گلگت سے ایک سوال


ایک سوال جو ہمیشہ میرے ذہن میں نقش ہوا ہے، جب بھی کسی بچی کو سکول جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ سوال میرے ذہن میں چبھنے لگتا ہے، وہ سوال کیا ہے اور کس نے مجھ سے پوچھا اس پہ آنے سے پہلے میں آپ کوا پنے گاؤں کا تعارف کروا دوں اس سے آپ کو سوال کی نوعیت اور اس میں چھپے کرب کا اندازہ ہو جائے گا۔ میرے گاؤں کا نام کارگاہ ہے۔ جو کہ گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت سے چند کلومیٹر فاصلے پر واقع نہایت ہی خوبصورت مگر پسماندہ گاؤں ہے۔

یہاں کی آبادی تقریباً نو سو گھرانوں پر مشتمل ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور محنت مزدوری ہے۔ شرح خواندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ کم تر لوگ ایسے ہیں جو مکئی کاشت کرتے ہیں اور اکثریت کا ذریعہ آمدن آلو کی کاشت ہے۔ یہاں پر ایک مڈل بوائز سکول ہے اور حال ہی میں ایک پرائمری گرلز سکول کا اجراء ہوا ہے اور بوائز پرائمری سکول گاؤں کی پہلی آبادی میں ہے۔ صحت کے حوالے سے ایک ڈسپنسری بھی موجود ہے لیکن صرف عمارت کی حد تک، جہاں دوائیاں اور عملہ دونوں ناپید ہیں۔

یہاں کے مکین مال مویشی پالتے ہیں مگر وٹرنری ہسپتال موجود نہیں، اور یہاں سے بہنے والے نالے پر صوبائی حکومت نے کئی پن بجلی گھر تعمیر کیے ہیں اور اس سے گلگت شہر کے لئے پینے کا صاف پانی بھی میسر ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے یہ گاؤں عرصہ دراز سے بجلی کی سہولت اور صاف پانی جیسی نعمت سے محروم رہا۔ اس گاؤں میں گجر برادری اکثریت میں آباد ہے۔ یوں تو یہاں مسائل کے انبار ہیں مگر اہم مسئلہ ٔ تعلیم ہے۔ آپ تعلیمی مسائل کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں میٹرک پاس طالبعلموں کی تعداد دہرے ہندسے تک بھی نہیں۔

اس کی بنیادی وجہ نان لوکل اساتذہ کی گورنمنٹ سکول میں تعیناتی ہے۔ یہاں کے سکولوں میں کہنے کو تو اساتذہ کی فوج ہے لیکن صرف تنخواہ لینے کی حد تک یہاں تعینات اساتذہ گلگت شہر میں ڈیوٹی کرتے ہیں یہاں کے سکول کھلتے کم اور بند زیادہ رہتے ہیں اس وجہ سے والدین بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے گھر میں بٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک دفعہ میں گاؤں گیا ہوا تھا اور یوں ہی ایک بچے سے پوچھا تو اس نے حیران کن بات بتائی کہ اس نے امتحان میں پاس ہونے کا ایک نادر فارمولہ بتلایا جو کہ اس کے استاد کا دریافت کردہ تھا۔

”ٹیچر نے ایک کنکر ہاتھ میں لیا اور مٹھی بند کر کے مجھ سے پوچھا بتاؤ کنکر کس ہاتھ کی مٹھی میں ہے؟ میں نے صحیح بتایا تو مجھے پاس کر دیا۔“ ۔ ستم ظریفی یہ کہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کے بقول ”اگر گجر برادری کے بچے بھی پڑھ لکھ جائیں تو ہمارے مال مویشی کون چرائے گا“ ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میرے گاؤں میں تعلیمی دہشت گردی میں خود محکمہ ایجوکیشن شامل ہے۔ بھلا ہو پنجاب کے ایک خدا ترس افسر کا اس نے ایک مقامی لڑکے کو یہاں معلم بھرتی کیا تب سے سکول با قاعدگی سے کھلا رہتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ یہاں سے تنخواہ لینے والے تمام ٹیچرز کو یہی پہ ڈیوٹی دینے کا پابند کرے تاکہ بچوں کا مزید مستقبل تباہ نہ ہو سکے لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں موجود کالی بھیڑیں یہ ہونا نہیں دیں گی۔ کیونکہ ہارڈ ایریاز وہ چراگاہیں ہوتی ہیں جس پر چرنے والے گائے گوبر تو وہاں کرتی ہیں لیکن دودھ شہر والوں کو دیتی ہے تعلیمی دہشت گردی کی تازہ مثال یہ ہے کہ گرلز پرائمری سکول میں ایک مڈل پاس لڑکی کو تعینات کیا ہے اور پڑھا رہی ہے ایک پرائمری پاس لڑکی اس حوالے سے میں نے شکایت کی تو وہاں کے ایک سیکشن افیسر نے بڑے فخر سے اس بھرتی کو اپنا فیصلہ قرار دیا۔ جس کو میں نے بذریعہ درخواست سیکریٹری ایجوکیشن کے نوٹس میں بھی لایا لیکن دفتری کارروائی کے دوران اس درخواست کو پر لگ گئے اور پتہ نہیں اب کس ردی کی ٹوکری میں ہو گی۔

اب آتے ہیں سوال کی طرف میں نے آج سے دو سال پہلے محکمہ ایجوکیشن کے اس وقت کے ڈائریکٹر  صاحب کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ میں اپنی مدد کے تحت وہاں گاؤں میں بچیوں کو پڑھانا شروع کرو جس کے تمام اخراجات میں ادا کروں گا۔ محکمے کی طرف سے صرف سکول کھولنے کا وعدہ تھا۔ جس عمارت کے لئے زمین بھی میں بلامعاوضہ دوں گا۔ یہ ایک اسٹام کے ذریعے ہوا۔ اور میں نے گاؤں میں سکول کا افتتاح کیا۔ یہ دیکھ کے میں حیران ہوا کہ پہلے ہی دن تعداد سو سے بڑھ گئی۔

ان کے لئے کتابوں اور یونیفارم کا انتظام بہت مشکل تھا۔ لیکن بڑی کوششوں کے بعد ایک این جی او کے ذریعے صرف کتابوں کا انتظام ممکن ہوا۔ یوں اس سکول کو چھ مہینے تک چلاتا رہا بعد میں محکمہ ایجوکیشن کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ آپ سکول کو فی الحال بند کریں۔ کچھ میری اپنی مجبوریاں اور مصروفیات تھیں جس بنا پر سکول بند کرنا پڑا۔ لیکن جب سکول کی آخری دن تمام بچیوں کو اس فیصلے سے آگاہ کیا تو تمام بچیوں میں مایوسی پھیل گئی ان میں سے ایک بچی جو انتہا کی ذہین تھی اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا ایک سوال ہے، کیا پڑھنا ہمارا حق نہیں جبکہ میں اپنے ابو کے ساتھ شہر جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ مجھ جیسی بہت سی بچیاں سکول جا رہی ہوتی ہیں۔

اس سوال کا جواب بہ میرے پاس تھا اور نہ میں اس کے جواب کا اہل تھا۔ لیکن اس سوال نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ کئی راتوں تک اس سوال نے مجھے سونے نہ دیا۔ اس سارے معاملے کو میں نے ایک کالم کے ذریعے چیف جسٹس سے یہ سوال کیا جس پر معزز جج نے نوٹس بھی لیا لیکن بد قسمتی کہ ججز کی کمی اور کچھ دنوں بعد چیف جسٹس رانا شمیم کی رٹائرمنٹ نے معاملے کو نظر زنداں کر دیا۔

آج چیف جسٹس، چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سے میرا پھر سے یہی سوال ہے کہ کیا پڑھنا میرا حق نہیں؟ آپ کے جواب کی منتظر ہے ایک ننھی پری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments