معذور خواتین ،لڑکیوں اور بچیوں پر تشدد کے خلاف قانونی تحفظ کی ضرورت


ایک محتاط اندازے کےمطابق پورے ملک میں افراد باہم معذور ی کی تعداد 31 ملین ہے ۔اور ان میں خواتین ،لڑکیاں اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے بھی اچھی خاصی تعدادمیں  موجود ہیں   لیکن بدقسمتی سے ان تمام خواتین ،لڑکیوں اور بچیوں کو نہ صرف گھر بلکہ معاشرے کی سطح پر مختلف تشدد کا سامنا رہتا ہے، وسیع قانونی تحفظ کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں انصاف کے حصول میں کافی مشکلات رہتی ہیں ۔2006 میں   اقوام متحدہ  نے باہم معذور  افراد   کے حقوق  کی فراہمی کے لیے ایک  کنونشن   اختیار کیا جسے یو این کنونشن  برائے  باہم معذور افراد  کا نام دیا  گیا ۔2011 میں حکومت پاکستان  نے اس  کنونشن کی توثیق  کی  جو ملک  اس  کنونشن کی  توثیق  کر لیتا ہے اس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے  ملک میں افراد باہم معذوری کے لیے قانون سازی کرے یا پھر پہلے سے موجود  افراد باہم معذوری کے قوانین میں اس کنونشن کے مطابق تبدیلی  لائے   تاکہ افراد باہم معذور کے حقوق کے تحفظ کو یقینی  بنایا  جا سکے۔

وسیع قانونی تحفظ کی عدم دستیابی کی وجہ سے  ان خواتین ،لڑکیوں اور بچیاں  جنہیں کوئی معذوری ہے انہیں نہ صرف گھر کی سطح پر تشدد کا سامنا رہتا ہے بلکہ معاشر ے میں  بھی وہ جسمانی اور زہنی اذیت سے گزرتی ہیں ۔ان پر تشدد کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جائیں جس سے یہ ہر قسم کےتشدد سے محفوظ ہو سکیں ۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مانیٹرنگ کا نظام  نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین ،لڑکیاں اور بچیاں جنہیں کسی بھی سطح کی معذوری ہے  گھر کی سطح  پر جسمانی اور زہنی تشدد کا شکار رہتی ہیں  اور بعض صورتوں میں ان کا خیال  رکھنے والے بھی ان پر تشدد کرتے ہیں ۔تشدد صرف  جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے جیسے ان کی جسمانی اور ذہنی استطاعت کا احترام نہ کیا جانا اور ان کا مذاق اڑانا ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ،معاشرے میں ان کی قبولیت کا کم ہونا،تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرنا ، ان کی صحت کا خیال نہ رکھنا ،علاج معالجہ کی  بہتر سہولیات فراہم نہ کرنا ،ان کو یہ محسوس کروانا کہ وہ کسی سے کم ہیں  یہ تمام چیزیں ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں اور یہ زہنی تشددہے ۔وسیع قانونی عدم تحفظ کی وجہ سے  یہ خواتین اور لڑکیاں  وراثتی جائیداد سے محروم کر دی جاتی ہیں بعض صورتوں میں والدین ان کے خاندان بنانے کے حق سے صرف اس وجہ سے محروم کر دیتے ہیں کہ کہیں وراثتی جائیداد نہ دینی پڑ جائے ۔ ان خواتین  اور لڑکیوں کو کام کی جگہوں پر ہراسانی اور زہنی تشدد کا سامنا رہتا ہے،صحت  اور بحالی کے مراکز میں انکے  ساتھ امتیازی سلوک کیا  جاتا ہے ،معاشرے میں خود مختارانہ زندگی گزارنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔گھر سے لے کر معاشرے کی سطح تک فیصلہ سازی میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا ۔کسی بھی ناگہانی آفت میں ان خواتین ،لڑکیوں  اور بچیاں جنہیں کوئی معذوری ہے  کومکمل  نظر انداز کیا جاتا ہے  جیسے اس کرونا وباء کے دوران  انہیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ۔انہیں کھیلوں  اور ثقافتی سرگرمیوں میں شامل نہ کرنا  انکے  اندر احساس  محرومی  کو بڑھا  دیتا ہے اور یہ نفسیاتی  طورپر  مکمل  تنہائی  میں چلی جاتی  ہیں ۔ان کی احساس  محرومیوں  کا ازالہ صرف  اسی صورت میں ہو  سکتا ہے کہ  ریاست  ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے مؤثر قانون سازی کرے اور انکے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔سیاسی جماعتوں کو اپنے منشورمیں ان کے حقوق کی فراہمی کو شامل  کرنا  چاہیے  ان کے لیے مخصوص نشستوں  میں سے ایک نشست مختص  کرنی چاہیے  تاکہ   یہ خواتین اپنے حقوق کے لیے قانون سازی کی راہ ہموار کر سکیں  اور قانون بن جانے کی صورت میں اس پر عمل درآمد کروا سکیں ۔

صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں افراد باہم معذوری کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت ذیادہ ہے تاہم صوبائی سطح پر کوئی ایسا ایکٹ موجود نہیں جو ان خواتین ،لڑکیوں اور بچیوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنا سکے ۔تا ہم سندھ حکومت نے 2018میں افراد باہم معذور ی  ایمپاورمنٹ  ایکٹ پاس کیا   جس میں ان خواتین ، لڑکیوں  اور بچیوں  کے خلاف کسی بھی سطح کے تشدد  کے خاتمہ کو یقینی بنایا گیا۔ اس طرح   حال ہی میں افراد باہم معذوری کےحقوق کے تحفظ اور فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹیری  ایکٹ برائے  حقوق ،افراد باہم معذوری پاس کیا  جس سے اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹیری میں رہنے والے تمام افراد باہم معذوری اس ایکٹ کے تحت اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں ۔افراد باہم معذوری کے حقوق کی فراہمی  اور انہیں معاشرے میں ایک بہتر زندگی گزارنے اور اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے مواقعوں کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کو چاہئے کو وہ قانون سازی کریں اور ایک جامع پالیسی بنائیں  تاکہ  یہ افراد باہم معذوری خاص طور پر ایسی خواتین ،لڑکیاں اور بچیاں  جنہیں کسی بھی طرح کی معذوری ہے وہ ہر قسم کے تشدد،ناانصافی  اور کسی بھی ابتر صورتحال سے محفوظ ہو سکیں اور اس طرح صوبائی سطح پر یہ ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہے   وہ  سندھ اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹیری  ایکٹ کی طرز کا ایکٹ پاس کرے اور صوبہ کی سطح پر ان خواتین لڑکیوں اور بچیوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے  تاکہ یہ  خواتین ،لڑکیاں اور بچیاں   تشدد سے پاک      ماحول میں بہتر صحت  کے        ساتھ باعزت زندگی گزار سکیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments