تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی


بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ”تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی”۔ اس کو اگر عام لفظوں میں بیان کیا جائے تو محبت یا لڑائی جھگڑا ایک طرف سے نہیں ہوتا بلکہ دونوں طرف سے ہوتا ہے۔
ایک مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان جسے حکومت پاکستان نے گزشتہ سال کالعدم جماعتوں کی فہرست میں ڈال دیا، مگر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ یہ الگ بحث ہے۔
تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) کی شہرت کا آغاز 2017ء میں تحفظ ختم نبوت کے قانون پر چھیڑ چھاڑ سے ہوا۔ جس کی ابتداء نواز حکومت نے کی اور ایک مذہبی جماعت کو اَکھاڑے میں آنے کی خود دعوت دی۔ اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج پر زبردست دھرنا ہوا، اور وزیر قانون زاہد حامد کو بڑے بے آبرو ہوکر گھر جانا پڑا اور پھر کچھ ہی وقت کے بعد وزیراعظم کی چھٹی بھی ہوگئی۔ حکومت اور دھرنا پارٹی کی جانب سے جن نکات پر مذاکرات ہوئے اُس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ پھر حکومت تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے پھر مطالبہ کیا کہ نکات پر عملدرآمد کروایا جائے۔ ایک اور دھرنا ہوا۔ موجودہ حکومت نے مذاکرات کیئے۔ پھر مذاکرات کے نکات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ بلکہ اُس کے موجودہ سربراہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کرلیا گیا۔ سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد سعد حسین رضوی کو بَری کرنے کے احکامات جاری کئے مگر حکومت کی ہدایت کے مطابق سعد حسین رضوی کو رہا نہیں کیا گیا۔ جب عدالت نے کسی شخص کو بَری کردیا اور اُس پر مزید کوئی کیس زیرسماعت نہیں تو اُسے جیل میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
اِس بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) کو اشتعال دلانے، قانو ن ہاتھ میں لینے، سڑکوں پر نکلنے اور پاکستانی عوام کو مشکلات میں ڈالنے کے اصل محرکات ایوانوں  میں  بیٹھے شرفاء ہی ہیں۔
میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) جو کررہی ہے وہ صحیح ہے ۔ لیکن جمہوری ممالک میں اپنی بات منوانے کا جمہوری طریقہ احتجاج ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر اُس احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر شامل ہوجائے تو وہ جُرم بن جاتا ہے۔ مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اُسے جُرم بننے کیوں دیا جارہا ہے۔ وہ کونسے عناصر یا عوامل ہیں جو اس پُرامن احتجاج کو پُرتشدد بنارہے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومتوں کا وقتاً فوقتاً مذہبی معاملات کو چھیڑنا، مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا بڑا ہی پسندیدہ مشغلہ ہے اور پھر جب عوام مشتعل ہوجاتی ہے تو اُسے بہت غلط طریقے سے ہینڈل کرکے انتشار پیدا کیا ہے۔ اِس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ سب سے پہلے تو ختم نبوت کے قانون کو چھیڑنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ مسلمان کٹ سکتا ہے، مَر سکتا ہے مگر اپنے نبیﷺ کی ناموس پر سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ پھر فرانس میں جو ہوا وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، مگر ہماری حکومت مصلحت کاشکار ہے۔ ویسے بھی حکومتوں کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں مگر ناموسِ رسالتﷺ سے بڑھ کر بھی کیا کچھ ہے؟
فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد پیش کرنے کا ہر دفعہ مذاکرات میں لالہ لپا دیا گیا جسے آج تک پورا نہیں کیا جاسکا۔ بقول وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے کہ اگر ایسا کیا تو یورپی یونین ہم پر پابندی لگادے گا، اگر ایسا ہے تو آپ کو یہ نکات مذاکرات میں شامل ہی نہیں کرنا تھا۔ اس طرح تو حکومت کی بددیانتی ثابت ہورہی ہے۔ پھر موصوف گزشتہ روز فرماتے ہیں کہ فرانسیسی سفیر پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ اگر یہ بات آپ پہلے بتادیتے تو شاید یہ وَبال کھڑا ہی نہیں ہوتا۔
عمران حکومت روز بروز اپنی رٹ کو کمزور کرتی جارہی ہے۔ تمام معاملات جن میں معیشت کی زبوں حالی ہو یا مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات پر اضافہ یا حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا، سب میں حکومت سوفیصد ناکام نظر آرہی ہے۔ مذہبی جماعت کو مذہبی رہنمائوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تو یہ بہت خوش آئند اقدام ہوتا۔ مگر یہاں تو ہر کوئی طرم خان بنا پھر رہا ہے۔ وکیل کو وزارتِ نشریات دے دی جاتی ہے تو ایک بینکار کو سائنس و ٹیکنالوجی۔ ہر جگہ پر حکومتی نااہلی عیاں ہے۔
فیصل واوڈا کا بیان بھی بڑا ہی مضحکہ خیز ہوا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ پچھلے جو تمام معاہدے ہوئے اُن کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا، جب معاہدوں پر دستخط ہوگئے تو وزیراعظم کو بتایا گیا۔
فیصل واوڈا صاحب نے بھی خوب کہی، وزیراعظم کو بائی پاس کرکے معاہدے کیے جارہے ہیں۔ اگر ایسا ہےتو تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) کا معاملہ بگڑنا تو لازمی اَمر تھا۔اور پھر وزیراعظم کی حیثیت کیا رہ گئی۔
میڈیا اور صحافیوں کو بھی بڑی ہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت جو کہے میڈیا کو وہ دکھانا ہوتا ہے۔ لاہور میں تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) پر شیلنگ اور فائرنگ کے نتیجے میں 10 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوئے، مگر میڈیا نے صرف پولیس پر ہونے والے پتھرائو کو دنیا کے سامنے دکھایا۔ ایسی صورتحال گذشتہ روز بھی ہوئی کہ ایک پولیس کی ویگن ہائی ٹینشن پول سے ٹکراگئی جس کو حکومتی رہنمائوں نے تحریک لبیک پاکستان (کالعدم) کے کارکنان کی جانب سے تشدد سے جوڑدیا۔ سوشل میڈیا پر اِس ویڈیو کو لے کر حکومتی رہنمائوں اور وزراء کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جب آپ سکّے کا ایک رُخ دکھاتے ہیں اور دوسرا چھپاتے ہیں تو بددیانتی کی وجہ سے معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ میڈیا اور صحافی کا فرض ہے کہ سکّے کے دونوں پہلوئوں کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔

اب بھی حکومت کے پاس وقت ہے، عقل مندی، بُردباری اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرے۔ مذاکرات میں شامل نکات پر عمل کیا جائے یا صاف صاف کہہ دیا جائے کہ اُن نکات پر عملدرآمد ممکن ہی نہیں۔ کوئی دوسرا طریقہ نکالا جائے۔ مذاکرات سے تو جنگوں کے مسئلے حل ہوجاتے ہیں پھر یہ کیوں ممکن نہیں؟ خندقیں کھود کر، سڑکوں پر کنٹینر لگاکر عوام کو ہی مشکل میں ڈالاگیا ہے۔ اس سے حکومت کو فائدہ نہیں صرف نقصان ہی ہوگا۔ جس پر بعد میں پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments