سسرال کا جھوٹا بھرم رکھنے کو لال دیدی مت بنیں


\"\"

شبنم شکیل صاحبہ کا ایک افسانہ ہے لال دیدی۔ اس کا اصل متن تو کچھ اور ہے مگر اس میں آخر میں ایک ہندو لڑکی لال دیدی کی زندگی کا بیان ہے جس میں لال دیدی اپنی ساس کے سارے ظلم و ستم برداشت کرتی ہے، چکی پیستی ہے، پہاڑ سے پانی بھر کر لاتی ہےاور ساس ہر روز اسے صرف دو مٹھی چاولوں کی کھانے کو دیتی ہے۔ ایک دن اس کا باپ آتا ہے تو لال دیدی اسے بتاتی ہے کہ وہ سسرال میں بہت خوش ہے۔ مگر ساس اس کے باپ کی آمد پر اس تذبذب میں پڑ جاتی ہے کہ لال دیدی کو اگر دو مٹھی چاولوں کی دے گی تو باپ پر سسرال کی اصلیت کھل جائے گی اور اگر زیادہ دے گی تو لال دیدی کی عادت بگڑ جائے گی۔ لال دیدی ساس کا اضطراب بھانپ جاتی ہے اور کہتی ہے میں پیالے میں پتھر بھر کر آپ کے آگے کر دوں گی، آپ اس میں دو مٹھی چاول ڈال دیجیے گا اور پتا جی کو پیالہ بھرا ہوا لگے گا۔

ہمارے معاشرے میں شادی شدہ زندگی میں لال دیدی جیسا ہونا ہمیشہ ہی سے بہت آئیڈیل رویے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سسرال کا بھرم رکھنا، پیٹ پر کپڑا ڈھک کر رکھنے جیسی مثالوں سے اس کی توثیق ہر جگہ ملتی ہے۔ ایک حد تک بھرم رکھنا ہرگز برا نہیں ہے۔ میں خود بھرم رکھنے کی بہت قائل ہوں کیونکہ ایک خاندان کا حصہ بننے سے اگر ان کی کچھ ذاتی باتیں آپ کے علم میں آ جائیں تو ان کا ڈھنڈورا پیٹنا کسی بھی طرح ایک جائز رویہ نہیں ہے۔ مگر اس طرح کی مثالوں سے بہت سی نئی شادی شدہ، حساس اور ذمہ دار لڑکیوں کے لئے یہ تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ صحیح اور غلط کیا ہے اور برداشت کی کیا حد روا رکھنی چاہیے۔

دوسری طرف کچھ خواتین کی محفلوں میں میں نے شادی شدہ زندگی میں کامیابی کی یہ مثال سنی کہ اس نے اپنے خاوند کو بہت تھلے (نیچے) لگایا ہوا ہے۔ میرے نزدیک شادی شدہ زندگی میں نہ تو تھلے لگ جانا ایک کامیابی ہے اور نہ ہی تھلے لگا لینا۔ شادی میرے نزدیک تو ایک برابری کا رشتہ ہے جس میں دونوں ہمسفر مل کر آگے کو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں ایک دوسرے کی خامیوں کی پردہ داری کرتے ہیں اور کسی کو احساس زیاں نہیں ہوتا۔ مگر اس دور میں شادی ایک عجیب سودا بن گئی ہے۔ خاندان اور جاننے والوں اور جانے بوجھے ماحول سے ہٹ کر، رشتہ والیوں کے توسط سے شادیاں ہو جاتی ہیں اور لڑکی بے چاری بوکھلا سی جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے سب لڑکیاں ایک جیسے رویے اور برتاؤ کا اظہار تو نہیں کرتیں۔ کچھ بہت تیز طرار بھی ہوتی ہوں گی مگر زیادہ تر سیدھی سادی لڑکیاں اگر غلط لوگوں میں بیاہی جائیں تو بہت پریشان ہو جاتی ہیں۔ جاتے ہی بچے پیدا کرنے کا دباؤ اور پھر اگر شادی نہ چلے تو سنگل ماں بن کر ساری زندگی بچے کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ اس ضمن میں میری ایک رائے ہے جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو گا اور وہ یہ کہ شادی ہوتے ہی بچے پیدا کرنے کی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک دو سال ایک دوسرے کو جان لیں اور یہ دیکھ لیں کہ آپ لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے یا نہیں، مل کر ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں اور پھر بچے پیدا کریں۔

لڑکیوں کو یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ شادی شدہ زندگی ایک رومانوی فلم جیسی نہیں ہوتی مگر ساتھ ہی میں اسے ایک ٹریجک ڈرامہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ عزت سب سے ضروری جزو ہے شادی شدہ زندگی کا۔ اس کے بعد یہ یقین رکھیں کہ جسمانی تشدد کسی طور پر قابل قبول نہیں اور اسے برداشت کرناکسی طور بھی کامیابی یا بہادری کی سند نہیں۔ اس سے اگلےدرجے پر ذہنی یا نفسیاتی تشدد ہے۔ اب یہ بھی نہیں کہ خاوند نے ایک بات نہ مانی اور نند نے ایک طعنہ دے دیا تو آپ چیخ و پکار مچا دیں کہ ذہنی تشدد ہو گیا۔ مگر اگر مستقل طور پر آپ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، آپ کا شوہر آپ سے جذباتی طور پر فاصلہ رکھتا ہے، آپ کی ذات کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے اور آپ کی کامیابیوں کی تذلیل لی جا رہی ہے تو یہاں برداشت روا رکھنا غلط ہے۔ میری بہت سے شادی شدہ سہیلیاں ابھی تک یہ نہیں جان پائیں کہ ایک اچھی شادی شدہ زندگی اور ایک غلط شادی کی صورت میں زندگی میں کیا فرق ہے۔

بہت دفعہ مائیں برداشت کا سبق دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ سب کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ مگر اگر آپ کی شادی شدہ زندگی میں آپ کے ذہن میں یہ سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ درست ہے یا نہیں، باقی لوگوں کی شادی شدہ زندگیوں میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں تو شاید آپ کی شادی شدہ زندگی درست سمت میں نہ ہی جا رہی ہو۔ ایسے میں سب سے پہلے تو باتیں بنیاد سے شروع ہوتی ہیں۔ بچیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے اور کیریر پر بھی۔ جب اپنے پیروں پر کھڑی ہوں تب ہی ان کی شادی کریں۔ شادی کسی مجبوری کا رشتہ اور نتیجہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ماؤں کو چاہیے کہ شادی کہ بعد بھی اپنی بچیوں کو اعتماد دیں۔ ہر وقت کرید میں بھی نہ رہیں مگر اگر کچھ غلط نظر آ رہا ہو تو نہ تو خود چشم پوشی کریں نہ ہی بچیوں کو یہ سبق دیں۔ بچیوں کو چاہیے کہ کسی حد تک برداشت سے ضرور کام لیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر شور مت کریں مگر اگر آپ کو لگے کہ آپ کی صحت یا سوچ متاثر ہو رہی ہے تو پھر کسی سمجھدار رشتہ دار کو ضرور اعتماد میں لیں۔

اگر وقت پر سلجھانے کی کوشش کر لی جائےتو بہت سے مسئلے بات چیت سے بھی حل ہو جاتے ہیں مگر بہت سی چیزیں برداشت کرتے جانا آگے چل کر حد سے زیادہ بگاڑ اور نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اور یاد رکھیے بچے پیدا کرنے سے نہ ہی کوئی راہ راست پر آ جاتا ہے اور نہ ہی سدھرتا ہے۔ شادی اور بچے ایک بری تربیت اور فطرت کا علاج ہرگز نہیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments