تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ: کیا حکومت کا رینجرز کے ذریعے ٹی ایل پی سے نمٹنا ہی بہترین راستہ ہے، اس فیصلے کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟


پولیس و رینجرز
ایک جانب جہاں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے لانگ مارچ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر رہی ہے وہیں حکومت اس لانگ مارچ کو ’ملک دشمن سازش‘ قرار دیتے ہوئے رینجرز کے نیم فوجی دستے تعینات کرنے جیسے اقدامات لے رہی ہے۔

اگر ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کا دریائے جہلم کو عبور کرنے کی کوشش میں رینجرز سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو آیا جانی و مالی نقصان ہو گا یا کسی بھی وقت فریقین کے درمیان باہمی گفت و شنید سے کوئی مفاہمت کا راستہ نکالا جائے گا۔ اس بات کا فی الحال واضح جواب دینا کافی مشکل ہے۔

یہ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اگر رینجرز اور ٹی ایل پی کارکنوں میں خونریز تصادم ہو تو کیا یہاں بھی لال مسجد کے خلاف کی گئی کارروائی جیسے اثرات مرتب ہوں گے۔

حکومت کے اپنے دعوے کے مطابق، ٹی ایل پی کی اس طرح کے لانگ مارچ یا دھرنوں کی یہ چھٹی کوشش ہے۔ اس سے قبل ہر مرتبہ ٹی ایل پی کے دھرنے کو روکنے یا ختم کروانے کے لیے حکومتِ وقت پسپائی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔

ویسے تو ٹی ایل پی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ سنہ 2017 کے فیض آباد دھرنے پر کیا تھا لیکن اس کا قیام سنہ 2015 میں ہوا تھا اور اسے شہرت اس وقت ملی تھی جب اس نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل کانسٹیبل ممتاز حسین قادری کی سزائے موت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔

اس وقت ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی تھے۔

سنہ 2017 کے فیض آباد دھرنے کے موقع پر وفاقی حکومت نے فوج کو ٹی ایل پی کے خلاف تعینات کرنے کا حکم جاری کیا تھا لیکن اس وقت فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فوج کو استعمال کرنے سے پہلے دیگر سول اقدامات کا جائزہ لے جس کے بعد یہ دھرنا فوج کے ضامن بننے کی وجہ سے ختم ہوا تھا۔

اب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹی ایل پی کے خلاف سخت انتظامی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ اس تنظیم کو عالمی سطح پر ایک ’عسکریت پسند‘ تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے۔

بظاہر ان کا اشارہ اقوام متحدہ اور اور یورپی یونین کی جانب تھا جو اپنے طور پر بھی کئی مذہبی شدت پسند تنظیموں پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں۔

تحریک لبیک

پس منظر

اس برس اپریل میں جب ٹی ایل پی کے دھرنے کو ختم کروانے کے لیے مذہبی امور کے وزیر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے پر راضی ہوئے تھے تو اس معاہدے پر یورپی یونین نے تنقید کی تھی۔ فرانس نے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا جس پر پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا تھا۔

اس کے بعد یورپی پارلیمنٹ نے اپنی ایک قرارداد میں پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورپی یونین کے رکن ممالک اور ان کے نمائندوں کا احترام کرنے اور پاکستان میں مقیم یورپی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے غیر مبہم عزم کا اظہار کرے۔

اسی دوران پاکستان میں ٹی ایل پی نے ایک اور تحریک کا آغاز کیا تھا جس پر ان کے موجودہ رہنما سعد حسین رضوی کو امن عامہ میں نقص ڈالنے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ موجودہ لانگ مارچ اب فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سعد رضوی کی رہائی کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔

اسی دباؤ کی وجہ سے حکومت مجبور ہے کہ وہ کسی بھی طرح ٹی ایل پی کے لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے کی کوشش کرے۔ تاہم ایک تجزیہ کار کی نظر میں حکومت کا رینجرز کے ذریعے حل محض ایک ایڈہاک نوعیت کا ہو گا، مگر اس کے مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔

رینجرز کی تعیناتی

پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی نئی بات نہیں ہے۔ سنہ 2016 میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے رینجرز کے دستوں کو اس وقت جنوبی پنجاب میں تعینات کیا تھا جب پنجاب پولیس ‘چھوٹو گینگ’ کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔

اس مرتبہ وفاقی وزارا نے کہا ہے کہ رینجرز کو پنجاب میں آئین کی دفعہ 147 کے تحت تعینات کیا گیا ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ پنجاب حکومت کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی شق پانچ کے استعمال کا بھی اختیار دے دیا گیا ہے جس کے تحت نیم عسکری اداروں کو ’دہشتگردی‘ کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آئین کی دفعہ 147 کے مطابق کسی صوبے کی حکومت، وفاقی حکومت کی رضامندی سے یا تو مشروط یا غیر مشروط طور پر، وفاقی حکومت یا اس کے افسران کو کوئی ایسا معاملہ سونپ سکتی ہے جس پر صوبائی حکومت کا اپنا انتظامی اختیار بنتا ہے۔

ٹی ایل پی اور لال مسجد

اس بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ لال مسجد اور ٹی ایل پی میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ اول الذکر القاعدہ اور طالبان جیسی شدت پسندی (جسے دہشت گردی کہا جاتا تھا) اور خود کش حملوں پر یقین رکھتی تھی، جبکہ موخرالذکر کے حامی صرف سڑکوں پر پُرتشدد ہنگامے کر سکتے ہیں۔

ان کے مطابق لال مسجد کے لوگ القاعدہ جیسی تنظیموں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خطرناک تھے اور ان کے ایجنڈے کو عوامی تائید حاصل نہیں تھی اس لیے انھوں نے کبھی رائے عامہ کا خیال بھی نہیں کیا، جیسا کہ آج کل دولتِ اسلامیہ کی صورتحال ہے۔

عامر رانا کے مطابق دوسری طرف ٹی ایل پی کی سیاسی مقبولیت ایک ایسے نعرے پر ہے جو عوام میں بہت مقبول ہے یعنی ختمِ نبوت۔

ان کے مطابق عام لوگ ٹی ایل پی کو پسند نہ بھی کریں، تب بھی وہ اس نعرے کے حامی ہیں، کیونکہ پاکستان میں حکومت بھی اپنی سیاست ’ریاستِ مدینہ‘ جیسے مقبول نعرے پر کر رہی ہے۔

عامر رانا کے مطابق ’ٹی ایل پی کے رہنما مذاکرات بھی کر سکتے ہیں اور مفاہمت بھی کر سکتے ہیں تام یہ جتنے کامیاب ہوں گے ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا، اور ان کے ووٹوں کی تعداد کی وجہ سے عوامی مزاج میں بھی شدت پسندی بڑھے گی۔ اس لیے اس تحریک کو جلد یا بدیر کسی نہ کسی کو ختم کرنا ہو گا۔‘

خادم رضوی

’کارروائی کی قیمت پی ٹی آئی کو دینا ہو گی‘

عامر رانا کا خیال ہے کہ اگر رینجرز اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران خون خرابہ ہوتا ہے تو اس کے سنگین سیاسی مضمرات ہوں گے۔ ’اگر الیکشن ہوا تو پی ٹی آئی کو ایک بڑا سیاسی دھچکا لگے گا اور اسے اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘

عامر رانا کہنا ہے تھا کہ ’میرے نزدیک فی الحال یہ نظر آتا ہے کہ عسکری ادارے ’آن بورڈ‘ نہیں ہیں۔ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ چاہے تمام ادارے ایک پیج پر بھی آ جائیں، سیاسی قیمت بہرحال پی ٹی آئی کو ہی ادا کرنی پڑے گی۔ دیگر سیاسی جماعتیں اس کارروائی کے اثرات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کریں گی۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ ایسی مذہبی تحریکوں کا کبھی بھی کوئی پُرامن حل نہیں ہوتا، کسی نہ کسی کو سخت کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ ’آپ احرار یا خاکسار تحریکوں کو دیکھ لیں، یہ سب مقبول نعروں پر شروع کی گئی تھیں اور کامیابی کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ پرتشدد ہوتی گئیں۔ بالآخر انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی نے ختم کیا تھا۔‘

محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ ‘اس کے علاوہ ان کا کوئی حل نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکومت کو اور انتظامیہ کو سخت کارروائی کرتے وقت ایسا ماحول ضرور بنانا چاہیے اور تاثر ضرور دینا چاہیے جس سے ٹی ایل پی مظلومیت کے کارڈ کھیلنے سے محروم ہو جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لال مسجد واقعے میں دراصل 92 افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن میڈیا اور پراپیگنڈا کی وجہ سے ایسا تاثر بنا کہ آج بھی کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس لیے اب رینجرز کے استعمال کے وقت کم سے کم جانی نقصان کو یقینی بنایا جائے۔‘

سنگین سیاسی مضمرات

سول ملٹری تعلقات کے امور کے تجزیہ کار اور اقراء یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسین بھٹی کہتے ہیں کہ رینجرز یا کسی بھی انتظامی اقدام سے ٹی ایل پی کے قضیے کو حل کرنے کی کوشش توقعات کے برعکس نتائج دے سکتی ہے۔

ان کے خیال میں اب بھی بات چیت ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت کے لیے اس صورتحال سے نکلنے کا کیا راستہ ہے تو انھوں نے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے فوجی ذرائع کا زیادہ استعمال معاشرے میں، اور خاص طور پر ٹی ایل پی کی صفوں میں مزید تشدد کے فروغ کا باعث بنے گا۔

’مجھے خدشہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے سول اداروں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، فوج ہی آخری حربہ ہو گی اور پھر اس کے ساتھ اس کے اپنے مضمرات ہوں گے۔‘

تحریک لبیک

سیاسی اثرات

گذشتہ عام انتخابات کے نتائج کے مطابق ٹی ایل پی ووٹوں کے لحاظ سے پانچویں اور مذہبی فالوئنگ کے لحاظ سے سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسین کے مطابق اگر حکومت نے اس کے خلاف پرتشدد کارروائی کی تو اس کے سیاسی اثرات سب کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔

’حکومت کو ٹی ایل پی سے بات کرنے کے لیے تمام مکتبہ فکر کے علما پر مبنی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ وہ اس لانگ مارچ کو ترک کر دیں کیونکہ یہ ملک کے مفادات کے خلاف ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’آپریشن کے حق میں سماجی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے میڈیا کا استعمال بھی ہونا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پنجاب میں رینجرز تعینات، تحریکِ لبیک سے ’عسکریت پسند‘ گروہ کے طور پر نمٹنے کا اعلان

فرانسیسی سفیر کے بےدخلی کا مطالبہ پورا کرنا مشکل ہے، باقی مطالبات پر اتفاق ہے: شیخ رشید

’مذہبی لوگوں سے ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے، مقدمات واپس ہوں گے اور شیڈول فور کا جائزہ لیں گے‘

تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے احکامات سپریم کورٹ میں چیلنج

جنرل فیض اور ٹی ایل پی

اس سوال کے جواب میں کہ کیا موجودہ تعطل سے باہر نکلنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی پرامن راستہ ہے، سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمد ضیاالدین زور دے کر کہتے ہیں کہ اس وقت کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔

صحافی محمد ضیاالدین نے دعویٰ کیا کہ ’اسے (ٹی ایل پی کو) جی ایچ کیو نے فیض حمید کی آئی ایس آئی کے ذریعے مسلم لیگ کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنایا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان اور شیخ رشید نے اس دور میں ٹی ایل پی کی حمایت کی تھی۔ فیض آباد پل خالی کرنے کے لیے ٹی ایل پی کے قبضے سے فیض آباد جنکشن کو خالی کرانے کے لیے مسلم لیگ کی حکومت کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ ٹی ایل پی کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرے۔‘

ایم ضیاالدین کے مطابق ’اسی موقع پر فیض حمید اُس معاہدے کا ضامن بنے تھے اور لاہور کور کمانڈر نے ٹی ایل پی کے رہائی پانے والے کارکنوں میں سرِعام رقم تقسیم کی تھی۔‘

ضیاالدین کے مطابق ’سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل پی ایم ایل این کے ووٹ بینک میں شگاف ڈالنے کے لیے ٹی ایل پی کو ایک جائز سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔‘

پولیس

اپنے قد سے بڑی ٹی ایل پی

سینیئر صحافی ضیاالدین کہتے ہیں کہ ’پچھلی بار جب وہ سڑکوں پر نکلے تو حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ہٹانے سمیت کئی ناممکن کاموں کا وعدہ کر کے انھیں مطمئن کیا۔

’آج شیخ رشید نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے سفیر گویا پاکستان میں نہیں ہیں، یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ اگر سفیر یہاں ہوتے تو وہ انہیں ہٹا دیتے!‘

ضیاالدین کہتے ہیں کہ ‘اس وقت پولیس ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ رینجرز کے پاس قانونی طور پر زیادہ فائر پاور اور بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ قانونی طاقت ہے۔

’کراچی میں بھی ایم کیو ایم شہر کو رینجرز کے حوالے کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس ناکام ہو چکی تھی۔‘

ٹی ایل پی کے خلاف رینجرز کا استعمال اور سول ملٹری تعلقات

تجزیہ کار ڈاکٹر اعجاز حسین بھٹی کے بقول ٹی ایل پی کے خلاف رینجرز کے ذریعے پرتشدد کارروائی کے منفی اثرات سول-ملٹری تعلقات پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس لیے ان کا مشورہ ہے کہ ’سول حکومت کو چاہیے کہ وہ فوجی حکام پر زور دے کہ وہ اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں۔ ورنہ یہ ایک بار پھر ناکام ہو سکتا ہے۔ یہ ایک نازک موڑ ہے جسے سول حکومت خود نہیں سنبھال سکتی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر سول حکومت رینجرز کے ذریعے فوجی ذرائع اور وسائل استعمال کرنے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے، اور فوج بطور ادارہ اس میں شامل نہیں ہوتا، تو یہ مارشل لا کا بھی سبب بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ایسا ہی ’ہم نے سنہ 1977 میں بھٹو حکومت کے ساتھ دیکھا تھا۔‘

بہرحال موجودہ دور کے مذہبی رجحانت اور انتہا پسندی نہ صرف شدت پسند عسکری تنظیموں میں بدرجہ اُتّم ہے بلکہ عام معاشرے میں بھی بہت زیادہ سرایت کر چکی ہے۔ ان حالات میں کسی بھی حکومت کے لیے بحث اور مباحثوں کے ماحول کی گنجائش پیدا کرنا کافی مشکل ہے۔

ڈاکٹر اعجاز حسین بھٹی کہتے ہیں کہ موجودہ کشیدگی کے سول-ملٹری تعلقات پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی تحقیق کے مطابق چار عوامل میں اتار چڑھاؤ مارشل لا کے امکانات کو جنم دیتے ہیں: اول گورننس، دوئم معیشت، سوئم اندرونی اور بیرونی خطرات (سلامتی)، اور چہارم جمہوری اداروں کا استحکام۔

ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں ان چاروں عوامل کی کارکردگی بہت ہی نچلی سطح پر ہے، امن و عامہ کی حالت مخدوش ہے، معیشت میں مہنگائی ہے، ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں اور خطے میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں۔

’اس لیے ضروری ہے کہ حکومت سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر مذاکرات پر بھروسہ کرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments