سیاسی انجینئرنگ: بس کر دو بس


پی ٹی آئی کی موجودہ وفاقی حکومت سے خوش قسمت شاید ہی کوئی حکومت پاکستان کی تاریخ میں رہی ہے۔ اس حکومت کو اقتدار میں لانے کے لیے طویل محنت اور گہری منصوبہ بندی کی گئی اور اسے اقتدار میں آنے کے بعد جس قدر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت رہی اس کی کوئی ہماری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس جماعت کی حکومت کو برسر اقتدار لانے کے لئے تقریباً ایک وقت میں ساری ریاست کو مفلوج کر دیا گیا تھا۔ اقتدار کی اس جنگ میں سابقہ قانونی اور آئینی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے اور پی ٹی آئی کو برسر اقتدار لانے کے لیے مختلف مسلح جتھوں تک کا بندوبست کیا گیا۔ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے مذہب کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا گیا اور متشدد مذہبی گروہوں کے ذریعے دارالحکومت کو ہفتوں تک محصور کر دیا گیا۔

سابق حکومت کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے اور پی ٹی آئی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے تقریباً تمام میڈیا کو زیر اثر رکھتے ہوئے اور ان کے بازو مروڑ کر ایک منظم پروپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ حکومت کو ختم کرنے کے لئے اور اس کی راہ میں قانونی روڑے اٹکاتے ہوئے عدلیہ کو بھی استعمال کیا گیا۔ غرض کہ کوئی ایسا راستہ نہیں چھوڑا گیا جو موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار دلانے میں مددگار ہو سکتا تھا۔

مقتدر ادارے اس مقصد کے حصول کے لئے اس حد تک آگے چلے گئے کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے چیدہ چیدہ سیاسی رہنماؤں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لئے یا تو مجبور کیا گیا یا انہیں مختلف ترغیبات پیش کی گئیں۔ حتیٰ کہ بظاہر ایک منظم سازش کے تحت 2018 کے انتخاب والے دن مختلف پولنگ اسٹیشن کے نتیجوں کی ترسیل کرنے والے نظام آر ٹی ایس کو ناکام بنا کر پی ٹی آئی کی فتح کی راہ ہموار کی گئی۔ اس نظام کی ناکامی کی ابھی تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بیلٹ باکسرز کو حساس پولنگ اسٹیشنوں سے اٹھا لیا گیا اور ان کے گم ہونے یا اغوا کیے جانے کے بارے میں کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اسی طرح انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی وفاق اور پنجاب میں حکومت قائم کرانے کے لیے مختلف حربے کامیابی سے آزمائے گئے۔

غرض کتابوں میں موجود کوئی ایسی ترکیب نہیں چھوڑی گی جس سے پی ٹی آئی کو اقتدار آسانی سے منتقل کیا جا سکتا۔ اس شاندار کامیابی کے بعد یہ توقع تھی کہ اقتدار حاصل کرنے والے اور انہیں اقتدار میں لانے والے ہنسی خوشی کے ساتھ مل کر اس مملکت خداداد پر بلا روک ٹوک حکمرانی کریں گے اور ملک ایک لمبے عرصے تک کسی سیاسی بحران کا شکار نہیں ہو گا اور نہ ہی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی تجاویز یا مطالبات کو ماننے میں تذبذب کا اظہار کرے گی۔

اس سلسلے میں دس سالہ حکمرانی تک کی باتیں کی گئیں۔ اور کیوں نہ کی جاتیں کیونکہ حکمران جماعت نے اسے اقتدار میں لانے والوں کے ہر مطالبے کو بلا چوں و چرا تسلیم کیا اور بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوا کہ حقیقی حکمران تو شاید پی ٹی آئی نہیں۔ حکومت نے سارے اہم فیصلے خصوصاً خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے لانے والوں کے حوالے کر دیے۔ جواب میں پی ٹی آئی کو اپنے مخالفین کو شکار کرنے کی کھلی آزادی دی گئی۔ اسے عدلیہ اور پارلیمان کو دبانے کی بھی مکمل چھٹی دے دی گئی۔

لیکن جس طرح ہمیشہ اس طرح کے سیاسی کھیلوں میں ہوتا ہوا آیا ہے اس شدید محبت اور شدید اطاعت کے باوجود ان دونوں طاقت کے منبوں میں آخرکار اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور اس وقت سول ملٹری تعلقات ایک شدید بحران کا شکار ہیں۔ اس بحران نے ملک میں ایک سیاسی بے یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے جو کسی طرح بھی پہلے سے ڈوبتی ہوئی معیشت اور مشکل قومی سلامتی کی صورتحال کے لئے موزوں نہیں۔

موجودہ بحران جس کی حدت میں کچھ حد تک کمی تو آئی ہے لیکن اس نے ماضی کی طرح سیاسی اور عسکری قیادت کے تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے جو کہ ملکی سیاست میں مزید بحرانوں کا باعث بنے گی۔ اس قضیے میں ہمارے فیصلہ ساز اداروں کے لیے بہت سے سبق پنہاں ہیں اور انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیوں تین سال سے ایک صفحے پر رہنے کی عیاشی کے باوجود اس بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیوں اتنے بہترین تعلقات کے باوجود اہم تعیناتیوں میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ اور کیوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ عسکری تعیناتیاں نہ صرف متنازع ہوئیں بلکہ زبان زد عام ہوتے ہوئے ٹی وی مباحثوں کی زینت بن گئیں اور اہم قومی ادارے کی بے توقیری کا سبب بنیں۔

اس تلخ تجربے سے اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی سیاسی معاملات میں مسلسل دلچسپی، سیاسی انجینئرنگ اور پالتو سیاستدان میدان میں لانے کے باوجود ملک سیاسی استحکام نہیں حاصل کر سکتا۔ انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ جس پالتو سیاسی قیادت پر اتنی محنت کرتے ہیں اور اپنے ادارے کی ساکھ داؤ پر لگاتے ہیں وہ کیوں آخر میں ان کی خواہشات کے برعکس سوچنے لگتی ہے۔ انہیں اس پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے کہ کیا قانونی اور آئینی طور پر منتخب حکومتوں کو ادارہ جوابدہ ہے کہ نہیں۔

ماضی کے اور حالیہ تجربے سے ظاہر ہے کہ پسندیدہ سیاسی قیادت کو اقتدار میں لانے کے لیے چاہے جتنی بھی محنت کی جائے یا وہ جتنی بھی عسکری اداروں کی احسان مند ہو، وہ آخر میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے جسے عسکری قیادت تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے اور سیاسی عدم استحکام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

موجودہ ناکام نظر آتے ہوئے تجربے نے ایک دفعہ پھر طے کر دیا ہے کہ اس قسم کی سیاسی انجینئرنگ چاہے کتنی طویل اور باریک بین منصوبہ بندی سے کی گئی ہو کبھی بھی عمر دوام نہیں پائے گی بلکہ ملک کو مسلسل سیاسی بحرانوں میں دوچار رکھے گی اور اس کی بنیادوں کو مزید کمزور کمزور کرے گی۔ ہم ایک تجربے کو بار بار دہرا کر اس سے مختلف نتیجہ نہیں حاصل کر سکتے۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ عسکری اداروں کو سیاست سے دور ہو جانا چاہیے اور خصوصاً ان کے خفیہ ادارے کی مسلسل سیاسی معاملات میں دلچسپی ختم کرنی چاہیے جو پورے ادارے کی بے توقیری کا باعث بن رہی ہے۔

سیاست دانوں کو بھی یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ وہ عسکری اداروں کی مدد سے اقتدار تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ بندوبست زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور جلد ہی اس رشتے میں دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔ عسکری قیادت مکمل اطاعت چاہتی ہے جو کہ سول قیادت کے لیے کچھ عرصے بعد ایک بوجھ بن جاتا ہے اور وہ آخر کار ان کے راستے الگ الگ کر دیتا ہے۔

موجودہ سیاسی بحران سے کامیابی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں موجود تمام سیاسی قوتیں اپنے اختلافات ختم کر کے ایک اور میثاق جمہوریت پر اتفاق کریں جس میں واضح طور پر وہ اس بات کا عہد کریں کہ عسکری اداروں کو سیاسی معاملات میں نہیں گھسیٹا جائے گا۔ یہ میثاق پچھلے میثاق کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں کسی نہ کسی طرح اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے اور ان کے ختم ہونے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ عسکری اداروں کو بھی اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ کیا وہ پاکستان کو ایک جمہوری اور آئینی ملک دیکھنا چاہتے ہیں یا وہ اسے مسلسل سیاسی بحرانوں میں گھرے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی قوتوں کو ہمارے سول اور عسکری خفیہ اداروں کی سیاسی معاملات میں دخل اندازی کو روکنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ چونکہ یہ مشکل کام حکومت اکیلے سے نہیں کر سکتی، اس لیے ضروری ہے کہ سول اور عسکری خفیہ اداروں کو اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز سے روکنے کے لیے پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی کے سامنے بھی جوابدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کمیٹی جس میں حکومت اور اپوزیشن کی برابر کی نمائندگی ہونی چاہیے، انتظامی معاملات میں تو مداخلت نہ کرے مگر ان خفیہ اداروں کے پالیسی معاملات پر کڑی نظر رکھے اور یقینی بنایا جائے کہ ان اداروں کو حکومتیں اپنے سیاسی معاملات کی بجائے صرف قومی سلامتی کے معاملات کے لیے استعمال کریں۔ امید ہے کہ اس نگرانی سے ان اداروں کی سیاسی میدان میں مداخلت کو آہستہ آہستہ کم کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments