کوپ 26: گلاسگو میں عالمی بیٹھک میں پاکستان کو درپیش اصل خطرات پر بحث


پچھلے دو ہفتوں کے دوران پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کرکٹ میچ میں فتوحات، نوٹیفیکیشن کا مسئلہ، ناموس رسالت، دارالحکومت کا گھیراؤ اور کالعدم تنظیم سے ریاست کا معاہدہ حاوی رہے لیکن انہی پندرہ دنوں میں عالمی منظر نامے پر جو دو اہم ترین واقعات رونما ہوئے وہ جی 20 سربراہی کانفرنس اور اس ہفتے برطانیہ کے شہر گلاسگو میں کوپ 26 نامی بیٹھک ہیں۔

جی 20 سربراہی کانفرنس

اٹلی کے دارالحکومت روم میں منعقد یہ سربراہی اجلاس اس لحاظ سے اہم تھا کہ یہ کورونا کی عالمی وبا کے تھم جانے کے بعد منعقد ہوا۔ دنیا کا یہ طاقتور کلب صف اول کی ان بیس اقوام پر مشتمل ہے جو مشترکہ طور پر دنیا کی اسی فیصد اقتصادیات اور 75 فیصد تجارت کی ملکیت رکھتی ہیں۔ ان میں مغربی ممالک کے علاوہ چین، جاپان، بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور سعودیہ عرب شامل ہیں۔ اس سال کی کانفرنس کے طے شدہ امور میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز پر 15 فیصد ٹیکس کا نفاذ جس کی زد میں امیزون، گوگل، فیس بک اور ایپل جیسی انٹرنیٹ سے چلائے جانے والی دیوہیکل کمپنیاں آئیں گی، دنیا کی تمام آبادی کے کثیر حصے کو ویکسین کی فراہمی، توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث عالمی افراط زر کے بحران سے نمٹنے کی سٹریٹجی اور ماحولیاتی تپش کو نہ بڑھنے دینے کے لئے اقدامات پر اتفاق شامل تھا۔

کوپ 26

کوپ یا کانفرنس آف پارٹیز ماحول کے حوالے سے اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے وہ اہم اجلاس ہیں جن میں بنیادی اصول، ترجیحات اور حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔ 2015 کا پیرس معاہدہ اس سلسلے میں ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے جس میں طے کیا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت کو قبل از صنعتی دور کے درجۂ حرارت سے 2 ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔

ماحولیاتی تپش آخر ہے کیا؟

سب سے پہلے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ماحول کے متعلق انسان کی تمام معلومات پچھلے دو تین سو سال کی تحقیق کا نتیجہ ہیں یعنی اس سے قبل ہمارے آبا و اجداد اس علم سے قطعاً نابلد تھے۔ ہوا یوں کہ 1820 ء میں فرانسیسی ماہر ریاضی اور طبیعیات جوزف فوریئر نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ ہمارے کرۂ ارض کی گرمی کے پیچھے صرف سورج کی شعائیں ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے آگے آنے والے کئی سائنسدانوں کے تجسس سے ہم اس مظہر تک پہنچ سکے جسے گرین ہاؤس ایفیکٹ کہتے ہیں۔

گرین ہاؤس ایفیکٹ

گرین ہاؤس یا گل خانہ باغات میں بند ان شیشہ گھروں کو کہتے ہیں جن میں وہ پودے اگائے جاتے ہیں جنہیں گرم ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ فضاء میں یہ عمل ہمارے سیارے کے گرد موجود گیسوں کی ایک تہہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیارے کا درجۂ حرارت گرم رہتا ہے۔ جو گیسیں گرین ہاؤس ایفیکٹ پیدا کرتی ہیں ان میں پانی کے بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ پیش پیش ہیں۔

صنعت کاری اور ماحولیاتی تپش

1750 ء اور 1850 ء کے ایک سو سالوں میں انسان صنعتی دور میں داخل ہو گیا۔ صنعتی انقلاب کے فیوض و برکات ان گنت ہیں۔ سستی غذا اور اشیائے ضرورت کی تمام دنیا میں دستیابی اور فراوانی، برق رفتار رسل و رسائل، تعلیم و صحت تک ہر خاص و عام کی دسترس، قدرتی عوامل کی سائنسی تشریح وغیرہ وغیرہ لیکن اسی ترقی کے ساتھ نت نئی مشکلات نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے۔ ایک کے بعد دوسری عالمی وبا حملہ آور ہوتی جا رہی ہے۔ انسان ایسے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو بنانے پر قادر ہو چکا ہے جس سے زندگی کے تمام آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ یہ سب حاصل کرنے کے لئے ہم نے ایندھن جلا کر فضاء میں اربوں ٹنوں کے حساب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑی۔ کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس سب کے سب زمین کی چھاتی چیر کر نکالے گئے خزانے ہیں جو فنا ہوتے ہوئے توانائی کے ساتھ ساتھ زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی جنم دیتے جاتے ہیں۔

ماحولیاتی تپش کا ادراک کب ہوا؟

سوویت ماہر موسمیات میخائل بیوڈیکو وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے 1972 ء میں اندازہ لگا لیا کہ انسانی سرگرمی سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضاء میں جمع ہونے سے حرارت میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ قطب شمالی پر جمی ہوئی برف تیزی سے گھلتی جا رہی ہے۔ انہوں نے اگلے پچاس سالوں میں عالمی درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافہ کی کافی درست پیش گوئی بھی کی یہ الگ بات ہے کہ ان کے خیالات کا اس وقت مذاق اڑایا گیا۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سوویت رہنما میخائل گورباچوف وہ پہلے سربراہ مملکت تھے جنہوں نے ماحولیاتی بحران کو سنجیدگی سے لیا۔

امریکہ میں تیل، ہتھیار سازی اور ہوا بازی کی صنعت کی مضبوط لابی کی وجہ سے ماحولیات کے متعلق پریشانی کو دبا کر رکھا گیا لیکن پھر 1988 ء میں ناسا سے وابستہ موسمیاتی سائنسدان پروفیسر جیمس ہینسن کی امریکی کانگریس کے سامنے پریزینٹیشن نے صورتحال کو تبدیل کر دیا اور یہ ایک سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ قرار پایا۔

ماحولیاتی تپش میں کس کا کتنا حصہ ہے؟

اور ورلڈ ان ڈیٹا کے مطابق 1950 ء تک دنیا کی 85 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج امریکہ اور یورپ سے ہو رہا تھا لیکن پھر صورتحال تبدیل ہوتی گئی ہے۔ اس وقت اس اخراج کے دس بڑے ذمہ دار ممالک چین، امریکہ، بھارت، روس، جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، ایران، کینیڈا اور سعودی عرب ہیں۔

ماحولیاتی تپش کے اثرات

امریکی ادارے ناسا کے مطابق ان منفی نتائج میں شدید اور طویل موسم گرما، مسلسل بارشیں، سمندری طوفانوں کی کثرت اور شدت میں اضافہ، سطح سمندر میں کئی فٹ کا اضافہ جس سے متعدد جزائر اور ممالک صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہیٹ ویو اور خشک سالی کا دور دورہ ہو جائے گا، قطب شمالی سے تمام برف پگھل جائے گی۔ ان تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ انسان سمیت کئی اقسام کے جاندار اپنے مسکن کھو بیٹھیں گے، نسلیں، آبادیاں اور تہذیبیں معدوم ہوجائیں گی۔

پاکستان

اس سال شائع ہونے والے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کا شمار ماحولیاتی بحران سے شدید متاثر شدہ ان پانچ ممالک میں کیا گیا ہے جن پر اس کے منفی اثرات انتہائی اور دیرپا ہوں گے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہم پاکستان میں انسانی برداشت سے باہر گرمی پڑتے، کراچی میں ماہ رمضان کے ایک ہی دن میں دو ہزار افراد کو ہیٹ ویو سے دم توڑتے، غیر متوقع موسلا دھار بارشیں اور اربن فلڈنگ، سمندر چڑھنے سے بے گھر ہوتے باشندے دیکھ چکے ہیں۔ دریا خشک ہوتے جا رہے ہیں اور زیر زمین پانی کی سطح نیچے سے نیچے ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں فتح و شکست، نوٹیفیکیشن اور کالعدم تنظیموں کو ہر قیمت پر منا کر رکھنا ہماری من پسند ترجیحات ہیں۔

کنزرویٹو سیاستدان، قوم پرستی اور تبدیلیٔ ماحول

عجیب اتفاق ہے کہ دنیا بھر کے قدامت پسند سیاستدان ہر مسئلے پر یکساں پوزیشن لیتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق، تارکین وطن کی آبادکاری، نسل پرستی کے خاتمہ، صحت و تعلیم کی مفت سہولیات کی فراہمی، کورونا کو وبا تسلیم کرنے اور ویکسینیشن سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل تک تمام کنزرویٹو افراد ہم آواز نظر آتے ہیں۔ دانشور اور مصنف یوول نواح حراری نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں اور عالمی معاہدوں کو نظر انداز کرنے کی روش پر بڑی عمدہ بات کی تھی کہ حب الوطنی کے جذبات بھڑکا کر ان بڑے چیلنجز کے آگے متحد ہونا ناممکن ہے جو قومی سرحدوں سے بالاتر ہیں اور جن سے نوع انسانی کو معدومیت کا حقیقی اور فوری خطرہ لاحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments