انڈیا میں ’ڈاکوؤں کا راجہ‘ کہلانے والے ملکھان سنگھ کے ہتھیار ڈالنے کی کہانی


سنہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں انڈین فوٹوگرافر پرشانت پنجیار نے انڈیا کی وسطیٰ ریاست کے بنجر علاقوں کا سفر کیا اور ملک کے مشہور ڈاکوؤں کے حالاتِ زندگی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔

زیادہ تر ڈاکو ریاست مدھیہ پردیش کے چمبل نامی علاقے میں رہتے تھے اور زیادہ تر کارروائياں انھی علاقوں میں کرتے تھے۔ اس علاقے کو عالمی ایوارڈ یافتہ مصنف پال سلوپیک نے ’نو گو زون‘ قرار دیا تھا یعنی ایسے علاقے جہاں جانا انتہائی خطرناک ہو۔ اس کا سبب انھوں نے اس طرح بیان کیا تھا کہ یہ ’ٹھگوں، ڈاکوؤں، قاتلوں، غنڈوں سے بھرا ہوا اوبڑ کھابڑ پہاڑیوں اور ریتیلی ندیوں کی سرزمین ہے۔‘

مہینوں کی کوششوں کے بعد فوٹوگرافر پرشانت پنجیار اور اُن کے دو صحافی ساتھی مئی 1982 میں چمبل میں ملکھان سنگھ سے ملنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہی ملکھان سنگھ جو انڈیا میں ’ڈاکوؤں کا راجہ‘ کے نام سے مشہور تھے۔

اس سے ایک سال قبل ایک خاتون انڈین ڈاکو پھولن دیوی اس وقت شہ سرخیوں میں آئی تھیں جب انھوں نے اپنے گینگ ریپ کا بدلہ لینے کے لیے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر 22 اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

لیکن چمبل میں ملکھان سنگھ اور اُن کے گینگ کا سب سے زیادہ خوف تھا۔ وہ پیدل سفر کرتے تھے اور گھاٹیوں میں عارضی کیمپوں میں رہتے تھے۔ یہ گھاٹیاں کھڑی پہاڑیوں کے درمیان گہری اور تنگ گھاٹیاں میں واقع تھیں۔

ملکھان سنگھ کے بطور ڈاکو 13 سالہ طویل دور کے دوران ان کے گینگ میں 100 سے زیادہ ڈاکو شامل تھے۔ سنہ 1982 تک پولیس نے اس گروہ کے خلاف 94 مقدمات درج کیے تھے، جن میں ڈکیتی، اغوا اور قتل جیسے جرائم شامل تھے۔

اطلاعات کے مطابق خود ملکھان سنگھ کو پکڑنے پر اس دور میں ستر ہزار روپے کا انعام تھا۔ آج کے حساب سے یہ انعام صرف 900 ڈالر تھا لیکن اس وقت کے حساب سے یہ آٹھ ہزار امریکی ڈالر تھا جو کہ ایک بڑی رقم تھی۔ حکومت نے متعدد مرتبہ ملکھان کو ہتھیار پھینک کر خود کو حکام کے حوالے کرنے کے پیغامات بھیجے تھے۔

سنہ 1982 کے موسم گرما میں فوٹو گرافر پنجیار اور ان کے ساتھی کلیان مکھرجی اور برج راج سنگھ مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت اور ملکھان سنگھ گینگ کے درمیان ثالثی کر رہے تھے جس کا مقصد ملکھان سنگھ کو ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی کرنا تھا۔ انھوں نے ایک طرح سے ملکھان سنگھ سے رابطہ قائم کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا وہ ڈاکو جسے پاکستان نے پناہ دی

عاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیا

مشہور شخصیات کو اغوا کرنے والے سمگلر، جنھوں نے جان بچانے کے لیے اپنی ہی بیٹی کو قتل کیا

پنجیار کا کہنا ہے کہ ‘مجھے اس گروہ کے ساتھ کچھ دن گزارنے کا موقع ملا۔ میں دھوکہ دہی کی صورت میں ان کا ‘یرغمال’ بن کر خوش تھا کیونکہ اس کے عوض مجھے جو چاہیے تھا وہ مل رہا تھا یعنی تصویریں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ گينگ سے ان کی پہلی ملاقات اندھیری رات میں ہوئی جب آسمان پر چاند نہیں تھا۔

پنجیار نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کہ ملکھان سنگھ ایک طویل قامت بالوں والا شخص تھا جس کی گھنی کڑی مونچھیں تھیں جو کسی ہینڈل کی طرح چہرے پر پھیلی تھیں۔ ان کے مطابق ملکھان سنکھ الگ تھلگ رہنے والا شخص تھا اور اس کے پاس امریکی ساختہ آٹومیٹک رائفل تھی۔

‘وہ کم الفاظ کا آدمی تھا، لیکن ایک انا پرست شخص جس کا سب احترام کرتے تھے۔’

اس وقت یہ گروہ تقریباً دو درجن ڈاکوؤں پر مشتمل تھا اور رات کے وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا تھا۔ وہ اپنا سامان خود لے کر چلتے تھے جس میں ایک بستر، ہتھیار، بارش سے بچاؤ کے ترپال اور سادہ راشن ہوتا تھا۔ وہ کھلے آسمان تلے سوتے تھے۔ پنجیار کو یاد ہے کہ ان میں سے ایک کے پاس اے کے-47 رائفل تھی جبکہ دوسروں کے پاس کاربائن اور رائفلیں تھیں۔

پنجیار کا کہنا ہے کہ ملکھان سنگھ ’چمبل کی ایک کلاسک کہانی تھے۔ ایک نچلی ذات کا نوجوان جس نے انھیں اذیت دینے والے ایک اونچی ذات کے آدمی سے بدلہ لینے اور اپنی عزت اور اپنے تحفظ کے لیے بندوق اٹھائی۔‘

تقریباً ایک ہفتے تک پنجیار اپنے پینٹیکس اور مستعار لیے گئے نیکون کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے گینگ کی تصاویر کھینچتے رہے۔ ان میں سے کچھ نایاب تصاویر ان کی نئی اشاعت ’دیٹ وچ از ان سین‘ یعنی وہ جو کہ نظر نہیں آتا کے عنوان کے تحت منظر عام پر آئی ہیں۔

ہتھیار ڈالنے کا عمل آخرکار جون میں دسیوں ہزار لوگوں کے سامنے عمل میں آیا۔ دیگر شرائط کے ساتھ سنگھ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے گینگ کے کسی رکن کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

سلطانا ڈاکو اور برصغیر میں امیر کو لوٹ کر غریب کو دینے کی روایت

مشہور شخصیات کو اغوا کرنے والے سمگلر، جنھوں نے جان بچانے کے لیے اپنی ہی بیٹی کو قتل کیا

انڈیا ٹوڈے میگزن نے ان کے سرینڈر کو اس طرح بیان کیا: ’وہ ایک فاتح ہیرو کی طرح آیا۔ لمبا اور دبلا پتلا، اسی پولیس کی وردی میں ملبوس جس کے خلاف اس نے برسوں تک سخت مقابلہ کیا تھا۔ ڈاکو راجہ ملکھان سنگھ نے 30 ہزار مبہوت لوگوں کی موجود گی میں شمالی مدھیہ پردیش کے بھنڈ قصبے میں اپنے اسلحے کو الوداع کہا جو کہ کسی رومن فتح کی طرح کا منظر تھا۔‘

پنجیار بتاتے ہیں کہ ملکھان سنگھ خشک مزاج لیکن پر مزاح شخص تھا۔ ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، صحافیوں نے ان سے ہندی میں ایک ہی سوال بار بار پوچھ کر پریشان کیا: ’آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ اور جب وہ پنجیار اور ان کے ساتھیوں سے ملے تو انھوں نے وہی سوال ان کے سامنے دہرایا۔‘

بالآخر، ملکھان سنگھ اور ان کے گینگ کے ارکان کو کچھ جرائم کے لیے سزا سُنائی گئی جن کا ان پر الزام عائد تھا، اور انھیں ریاست میں ایک ’اوپن جیل‘ میں بھیج دیا گیا تھا۔ سنگھ نے چند سال جیل میں گزارے۔

مزید پڑھیے

آپریشن ’کلین اپ‘: سندھ میں ڈاکو راج، تیس سال پہلے اور آج

سلطانا ڈاکو اور برصغیر میں امیر کو لوٹ کر غریب کو دینے کی روایت

کچے کے ڈاکوؤں کا ’دھ چھکو‘ جس کے سامنے پولیس بکتر بند میں بھی محفوظ نہیں

اب وہ 78 سال کے ہیں اور انھوں نے سیاست کو اپنایا ہے، حالیہ برسوں میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔

انھوں نے سنہ 2019 میں کہا کہ ’میں ڈاکو نہیں تھا۔ میں ’باغی‘ تھا، جس نے اپنی عزت اور اپنی حفاظت کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ حقیقی ڈاکو کون ہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ان سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔‘

پرشانت پنجیار انڈیا کے سرکردہ فوٹوگرافر ہیں اور ابھی حال میں ان کی تصاویر پر مبنی کتاب ‘دیٹ وچ از ان سین’ منظر عام پر آئی ہے جسے نوجیون ٹرسٹ نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments