خواتین کی صحت: ٹیلی ہیلتھ کلینکس کی سہولت بلوچستان میں خواتین کی کیسے مدد کر رہی ہے؟


ٹیلی ہیلتھ
ٹیلی ہیلتھ سروسز کے ذریعے تاحال 14 اضلاع میں ماہر ڈاکٹروں کی خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں
’ہمارے علاقے کی ایک عورت جو حاملہ تھی، ایک دن اس کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور اس کا بہت زیادہ خون بھی بہہ رہا تھا تو اس کو کوئٹہ کے ہسپتال لے جا رہے تھے لیکن وہ کوئٹہ بھی نہ پہنچ سکی۔‘

’میں یہ سب دیکھ کر بہت ڈر گئی تھی کہ جب میرا وقت آئے گا تو میرے ساتھ کیا ہو گا کیونکہ یہاں ٹیلی ہیلتھ سروس سے پہلے ایسی کوئی سہولیات نہیں تھیں لیکن اب ٹیلی ہیلتھ سروس کی وجہ سے ہم بہت مطمئن ہو گئے ہیں۔‘

یہ الفاظ ہیں شادی کے چھ سال بعد پہلی بار ماں بننے کے مرحلے سے گزرنے والی 22 برس کی عطرہ قادر کے، جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ کی دور دراز اور پسماندہ تحصیل کردگاپ کی رہائشی ہیں۔

جب عطرہ قادر ہم سے اپنے علاقے میں دستیاب صحت کی سہولیات کے حوالے سے بات کر رہی تھیں تو اس وقت وہ اپنا معائنہ کروانے کے لیے ٹیلی ہیلتھ کلینک میں اپنی والدہ کے ہمراہ موجود تھیں۔ یہ کلینک ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔

وہ کہتی ہیں ’جب یہاں آتے ہیں اور باجی امبرین سے بات کرتے ہیں، پھر ہم سکرین پر ڈاکٹروں سے ملتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی فائدہ ہوا کہ یہاں خاتون سٹاف موجود ہے جن سے ہم اپنی ہر بیماری آسانی سے بلا جھجک کہہ سکتے ہیں۔‘

عطرہ قادر بلوچستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں اس علاقے کی پسماندگی کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی کا بچپن سے ہی سامنا رہا ہے۔

شادی کے بعد جب انھیں حمل ٹھہرنے میں پریشانی کا سامنا رہا تو انھیں مستند اور ماہر ڈاکٹر سے علاج کے لیے شوہر کے ساتھ کوئٹہ شہر کے ہسپتال جانا پڑا تھا لیکن دو گھنٹے سے زیادہ کی مسافت نہ ان کے لیے آسان تھی اور نہ ہی ہر ماہ سو کلومیٹر کا طویل سفر کرنا سہل تھا۔

ٹیلی ہیلتھ

عطرہ قادر بلوچستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں اس علاقے کی پسماندگی کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی کا بچپن سے ہی سامنا رہا

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارا علاقہ پسماندہ ہے اور اگر کوئی بیمار پڑتا ہے تو علاج کروانے کے لیے بہت دور جانا پڑتا ہے یعنی کوئٹہ یا مستونگ جو یہاں سے دو سے تین گھنٹے کا سفر ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے اور بروقت گاڑی نہ ملے تو کبھی مریض راستے میں وفات پا جاتے ہیں اور اگر ہمارے مرد ساتھ نہیں ہوتے پھر سفر بھی نہیں کر سکتے۔‘

بلوچستان میں ٹیلی ہیلتھ سروسز کے پیچھے سوچ کیا تھی؟

اس سے پہلے کہ ہم عطرہ قادر کی کہانی کو مزید آگے بڑھائیں، پہلے مختصراً اس علاقے کا پس منظر جان لیتے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے وسیع رقبے میں زیادہ تر آبادی دور دراز علاقوں میں رہتی ہے۔ ان علاقوں میں نہ صرف پسماندگی کے باعث مکینوں کو صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے بلکہ قبائلی نظام اور پردے کی سخت روایات کے باعث خواتین کا اپنے گھر کے مردوں کے بغیر سفر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

کسی بیماری کی صورت میں علاج کے لیے بعض اوقات کئی سو کلومیٹر کا سفر کر کے شہر جانا پڑتا ہے جس دوران مریض کی حالت بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے۔

بلوچستان کے 33 اضلاع میں بنیادی صحت کے مراکز تو قائم ہیں لیکن ان میں مستند ڈاکٹروں کی عدم دستیابی مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود محکمۂ صحت کے لیے بھی چیلینج ہے۔ ایسے میں بنیادی صحت کے لیے قائم بلوچستان کے ادارے پی پی ایچ آئی نے جولائی 2020 میں ٹیلی ہیلتھ سروس کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔

منصوبے کے تحت مختلف اضلاع میں ٹیلی ہیلتھ کلینک بنائے گئے اور انھیں سیٹلائٹ کے ذریعے اسلام آباد کے ماہر کنسلٹنٹ ڈاکٹرز کے ساتھ منسلک کیا گیا تاکہ مرض کی تشخیص اور علاج ان کے اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹیلی میڈیسن: پاکستان میں شادی شدہ خواتین ڈاکٹروں کا گھر بیٹھے روزگار کمانے کا ذریعہ

پاکستان میں حاملہ خواتین کا بڑا مسئلہ ’اینیمیا‘ کیوں ہے اور اس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟

ناتجربہ کار ڈاکٹر خواتین میں فسٹیولا کا مرض پھیلانے کی وجہ؟

ٹیلی ہیلتھ

’خاتون عملے کی وجہ سے اپنی بیماری بلا جھجک بتاتے ہیں‘

جب ہم ضلع مستونگ کی تحصیل میں واقع ٹیلی ہیلتھ کلینک پہنچے تو وہاں خواتین سمیت بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی موجود تھے۔ مریض خواتین وہاں تعینات لیڈی ہیلتھ وِزیٹر اور میڈیکل ٹیکنیشن امبرین نصیر کے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔

امبرین یہاں آنے والی ہر خاتون مریض کا بلڈ پریشر، درجہ حرارت اور وزن چیک کر کے مریض سے متعلق معلومات کمپیوٹر پر درج کر رہی تھیں جبکہ دیوار پر لگی ایک بڑی سکرین پر ٹیلی ہیلتھ سروس سینٹر اسلام آباد میں موجود ڈاکٹر سنیتا دکھائی دے رہی تھیں۔

وہ امبرین کی بھیجی گئی مریض کی معلومات دیکھ کر ان سے مزید تفصیلات جان رہی تھیں اور ادویات سے متعلق ہدایات دے رہی تھیں۔

سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ تمام خواتین براہوی زبان میں اپنی تکالیف بیان کر رہی تھیں اور امبرین یہ گفتگو روانی کے ساتھ ڈاکٹر کو ترجمہ کر کے بتا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مریض کو ڈاکٹر کی ہدایات سے مقامی زبان میں آگاہ کر رہی تھیں۔

عطرہ قادر جب ڈاکٹر سنیتا گِل سے ورچوئل معائنہ کروا کے فارغ ہوئیں تو ہمیں خاصی مطمئن دکھائی دیں۔ ہمارے سوال پر عطرہ نے ہمیں بتایا کہ کوئٹہ اور مستونگ تک ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے جانا انھیں تھکا دیتا تھا اور صحیح سے علاج بھی نہ ہو پاتا تھا تاہم جب انھوں نے پچھلے سال اپنے علاقے میں بننے والے ٹیلی ہیلتھ کلینک میں باقاعدگی سے علاج کروایا تو شادی کے چھ سال بعد بلآخر وہ حاملہ بھی ہو گئیں اور اب وہ اپنا اور ہونے والے بچے کی صحت کا معائنہ کروانے باقاعدگی سے ٹیلی ہیلتھ کلینک آتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’ٹیلی ہیلتھ کی وجہ سے میں نے جب باقاعدہ اپنا علاج کروایا تو میں حاملہ بھی ہوئی اور اب بھی یہاں علاج کروانے آتی ہوں اور یہیں پر الٹرا ساؤنڈ وغیرہ سب ہوتا ہے۔ اس سہولت کی وجہ سے میں ناصرف مطمئن ہوں بلکہ میرے گھر والے بھی بہت خوش ہیں۔ علاقے کے سارے لوگ اب یہاں پر علاج کرانے آ رہے ہیں۔‘

ٹیلی ہیلتھ

ریکارڈنگ کر کے نجانے کیا کرنا چاہتے ہیں؟

میڈیکل ٹیکنیشن امبرین نصیر نے ہمیں بتایا کہ ’شروع شروع میں لوگوں کو سمجھانے میں کافی مشکل ہوتی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھا ڈاکٹر یہاں بیٹھے مریضوں کو دیکھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کی ریکارڈنگ کر کے نجانے کیا کرنا چاہتے ہیں لیکن اب لوگ سمجھ چکے ہیں۔‘

میڈیکل ٹیکنیشن امبرین نصیر کا مزید کہنا تھا کہ وہ ’جن حاملہ خواتین یا دیگر مریضوں کا سی ٹی سکین کرتے ہیں وہ سکین اسلام آباد میں موجود ڈاکٹر براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی خواتین آئیں جو تولیدی مسائل سے دوچار تھیں اور اب یہاں سے علاج کروا کے حاملہ ہوئی ہیں اور ان کامیاب مثالوں سے ہم پر لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے۔‘

ٹیلی ہیلتھ

صوبے کے باقی اضلاع میں اس سروس کا آغاز جنوری 2022 تک متوقع ہے

مقامی ڈاکٹروں سے علاج میں ہچکچاہٹ

بنیادی صحت کے لیے قائم حکومت بلوچستان کے ادارہ پی پی ایچ کے سربراہ اسفندیار بلوچ کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 کے اوائل سے شروع کی گئی ٹیلی ہیلتھ سروسز اس وقت صوبے کے 14 اضلاع میں موجود ہیں جبکہ جنوری 2022 تک اس کا دائرہ کار مزید دس اضلاع تک بڑھایا جا رہا ہے۔

اسفندیار بلوچ کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں قبائلی روایات اور قدامت پسندی کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اکثر خواتین اپنے علاقے کے ڈاکٹر کے ساتھ اپنا مرض یا تکلیف بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں جبکہ ٹیلی ہیلتھ کے سسٹم میں آن لائن موجود ڈاکٹر سے ان کو بات چیت میں جھجھک کم محسوس ہوتی ہے۔‘

’اس طرح بہت سی خواتین میں بچے کی پیدائش سے قبل یا بعد میں ہونے والے ایسے چھوٹے مسائل ،جو نظر انداز کر دیے جانے کے باعث بعد میں پیچیدہ ہو سکتے ہیں، ان (آن لائن) او پی ڈیز میں سامنے آ جاتے ہیں جس سے یقینی طور پر خواتین کی تولیدی صحت میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔‘

مستونگ کی تحصیل کردگاب سے واپس کوئٹہ پہنچنے کے سفر کے دوران کہیں اونچی نیچی ناہموار اور کہیں یک رویہ سڑک پر تیز رفتار ٹریفک کے بہاؤ کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ حمل کے دوران معمول کے چیک اپ کی سہولت اپنے علاقے میں ملنے پر عطرہ قادر کے چہرے پر اطمینان بے جا نہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments