ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور لالی ووڈ


چند روز قبل پاکستانی فلم ”نگار“ دیکھنے کا حسین و خوشگوار اتفاق ہوا۔ یہ فلم لیفٹیننٹ جنرل ”نگار جوہر“ کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔ کہانی میں کتنی حقیقت اور کتنا مبالغہ ہے یہ تو اصل واقفان حال ہی بتا سکتے ہیں مگر چند ایک باتوں کو چھوڑ کر جن پر مجھے یا کسی بھی اہل خرد کو اعتراض ہو سکتا ہے تمام واقعات حقیقت سے قریب تر لگتے ہیں۔ اس فلم میں زیادہ ڈرامہ پیش نہیں کیا گیا نہ ہی فکشن سے کام لیا گیا ہے بلکہ میرے مطابق حقیقی اہم واقعات کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔

یہ فلم اے آر وائی کے بینر تلے بنائی گئی ہے اور بلاشبہ یہ ایک بہت ہی اچھی فلم اور متاثر کن کہانی پر مبنی ہے۔ ہدایتکاری سے لے کر اداکاری تک ہر ایک پہلو پر خوب محنت کی گئی ہے۔ ماہرہ خان سمیت تمام اداکاروں نے بہترین اداکاری کی ہے اور ہدایتکار نے بھی ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی لینے والا ہو تو اداکاروں سے اداکاری کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ لیکن مجھے اس فلم میں چند ایک باتیں انتہائی عجیب لگیں۔

پاکستان کے ایک اہم اور حساس ادارے کی حد سے زیادہ تعریف، ادارے کے سربراہ (جو ایکسٹینشن ملنے کے بعد تاحال اپنے عہدے پر موجود ہیں ) کی آخری حدود سے بھی آگے بڑھ کر تعریف و توصیف، اور بے حد تعریف و توصیف اور ادارے کے سربراہ کو انتہائی مضبوط، طاقتور اور توانا متعارف کروانے کے بعد ادارے کے سربراہ کے طور پر توقیر ناصر کو کمزور لب و لہجے کے ساتھ دکھانا عجیب قسم کی حرکات لگتی ہیں۔

والٹیئر کہتا ہے ”اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تم کس کے غلام ہو تو یہ دیکھو کہ تم کس پر تنقید نہیں کر سکتے۔“ یوں تو وطن عزیز میں ہر جگہ غلامی تھوک کے حساب سے ملتی ہے مگر مذہب اور فوج کے خلاف بات کرنا گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ مقدم الذکر جرم کی تعزیر میں سنگین قسم کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن سے اللہ تعالی ہر مسلم و غیر مسلم کو محفوظ رکھے اور مؤخر الذکر جرم کی تعزیر میں شمالی علاقہ جات کی مفت سیر، سافٹ ویئر اپڈیٹ اور کچھ روز یا کچھ مہینے یا کچھ سال کی گمشدگی شامل ہے، اس سے بھی اللہ پاک ہر پاکستانی کو محفوظ فرمائے۔

ہم بھی مؤخر الذکر گناہ کو سرزد کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں خدائے لم یزل ہماری بھی حفاظت فرمائے۔

بھئی! ہمیں تسلیم ہے کہ ہمارا ادارہ پوری دنیا میں نمبر ون ہے، ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ ہمارا ادارہ خامیوں سے پاک ہے مگر یہ کیا آپ بچوں کو کہانی سنا رہے ہیں کہ جس میں ساری پرفیکشن ہی پرفیکشن ہو گی، کاملیت ہی کاملیت ہو گی، حالانکہ اوشو بیچارہ اپنی کتاب ”کتاب دانش“ میں کہہ چکا ہے کہ تکمیل ممکن ہے مگر کاملیت ناممکن! مگر پھر بھی آپ بضد ہیں کہ آپ کی دکھائی ہوئی کاملیت پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا جائے۔ ؟

کوئی بھی شخص ہو یا ادارہ، خامیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ آپ نے اس فلم میں ساری خوبیاں ہی خوبیاں گنوا دی ہیں، کوئی ایک تو خامی دکھا دیتے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین ہو جاتا کہ ہمارا میڈیا غلام نہیں بلکہ واقعی آزاد ہے۔

ہم اگر ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح امریکی پرچم جلایا جا رہا ہے، وہاں کی مقدس پارلیمنٹ پہ حملے ہوتے اور ان حملوں میں ہوتی تباہی دکھائی جا رہی ہے، وہاں کے صدور کو اغوا ہوتے یا مرتے دکھایا جا رہا ہے، وہاں کے ایٹم بموں کو چوری ہوتے پھر اپنی ایجنسیوں کی قابلیت اور مہارت کو ثابت کرنے کی خاطر ان کو بازیاب ہوتے دکھایا جا رہا ہے، وہاں دکھایا جا رہا ہے کہ کس طرح مریخ پہ پھنسے ایک سائنسدان کو واپس لایا جا سکتا ہے، مستقبل میں سفر کیا جا سکتا ہے یا نہیں، کیا ماضی میں جا کر غلطیاں سدھاری جا سکتی ہیں تا کہ مستقبل میں بحرانوں سے بچا جا سکے، اور آپ ہمیں آج بھی وہی دو جمع دو چار کر کے دکھا رہے ہیں جو سلطان راہی مرحوم کیا کرتے تھے۔

ہم اگر بالی ووڈ کی طرف رخ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پی کے، او مائی گاڈ اور اس جیسی دوسری فلمیں بنا کر وہاں کے اکثریتی مذاہب کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مذاہب کے ٹھیکیداروں کو طنز کی نوک شمشیر پہ رکھا جا رہا ہے، وہاں کے بیورو کریٹس، ٹیکنو کریٹس، اسٹیبلشمنٹ، صحافیوں اور سیاستدانوں کی کرپشن کی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں، سیاستدانوں، ملاؤں، پنڈتوں، افسروں، ہرکاروں، آقاؤں، غلاموں وغیرہ وغیرہ کے جھوٹ، بے ایمانی اور بد عنوانی کو بے نقاب کیا جا رہا ہے اور آپ آج بھی سرکاری ٹی وی کے مشہور زمانہ ڈرامے کے متنازعہ ڈائیلاگ کے مطابق ”کالی داس کتا ہے“ دکھا رہے ہیں۔ ؟

ایک طرف تو آپ ادارے کے سربراہ کا اتنا طاقتور تعارف پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف جس اداکار کو اس ادارے کا سربراہ بنا کر پیش کر رہے ہیں نہ تو اس کے لہجے میں وہ رعب ہے جس کی آپ نے تعریف کی ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں اتنی جان یا طوالت ہے جس کو آپ لیڈ اداکاروں کی زبانی بیان فرما چکے ہیں۔ سرکاری ٹی وی پر چلنے والے یا بھارتی ٹی وی چینلز پر چلنے والے ساس بہو کے جھگڑوں پر مبنی ڈرامے دیکھنے والی دیہاتی خواتین تو اس قسم کے تعارف سے مرعوب ہو سکتی ہیں مگر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں اور دنیا بھر کی ویب سیریز دیکھنے والے شائقین اس خامی کو چٹکیوں میں پکڑ لیں گے۔

عاشر عظیم نے ”مالک“ نامی فلم بنائی تھی مگر عاشر عظیم اور ان کی فلم کا جو حشر ہوا وہ بھی سب نے دیکھا۔ فلم پاکستان میں پابندیوں کا شکار ہوئی، نتیجتاً عاشر عظیم کو ملک چھوڑنا پڑا اور آج وہ بیرون ملک ٹرک چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا جتنا پروپیگنڈا طاقتور اداروں کی ساکھ بچانے، سیاستدانوں کی کرپشن کو تحفظ دینے اور اپنی کمائی کرنے کے لیے کرتا ہے اگر اتنا ہی محنت عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کرے تو شاید عاشر عظیم جیسے لوگوں کو ملک نہ چھوڑنا پڑے اور پاکستانی شائقین کو کچھ معیاری اور حقیقت پر مبنی مواد دیکھنے کو ملے۔ ساتھ ہی پاکستان میں بدعنوانی اور مخصوص قسم کے ٹولے کا شاہی راج ختم ہونے یا کم ہونے میں بھی مدد ملے۔

آخر میں والٹیئر کا قول ایک بار پھر دہراؤں گا کہ ”اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تم کس کے غلام ہو تو یہ دیکھو کہ تم کس پر تنقید نہیں کر سکتے۔“

تعریفیں تو بہت ہو گئیں، اب ایک ذرا منفی پہلوؤں کو بھی پردہ سیمیں کی زینت بنائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments