کراچی کا ’قوال بچہ‘ گھرانہ: کراچی کی قوال گلی کے قوال، جنھوں نے سات صدارتی ایوارڈ اپنے نام کیے


قوال
فجر کا وقت، گہرے بادل اور ہلکی پھوار

رات کی تاریکی سے پھوٹتی پو کا دلکش نظارہ

اور خاموش فضاؤں میں گھلتے سر

یہ منظر ہے کراچی کے قدیم گارڈن کے علاقے میں واقع ایک دس منزلہ عمارت کی چھت کا، جہاں علی الصبح نوجوان قوال احمد صامی اپنے بڑے بھائی عروج صامی سے گائیکی کی تعلیم لے رہے ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی عظیم صامی طبلے پر سنگت کر رہے ہیں۔

احمد صامی کہتے ہیں کہ ’ہم نے جو خیال گایا ہے وہ راگ گوجری توڑی میں تھا، یہ بندش تان راس صاحب کی بندش مانی جاتی ہے، جو تین تال میں ہے اور بعد از نماز فجر، صبح کا جو پہلا حصہ ہوتا ہے، وہ خاص وقت ہے اس راگ کا۔‘

احمد صامی بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال نصیرالدین صامی کے بیٹے ہیں۔ احمد اور ان کے تین بڑے بھائی بھی اپنے والد کی طرح قوال ہیں۔

وہ اپنا تعلق دلی کے قدیم ’قوال بچہ‘ گھرانے سے بتاتے ہیں۔

قوال بچہ گھرانہ اس کو کہا جاتا ہے جن کا تعلق براہ راست برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر حضرت امیر خسرو سے بنتا ہے۔

احمد کہتے ہیں کہ ان کے خاندان میں قوالی سیکھنے کی تربیت کا سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

’ہم نے اپنے بچپن سے اپنے کانوں میں جو آوازیں پڑتی سنیں، وہ ہمیں بھا گئیں۔ پندرہ، بیس سال سے پوپ اور راک (میوزک) ایک رواج میں آ گیا ہے جو اچھی بات ہے لیکن جو چیز ہمیں قوالی سے حاصل ہوئی وہ شاید ان دونوں اصناف میں نہیں اور اس دور میں جو کہ پوپ اور راک کا ہی دور ہے، قوالی کا ایسے ماحول میں قائم ہونا بھی ایک بہت بڑی بات ہے۔‘

صامی برادران اور پاکستان اور انڈیا مین بسنے والے چند قوال بچہ گھرانوں میں سے ایک ہیں۔

قوال

لیکن احمد صامی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا گھرانہ، برصغیر میں بسنے والے دیگر قوال بچہ گھرانوں میں اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

تقریباً ایک گھنٹہ کھلے آسمان تلے، ہلکی پھوار اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ریاضت کے بعد عقبی کمرے میں ہمارے ساتھ گرما گرم حلوہ پوری کا ناشتہ کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ’ہمارا شمار دلی کے قوال بچہ گھرانوں میں ہوتا ہے جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا تعلق حضرت امیرخسرو سے ہے۔‘

’یہ قوالی جو ہے ہمارے پاس ساڑھے سات سو سال سے ہے، اور یہ دین ہے حضرت امیرخسرو کی۔ ان کے ایک واحد شاگرد جن کا نام میاں صامت ہے، دنیا انھیں صامت بن ابراہیم کے نام سے جانتی ہے۔ جن کو حضرت امیرخسرو نے خیال اور قوالی دونوں کی تعلیم دی۔ ان کے ذریعے گائیکی کی یہ دو اصناف سینہ بہ سینہ یہاں تک پہنچیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ دونوں اصناف ایک ساتھ برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر میں کسی بھی اور قوال گھرانے کے پاس نہیں ہیں۔ ہمارے ہی گھرانے سے یہ علم گائیکی آئندہ نسلوں کو بھی منتقل ہوتا رہے گا۔‘

قوالی کی جائے پیدائش

برصغیر پاک و ہند میں قوالی کی ابتدا خانقاہوں اور درگاہوں سے ہوئی جہاں پہلے بغیر میوزک کے سادہ انداز میں محفل سماع ہوا کرتی تھیں۔ تاریخ دانوں کایہ ماننا ہے کہ ساز و راگ کے ساتھ محفل سماع میں جدت حضرت امیر خسرو 17ویں صدی میں لائے تھے۔

وہ برصغیرکی مشہور صوفی ہستی حضرت نظام الدین اولیا کے شاگرد تھے۔ اسی وجہ سے حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کو قوالی کی ’جائے پیدائش‘ کہا جاتا ہے۔

قوال

قوالی کا دلی سے کراچی تک سفر

پاکستان میں قوالی کی آمد لگ بھگ 1940 کے عشرے میں ہوئی تھی جب پہلے قوال استاد کلن خان دلی سے ہجرت کر کے کراچی کے علاقے گارڈن میں آ کر ایک ’جھگی‘ میں آباد ہوئے تھے۔

ان کے پیچھے پیچھے دیگر چار قوال، جن میں نصیرالدین صامی، منشی رضی الدین، منظور نیازی اور بہاؤالدین شامل ہیں، وہ بھی گارڈن کے ہی علاقے میں واقع ’میگھ جی بھگوان جی‘ سٹریٹ میں آ کر بس گئے۔

تقسیم ہندوستان کے وقت مزید پچیس کے قریب قوالوں کے خاندان سنہ 1950 میں گارڈن کے ہی علاقے میں آ کر جھگیوں میں بس گئے۔

یہ بھی پڑھیے

لسوڑی شاہ کا نصرت، نصرت فتح علی خان کیسے بنا

برطانوی بینڈ کولڈ پلے کا امجد صابری کو خراج عقیدت

بڑے غلام علی خان: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فنکار پاکستان چھوڑ کر انڈیا کیوں چلے گئے تھے

یہ خاندان اپنا تعلق انڈیا کے شہروں دلی، حیدرآباد دکن، اسکندر آباد، اترولی، ہاپوڑ وغیرہ سے بتاتے ہیں۔

1990 کی دہائی میں اس جگہ کے مالک نے قوالوں کی جھگیوں کو اپنی زمین سے ہٹایا تو اس وقت کی حکومت نے ان قوالوں کو میگھ جی بھگوان جی سٹریٹ میں آباد کر دیا۔

یوں میگھ جی بھگوان جی سٹریٹ کا نام ’قوال گلی‘ پڑ گیا۔

قوال

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ’قوال بچہ گھرانوں‘ کی سب سے بڑی آبادی کراچی کی اس قوال گلی میں آباد ہے۔ جہاں پر نسل در نسل قوالی سکھانے اور گانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اگرچہ دنیا کے نقشے پر شاید قوال گلی کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے لیکن یہاں پر رہنے والے قوال حضرات کم و بیش آدھی دنیا میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

احمد صامی فخر سے بتاتے ہیں کہ ’قوال گلی پاکستان کی واحد آبادی ہے جہاں چھوٹے سے علاقے میں سات صدارتی ایوارڈ (قوالوں نے حاصل کیے) ہیں۔‘

اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس علاقے کی ایک شاہراہ اور پانچ گلیوں کو چھ مشہور قوالوں کے نام سے منسوب کیا۔

انھی گلیوں سے گزرتے ہوئے احمد صامی اپنی برادری کے بزرگوں کو سلام کرتے اور نوجوانوں سے مصافحہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قوال گلی میں رات کے اوقات میں کسی گھر سے ریاضت کی آواز گونجتی ہے تو کہیں طبلے کی تھاپ سننے کو ملتی ہے۔

’قوال گھرانوں کے افراد رات کو جاگتے اور دن کو سوتے ہیں کیونکہ سماع کی محفلیں شام کے اوقات میں منعقد کرائی جاتی ہیں جو اکثر و بیشتر رات گئے تک یا علی الصبح تک جاری رہتی ہیں۔‘

گذشتہ تین دہائیوں میں جیسے جیسے قوال حضرات کے معاشی حالات بہتر ہوتے گئے ویسے ویسے اس علاقے میں بوسیدہ گھروں کی جگہ کثیر المنزلہ فلیٹس تعمیر ہو گئے۔

اگرچہ قوال گلی کراچی میں واقع متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی دیگر آبادیوں کی طرح ہی گنجان آباد ہے لیکن علاقہ کے مکین کہتے ہیں کہ ان کی برادری کے افراد کے رہن سہن کا طریقہ دیگرعلاقوں سے منفرد ہے۔

ایک تنگ زینے پر چڑھتے ہوئے ہم ایک چھوٹے سے دو منزلہ مکان کی بالائی منزل پر پہنچے جہاں قوال سہیل خسرو نظامی ہارمونیم پر ریاضت میں مصروف تھے جبکہ ان کا چار سال کا بھانجا محمد حسین خاموشی سے ان کے پاس چٹائی پر بیٹھا ان کی گائیکی سن رہا تھا۔

عقب میں ایک طرف چاندی کا پان دان جبکہ دوسری طرف اگال دان رکھے ہوئے ہیں۔

سہیل خسرو نظامی بتاتے ہیں کہ ’یہاں ساٹھ سے ستر کے قریب خاندان آباد ہیں جو ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہم پیشہ بھی ہیں اور آپس میں رشتہ داربھی۔‘

قوال برادری کے رہن سہن کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اس (قوال) گلی میں ادب و آداب بہت ہیں جو دیگر محلوں میں نہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا قوال حضرات کو تخت پر بٹھاتے تھے اور خود نیچے بیٹھے تھے اور پھر خود ان کو چھوڑنے کے لیے جاتے تھے۔‘

قوال

قوال اور قصائی ہمسائیوں کی ہم آہنگی

قوال گلی کا کلچر بہت ہی دلچسپ ہے۔ یہاں ایک طرف قوال اور دوسری طرف قصائی (جو قریشی برادری ہے) تین دہائیوں سے ایک ساتھ، ایک ہی محلے میں رہ رہے ہیں۔

دن کے وقت قوال گلی میں ایک طرف قوالوں کے گھروں سے ہارمونیم و طبلے کی تھاپ پر مدھرراگ و الاپ کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں جبکہ دوسری طرف گلیوں میں گوشت کی دکانوں پر چھریاں اور بگدے چلنے کی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں۔

مشہور قوال مرحوم بہاؤالدین کے بیٹے ظفیر بہاؤالدین سے قوال گلی میں ایک سنوکر کی دکان کے باہر ملاقات ہوئی جہاں وہ ایک قصائی کی دکان پر بیٹھے دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھے۔

جب ان سے حال احوال پوچھا گیا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ ایک سال سے ان کا اور ان کے دوست قوالوں کا زیادہ تر وقت سنوکر کی دکانوں پر گزر رہا ہے کیونکہ جب سے حکومت نے کورونا کی وبا کی روک تھام کی غرض سے عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی ہے تب سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔‘

قوالوں اور قصائیوں کے ہمسائیگی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک منفرد امتزاج ہے کہ ایک طرف حساس طبیعت رکھنے والے فنکار رہتے ہیں تو دوسری طرف انھی کے درمیان قصاب بھی رہتے ہیں جو طبیعتاً سخت مزاج رکھتے ہیں۔‘

دونوں برادریوں کا نہ صرف پیشہ بلکہ زندگی کے شب و روز گرانے کا انداز بھی ایک دوسرے کے برعکس ہے۔ مثلاَ قصائی دن کو مزدوری کرتے اور رات کو سوتے ہیں جبکہ قوال رات بھر ریاضت اور فنکشنز کرتے ہیں اور دن کے وقت سوتے ہیں۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا دونوں برادریوں میں کوئی تنازع ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ بھی عادی ہو گئے ہیں اس لیے وہ ہمارے پیشے کی وجہ سے تنگ نہیں ہوتے۔‘

قوالی عام طور پر مرد حضرات کا پیشہ ہے، معاشرتی طور پر گھرانوں کی خواتین کے قوالی گانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور اسی لیے پاکستان اور انڈیا میں خواتین صرف ثنا خواں اور نعت خواں تک خود کو محدود رکھتی ہیں۔

قوال سہیل خسرو کہتے ہیں کہ ان کی برادری میں معاشرتی طور پرخواتین کے قوالی گانے کی حوصلہ افرائی نہیں کی جاتی تاہم وہ مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ہماری برادری کی ایک بڑی دلچسپ رسم ہے کہ یہاں جب کسی کی شادی ہوتی ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اسے اپنی شادی کے موقع پرخود گانا گانا ہوتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی شادی کے موقع پر گانا نہ گائے تو وہ کہتے ہیں کہ ’اگروہ نہ گائے تو اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا دولہا یا دولہن دونوں اس موقع پر کچھ نہ کچھ ضرور گنگناتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments