انڈیا سے سرحدی کشیدگی کے بیچ متعارف کروایا جانے والا چین کا نیا سرحدی قانون کیا ہے؟
چین کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے، نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کی ایک قائمہ کمیٹی نے قومی سطح پر ایسا پہلا قومی قانون منظور کر لیا ہے جس میں چین کے 14 ہمسایہ ممالک سے ملنے والی 22 ہزار کلومیٹر طویل سرحد کی حفاظت اور سکیورٹی کی تفصیلات طے کی گئی ہیں۔
لینڈ بارڈر قانون جس میں ’سرحدی سلامتی کو مربوط، مضبوط، محفوظ اور مستحکم‘ کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، یکم جنوری 2022 سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
نیا قانون چینی فوج کی سرحدوں کے سلامتی کے انتظامات، ہمسائیوں کے ساتھ تنازعات طے کرنے، سرحدوں کو بند کرنے کے اختیارات اور غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کے خلاف سرحدی پولیس کے اختیارات کو ایک باقاعدہ رسمی شکل دیتا ہے۔
نیا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ قومی اور علاقائی حکومتیں چین کے بین الاقوامی دریاؤں اور جھیلوں کی حفاظت کرنے اور ان کے آبی ذخائر کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کی پابند ہوں گی۔
چینی میڈیا نے اس قانون کی یہ کہتے ہوئے کافی حمایت کی ہے کہ اس کے نتیجے میں انڈیا کے ساتھ جاری حالیہ سرحدی تنازعے سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کا ایک قانونی ڈھانچہ قائم ہو جائے گا۔
قانون ہے کیا؟
چین کی سرکاری خبر رساں ادارے ژِنہُوا کے مطابق 23 اکتوبر کو این پی سی کی قائمہ کمیٹی نے لینڈ بارڈر قانون کو منظور کیا تھا۔
سات ابواب میں کل 62 شقوں کے ساتھ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ’چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت مقدس اور ناقابل تسخیر ہیں۔‘
یہ قانون اس بات پر زور دیتا ہے کہ چین ’علاقائی سالمیت اور زمینی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرے گا، اور کسی بھی ایسی کارروائی کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرے گا جس سے علاقائی خودمختاری اور زمینی سرحدوں کو نقصان پہنچے۔‘
یہ قانون نافذ کرنے والے افسران کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے لوگوں کے خلاف پولیس کو آلات اور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، خاص کر اگر غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے افراد پولیس پر جسمانی حملہ کرتے ہیں، گرفتاری کے خلاف مزاحمت یا کوئی ایسی پرتشدد کارروائی کرتے ہیں جس سے لوگوں یا املاک خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
چین سرحد کو بند کرنے اور ملک کی خودمختاری کے دفاع کے لیے مختلف تنصیبات اور سہولیات بھی تعمیر کر سکتی ہے۔
نئے قانون کا مقصد؟
چینی سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ کے مطابق نئے قانون کا مقصد انڈیا کے ساتھ گذشتہ سترہ ماہ سے جاری سرحدی تنازعے کے پس منظر میں قومی سلامتی کو بہتر بنانا ہے۔
دونوں ممالک نے جون 2020 سے گلوان وادی میں ہونے والے مہلک تصادم کی وجہ سے اس خطے میں اپنی اپنی افواج کی تعداد بڑھا دی ہے۔ اس تصادم میں فریقین کے فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
چین کی زمینی سرحد 14 ممالک سے ملتی ہے جن میں افغانستان، بھوٹان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، لاؤس، منگولیا، میانمار، نیپال، شمالی کوریا، پاکستان، روس، تاجکستان اور ویت نام ہیں۔ اس وقت انڈیا اور بھوٹان کی سرحد ایک متنازع علاقہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا، چین فوجی ٹکراؤ کتنا سنگین؟
‘کیا انڈیا چین کے جال میں پھنس چکا ہے؟’
لداخ: وہ علاقہ جس پر خلیفہ ہارون الرشید کی بھی نظر تھی
چینی فوج پر ’کیل لگی آہنی سلاخوں‘ کے استعمال کا الزام، ’دس انڈین فوجی رہا‘
14 اکتوبر کو چین نے بھوٹان کے ساتھ سرحدی مذاکرات کو تیز کرنے کے لیے سہ قدمی نقشہِ راہ پر مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے، جب کہ انڈیا کے ساتھ سرحدی کشیدگی اب بھی جاری ہے۔
چینی اور انڈین فوجی کمانڈروں نے 10 اکتوبر کو سرحدی تعطل کو طے کرنے کے لیے بات چیت کا تازہ ترین دور منعقد کیا تھا، لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، دونوں فریقوں نے بات چیت کی ناکامی کا ایک دوسرے پر الزام لگایا۔
چینی حکام نے کہا کہ بھارت نے ’غیر معقول اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پر اصرار کیا، جس سے مذاکرات میں مشکلات پیدا ہوئیں۔‘ ہندوستان نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ‘چینی فریق (انڈیا سے) متفق نہیں تھا اور کوئی مستقبل کی تجویز پیش نہیں کر سکا تھا۔‘
ردِّعمل کیا ہے؟
چین کے نیشنل ڈیفنس اخبار کے ذریعے چلائے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘بیدو’ پر چلائے جانے والے ‘پائیتو جنشی’ نامی اکاؤنٹ پر پوسٹ ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ‘موقع پرست اور جارحانہ پالیسیاں’ اپنانے کی کوشش کی، تاکہ چین کی سرحد پر امن کو بار بار خراب کیا جائے۔
اس آرٹیکل میں مزید کہا گیا کہ ‘لینڈ بارڈر قانون کے متعارف ہونے سے ہمارے فوجی اور عام شہریوں کو قانونی طریقے سے دشمن کا مقابلہ کرنے اور قومی خودمختاری کا مضبوط دفاع کرنے کے لیے بہتر اعتماد حاصل ہوا ہے۔’
چینی حکومت کے اخبار گلوبل ٹائمز کے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون نے غیر ملکی میڈیا کی خاصی توجہ حاصل کر لی ہے، خاص طور پر بھارت کی، جو اس بات اشارہ دیتا ہے کہ وہ فکر مند ہیں کہ نیا قانون کن ممالک کو ہدف بناتا ہے۔
این پی سی کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک اہلکار گاؤ جنلو نے سرکاری خبر رساں ادارے، چائنا نیوز سروس کو بتایا کہ نیا قانون سرحد سے متعلقہ معاملات کے انتظام کے لیے ایک معیاری قانونی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔
انڈیا کے ایک انگریزی اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ نے تبصرہ کیا کہ یہ قانون چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کے ساتھ مل کر کام کرے، جیسے سرحد کے ساتھ تبت کے دیہی علاقے جو انڈیا، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ چین کے لیے دفاع کی پہلی لائن کا کردار ادا کرتے ہیں۔
دریں اثنا، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے ایک مضمون نے لکھا گیا ہے کہ یہ قانون طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے سنکیانگ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں یا اسلامی انتہا پسندوں کی ممکنہ آمد کے بارے میں بیجنگ کے خدشات کی عکاسی کرتا ہے، نیز اس کے ہمسایہ ممالک میں کووِڈ 19 کی وبا بھی بڑھ رہی ہے جس کی چین میں آنے کے امکانات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا بھی ضروری ہیں۔
آئندہ کیا ہو سکتا ہے؟
لینڈ بارڈر قانون یکم جنوری سنہ 2022 سے نافذالعمل ہو گا۔
نئے قانون کے متعارف ہونے اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ فوجی مذاکرات کی ناکامی سے چین، انڈیا سرحد پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
19 اکتوبر کو ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی فوج کے قریبی ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ چین نے انڈیا کے ساتھ اپنی سرحد پر 100 سے زیادہ جدید طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ لانچرز تعینات کیے ہیں۔
اسی دوران انڈیا کی مشرقی فوج کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل منوج پانڈے نے کہا کہ ملک مستقبل میں سٹریٹجک سطح پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ فوجیوں کے انتظام سے متعلق چین کے ساتھ پروٹوکولز پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).