غیر آئینی اقدامات پر جشن جلد ماتم میں تبدیل ہو جاتا ہے


ملک کی بھاری اکثریت کے نزدیک موجودہ حکومت ہر لحاظ سے ناکام رہی ہے۔ جن انتخابات کے ذریعہ یہ حکومت بر سر اقتدار آئی اس کے نتائج متنازعہ تھے۔ اقتصادی طور پر ایک کے بعد دوسری ناکامی اس کا مقدر بنی۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کہ مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ روپے کی تنزلی رکنے میں نہیں آ رہی۔ جب بھی ملک میں کوئی بحران کھڑا ہوا تحریک انصاف کی قیادت کوئی متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکی۔ احتساب کے نام پر صرف ایک طوفان برپا کیا گیا۔ آپ کو شاید ہی کوئی شخص ملے جو کہ یہ سمجھتا ہو کہ یہ حقیقی معنوں میں بدعنوان عناصر کا احتساب ہو رہا ہے۔ خارجہ پالیسی اتنی خراب رہی کہ پوری دنیا میں پاکستان کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔ صوبائی حکومتیں بھی ڈھنگ کی کارکردگی نہ دکھا سکیں۔ اور تو اور اس حکومت کو مناسب ترجمان بھی میسر نہ ہو سکے۔ بجائے اپنا مضبوط بیانیہ پیش کرنے کے صرف صحافیوں سے دست و گریبان ہونے کو ہی کافی سمجھا گیا۔ اور اب تو ایک صفحہ پر ہونے کا دعوی ٰبھی ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔

بہت سے صحافی اور تبصرہ نگار برملا طور پر مسکرا کر کسی غیر آئینی اقدام کا ذکر کر رہے ہیں۔ جس کے ذریعہ اس حکومت کو چلتا کیا جائے۔ اور کسی اور پارٹی کو حکومت کرنے کا موقع عطا ہو گا۔ لیکن کیا اس قسم کے حالات پہلی مرتبہ پیدا ہوئے ہیں؟ پاکستان کی ساری تاریخ میں اس قسم کے حالات بار بار پیدا ہوتے رہے ہیں جب سولین حکومت کو عوام کا دشمن اور ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

صرف ایک مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت کو بھی غیر آئینی قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ کہا جا رہا تھا کہ حکومت نے دھاندلی کے نتیجہ میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت بھی مہنگائی کا رونا رویا جا رہا تھا۔ اس دور میں بھی صحافت پر قطعی غیر ضروری پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ اس وقت بھی اپوزیشن ایسے ہی الزامات لگا رہی تھی جس طرح آج کی اپوزیشن لگا رہی ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کہ بھٹو صاحب کی حکومت نے اپوزیشن کے خلاف غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے تھے۔ آخر کار 5 جولائی 1977 کو ملک میں غیر آئینی قدم اٹھا کر مارشل لاء لگا دیا گیا۔

خاکسار کو کچھ کچھ یاد ہے کے ملک بھر میں مختلف گروہوں نے شادیانے بجا کر مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا۔ ایک روز قبل تک پاکستان ٹائمز میں یہ خبر شائع ہو رہی تھی کہ لوگ بھٹو مخالف اتحاد یعنی قومی اتحاد کے رویے پر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ لیکن 6 جولائی کو پاکستان ٹائمز نے ہی یہ خبر شائع کی کہ جب لوگوں کو یہ خبر ملی کہ فوج نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے تو انہوں نے چین کا سانس لیا۔ اور تو اور بچے بھی اس خبر پر بہت خوش ہیں اور کاروباری طبقہ نے بھی مارشل لاء کے نفاذ کا خیر مقدم کیا ہے۔ اور لوگوں کو بھرپور یقین ہے کہ جنرل ضیاء صاحب وقت پر انتخابات کرا دیں گے۔ اور لوگ جنرل صاحب کی تقریر کی اسلامی طرز سے بہت خوش ہو رہے ہیں۔

ہر روز اخبار میں یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ انتخابات کرانے کی بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جنرل صاحب کی تقریر شائع ہو رہی تھی کہ پاکستان کے لئے جمہوریت بہت ضروری ہے۔ اب بیلٹ پیپر تیار ہو گئے ہیں۔ اب نئے قواعد بن گئے ہیں اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گیا ہے تا کہ سب کو یقین آ جائے کہ اسی سال اکتوبر میں انتخابات ہو جائیں گے۔

اور تو اور بھٹو صاحب کے مخالف سیاستدان جن میں قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور صاحب بھی شامل تھے قوم کو بھرپور یقین دلا رہے تھے کہ ضیاء صاحب اپنے وعدے پورے کریں گے اور انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جائیں گے۔ ان کا یہ بیان بھی شائع ہوا کہ ضیاء صاحب نے یقین دہانی دلائی ہے کہ پریس کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہو گی، بس صرف کسی پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان تسلیوں کو کیا انجام ہوا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ [پاکستان ٹائمز 30 جولائی 1977]

ایسے لیڈر بھی مارشل لاء کے حق میں بیانات دے رہے تھے جن کے متعلق کبھی گمان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ مارشل لاء کے حق میں بیان دے سکتے ہیں۔ خان عبد الغفار خان صاحب بر صغیر کی سیاست کا ایک محترم نام ہیں۔ خان عبد الغفار خان صاحب نے گورنر بلوچستان کے توسط جنرل ضیاء صاحب کو ایک خط لکھا اور اس میں انہوں نے اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ جنرل ضیاء صاحب نے مارشل لاء لگا کر بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا ہے۔ اور جنرل ضیاء صاحب سے اپیل کی کہ ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے۔ اور اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر عمل کیے بغیر نہیں پنپ سکتا۔ [جنگ 22 جولائی 1977]

بھٹو صاحب کی مقبولیت سے خائف ہو کر غیر مقبول سیاستدان کڑے احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حنیف رامے صاحب جو بعد میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے مطالبہ کر رہے تھے کہ بھٹو صاحب پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ مسلم لیگ کے سردار شوکت حیات صاحب یہ راگ الاپ رہے تھے کہ بد کردار سیاستدانوں کو انتخابات کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ [نوائے وقت 17 اگست 1977]

کبھی تصویریں شائع ہوتیں کہ ضیاء صاحب فیڈرل سکریٹریٹ میں خطاب فرما رہے ہیں، کبھی تصویریں شائع ہوتیں کہ چیف مارشل لء ایڈمنسٹریٹر اخبارات کے مدیران کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے ہیں۔ شاید ذمہ دار صحافت پر بھاشن دے رہے تھے۔ جنرل ضیاء صاحب کی جمہوریت سے والہانہ وابستگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہوں نے ایک تقریر میں یہ بیان داغا کہ جمہوریت کی جانب سفر ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے۔ جو اس راہ میں روڑے اٹکائے گا اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ [پاکستان ٹائمز 16 اگست 1977] انہوں نے درست فرمایا تھا۔ قوم گیارہ سال تک مسلسل یہ سفر کرتی ہی رہی۔ اور رہی منزل تو وہ تو اب تک نہیں ملی۔

کئی اہم اخبارات ضیاء صاحب کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر رہے تھے۔ نوائے وقت نے جنرل ضیاء صاحب کی تقریر پر تبصرہ کے لئے کئی اقساط میں ایڈیٹوریل شائع کیا۔ جس کا عنوان تھا ”اسلام کے سپاہی کا عزم“ ۔ یہ ایڈیٹوریل تھا کہ ظل سبحانی کی شان میں قصیدہ۔ اس میں سب سے پہلے یہ ذکر کیا گیا تھا کہ ضیاء صاحب ملک میں فوری انتخابات کرانے کے لئے پر عزم ہیں۔ [نوائے وقت 8 جولائی 1977]

یہ تو چند جھلکیاں ہیں جو کہ پیش کی گئی ہیں۔ ورنہ ضیاء صاحب کے دور کے آغاز میں بہت سے حلقے شادیانے بجا رہے تھے۔ لیکن انجام کیا ہوا۔ آخر کار قومی اتحاد کی سیاسی پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ضیا صاحب کے خلاف تحریک چلانی پڑی۔ صحافیوں کو کوڑے کھانے پڑے۔ اور سارے ملک کو گیارہ سال طویل رات سے گزرنا پڑا اور ہاتھ میں سوائے پچھتاووں کے کچھ نہیں آیا۔

ان خام خیالیوں کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت بھٹو صاحب کے مخالفین ان کی مخالفت کے جذبے سے اتنے مغلوب ہو چکے تھے کہ وہ اس مخالفت کے زیر اثر یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ غیر آئینی اقدامات کبھی بھی ملک بلکہ ملک کے کسی طبقے کے لئے سود مند نہیں ثابت ہوتے۔ یہ لوگ بھٹو صاحب کی مخالفت ضرور کرتے اور پورے زور سے کرتے لیکن مارشل لاء کی حمایت کر کے انہوں نے اپنے لئے اور ملک کے لئے مصیبتوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔ اسی طرح جو تبصرہ نگار آج کسی غیر آئینی قدم کا ہنس ہنس کر ذکر کر رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں تاریخ کی عدالت میں آٹھ آٹھ آنسو رونا پڑے۔ عمران خان صاحب کے مخالفین ان کی حکومت کو ہٹانے کے لئے ضرور کوششیں کریں، یہ ان کا حق ہے لیکن یہ کوششیں جمہوری روایات کی حدود میں رہ کر کی جائیں گی تو ہی مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments