں افرادی قوت کتنی ہے، اس بارے میں مقامی میڈیا یا غیر سرکاری شعبے میں کوئی تخمینہ یا اندازے دستیاب نہیں ہیں۔ آئی ایس آئی کے بجٹ کو کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا تاہم واشنگٹن میں قائم فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی کئی برس پہلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق ’آئی ایس آئی میں دس ہزار افسران اور سٹاف ممبر ہیں، جن میں مخبر اور اطلاع دینے والے افراد شامل نہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ چھ سے آٹھ ڈویژنز پر مشتمل ہے۔‘

‘کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز’

فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کا ‘آرگنائزیشنل ڈیزائن’ (تنظیمی نقشہ) بنیادی طور پر اسے ‘کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز’ (جوابی خفیہ کارروائیوں) پر توجہ مرکوز کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسی بناتا ہے۔ لیکن اس کی کیا وجہ ہے؟

بریگیڈئیر (ر) فیروز ایچ خان وہ افسر تھے جنہوں نے پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں کلیدی عہدوں پر فرائض انجام دیے اور Eating Grass کے عنوان سے کتاب تصنیف کی۔

بریگیڈئیر (ر) فیروز ایچ خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کے تیسرے آمر جنرل ضیا الحق کو افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت نے پریشان کر دیا تھا۔ اس پریشانی کے پیچھے بڑی وجہ بلاشبہ یہ حقیقت کارفرما تھی کہ طاقت کے نشے میں بدمست عالمی قوت ہمارے ملک کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں کارٹر انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی فوجی اور مالی مدد اطمینان کا ذریعہ تھی لیکن فوجی آمر کے لیے امریکی پیشکش ایک اور طرح کی پریشانی کا باعث تھی۔ امریکی مدد پاکستان کی معیشت کو توانا کرے گی اور فوجی استعداد کار میں اضافہ کرے گی لیکن دوسری طرف امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کے لیے زیادہ معلومات اور پاکستان کے اندر نگرانی کی سرگرمیاں درکار ہوں گی جس سے پاکستان کے قومی راز محفوظ رکھنے کی مشکل درپیش آسکتی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور آئی ایس آئی سربراہ تقرری کا نوٹیفیکشن جاری

پاکستان میں آئی ایس آئی سربراہ کی تقرری موضوعِ بحث کب اور کیوں بننا شروع ہوئی؟

ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری اور قانون: کیا اس عمل میں وزیر اعظم کو نظرانداز کیا گیا؟

اسد درانی:سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت مگر ملک کے لیے نقصان دہ

بریگیڈئیر فیروز لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا نے پاکستان میں امریکہ کے خفیہ معلومات جمع کرنے کی کارروائیوں کو ‘نیوٹرائلائز’ (بے اثر) کرنے اور کاؤنٹر انٹیلی جنس کے شعبے میں پاکستان انٹیلی جنس سروسز کی استعداد کار بڑھانے اور اسے ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’اس کا مطلب انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے کاؤنٹر انٹیلی جنس وِنگ کے لیے فراخدلانہ بجٹ کی فراہمی تھا۔‘

ان دنوں امریکی انٹیلی جنس آپریشن زیادہ تر پاکستان کے خفیہ جوہری پروگرام سے متعلق تھے۔ دوسری جانب افغان جنگ کے نتیجے میں مغربی انٹیلی جنس کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد میں مستقل بنیادوں پر خیمہ زن ہوچکی تھی۔ اس وقت کی فوجی حکومت نے حالات کے تقاضے کے تحت پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز کو اس انداز سے تشکیل دیا کہ اس کی توجہ کا بنیادی محور ‘کاؤنٹر انٹیلی جنس’ آپریشنز تھا۔

فوجی اصلاحات کی تشریح سے متعلق لغت میں ‘کاؤنٹر انٹیلی جنس’ کا مطلب کچھ یوں دیا گیا ہے: کاؤنٹر انٹیلی جنس معلومات کا حصول اور غیرملکی حکومتوں، غیر ملکی تنظیموں، غیر ملکی افراد یا بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں یا ان کی ایما پر عناصر کی طرف سے کی جانے والی جاسوسی، دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں، سبوتاژ یا قتل کر دینے کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے کی جانے والی سرگرمیاں ہیں۔‘

فیروز ایچ خان کے نکتہ نظر کے مطابق جنرل ضیا الحق پاکستان کی انٹیلی جنس سروس آئی ایس آئی کی نقشہ سازی کے معمار تھے، وہ ایک ایسے انداز میں کاؤنٹر انٹیلی جنس کو چلانا چاہتے تھے جو دیگر تمام انٹیلی جنس سے بڑھ کر ہو یا اسے دیگر پر فوقیت و برتری حاصل ہو۔ لہذا پاکستان انٹیلی جنس سروسز کے ڈھانچے کا خاکہ وضع کیا گیا تاکہ وہ ترقی کرے، نشوونما پائے اور شفاف انداز میں آگے بڑھتی جائے اور اس کی اضافی توجہ ملک کے اندر اور باہر کاؤنٹر انٹیلی جنس پر مرکوز ہو۔

فیروز ایچ خان نے لکھا کہ ’ضیا الحق کے پاس آگے بڑھنے کی راہ قلیل تھی لیکن انہیں داؤ لگانا تھا۔ جوہری معاملے کو سفارت کاری سے کم کیا جاسکتا تھا اور امریکی انٹیلی جنس کے ذریعے معلومات کے حصول میں خطرات موجود تھے، اس مسئلے کو بہتر کاؤنٹر انٹیلی جنس سے حل کیا جاسکتا تھا۔‘

مطلوب ترین افراد کا پوسٹر

یکم مارچ 2003 کو آئی ایس آئی کے دو درجن اہلکاروں نے راولپنڈی کے ایک گھر سے خالد شیخ محمد کو گرفتار کیا تھا

‘جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلی جنس بیورو’

آج تک آئی ایس آئی کے اندر ڈائریکٹوریٹس کاؤنٹر انٹیلی جنس کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں جسے ‘جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلی جنس بیورو’ (مشترکہ جوابی خفیہ کارروائیوں کے بیورو) کے نام دیا گیا ہے، جو سب سے بڑا ڈائریکٹوریٹ ہے۔

جرمن پولیٹیکل سائنٹیسٹ ڈاکٹر ہین جی کیسلنگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ‘ایکسٹرنل'(بیرونی امور) ‘جے سی آئی بی’ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس کی ذمہ داری بیرون ملک تعینات پاکستانی سفارت کاروں کی نگرانی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، چین، افغانستان اور سابق سویت وسط ایشیا کی نو آزاد ریاستوں میں انٹیلی جنس آپریشن کرنا ہے۔‘

‘جوائنٹ کاؤنٹر انٹیلی جنس بیورو’ (جے سی آئی بی) کے چار ڈائریکٹوریٹس ہیں جن میں سے ہر ایک کو ایک الگ ذمہ داری تفویض ہے، اے) ایک ڈائریکٹر غیرملکی سفارت کاروں اور غیرملکیوں کی فیلڈ نگرانی کو سنبھالتا ہے، بی) ایک اور ڈائریکٹر بیرون ملک سیاسی انٹیلی جنس (معلومات) جمع کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، سی) تیسرے ڈائریکٹر کی ذمہ دادری ایشیائ یورپ اور مشرق وسطی میں انٹیلی جنس (معلومات) کا حصول ہے، ڈی) چوتھا ڈائریکٹر انٹیلی جنس امور میں وزیراعظم کے معاون کے طورپر خدمات انجام دیتا ہے۔ یہ ڈائریکٹوریٹ آئی ایس آئی کا سب سے بڑا ڈائریکٹوریٹ ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں خود آئی ایس آئی اہلکاروں کی نگرانی بھی شامل ہے جبکہ سیاسی سرگرمیوں کا حساب رکھنا بھی ہے۔ یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور خطوں میں موجود ہے۔’

آئی ایس آئی میں دیگر ڈائریکٹوریٹس

ڈاکٹر ہین کیسلنگ کی کتاب کے مطابق ’آئی ایس آئی کا دوسرا بڑا ڈائریکٹوریٹ بلاشبہ جوائنٹ انٹیلی جنس بیورو (جے آئی بی) ہے جو حساس سیاسی موضوعات سے متعلق ہے، اس میں سیاسی جماعتیں، مزدور یونینز، افغانستان، انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں اور وی آئی پی سکیورٹی شامل ہے۔‘

جے آئی بی بیرون ملک پاکستان کے فوجی اتاشیوں اور فوجی مشیروں سے متعلق امور کار اور مناصب کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔

ڈاکٹر کیسلنگ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جوائنٹ انٹیلی جنس نارتھ (جن) جموں وکشمیر کا ذمہ دار ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری انٹیلی جنس (معلومات) جمع کرنا ہے۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’اسے جموں وکشمیر میں انٹیلی جنس جمع کرنے کی بھی ذمہ داری تفویض ہے۔ یہ کشمیری عسکریت پسندوں کو سبوتاڑ اور تخریبی سرگرمیوں کی تربیت، اسلحہ وبارود اور سرمایہ فراہم کرتا ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان پر کسمیری عسکریت پسندوں کی مدد کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔

ڈاکٹر کیسلنگ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ‘جوائنٹ انٹیلی جنس میسی لی نئیس’ (متفرق) یورپ، امریکہ، ایشیائی اور مشرق وسطیٰ میں جاسوسی پر مامور ہے اور ایجنٹس (جاسوسوں) کے ذریعے ’آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز سے براہ راست یا پھر اپنے بیرون ملک تعینات افسران کی مدد سے بالواسطہ طورپر رازداری سے خفیہ معلومات جمع کرتا ہے۔ یہ اپنی جارحانہ کارروائیاں کرنے کے لیے تربیت یافتہ جاسوس انڈیا اور افغانستان میں استعمال کرتا ہے۔‘

’دراڑیں‘

ضیاالدین بٹ

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاالدین بٹ نے ایک سال تک ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر فرائض سرانجام دیے

ایک ریٹائرڈ سینئر فوجی افسر کے کے مطابق آئی ایس آئی پاکستان آرمی کے سائے میں کام کرتی ہے جو بے تحاشہ فوجی قوت فراہم کرتی ہے۔ تاہم ان کے مطابق ان کے تعلقات کار میں بعض اوقعات ’دراڑیں‘ بھی دیکھی گئی ہیں جو ماضی میں نمایاں ہوکر سامنے آئیں۔ اسی ریٹائرڈ سینئر فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’فوجی ماہرین مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 12 اکتوبر1999 کی بغاوت نواز شریف حکومت کے خلاف تو تھی ہی لیکن یہ آئی ایس آئی کی آرگنائزیشن کے خلاف بھی تھی جو بظاہر اپنے ڈی جی (لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاالدین بٹ) کے ساتھ تھی جسے اس وقت کے وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف (بری فوج کا سربراہ) تعینات کر دیا تھا۔‘

ریٹائرڈ سینئر فوجی افسر کے مطابق دوسری مرتبہ یہ ’دراڑ‘ اس وقت نظر آئی جب مشرف دور میں آئی ایس آئی نے اپنا میڈیا وِنگ شروع کردیا تھا جس نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کیے۔

ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘آئی ایس آئی کا میڈیا وِنگ بعض اوقات خودمختار اور آزادانہ انداز میں کام کرتا ہے اور اس مقصد کے بالکل برعکس ہوتا ہے جو آئی ایس پی آر ک ررہا ہوتا ہے۔ میڈیا پر اس وِنگ کے دباﺅ کا آئی ایس پی آر کے دباﺅ کے ساتھ متوازی اثر مرتب ہو رہا ہوتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments