معاہدے سے متعلق چند سوالات


حکومت کی نا اہلی و نالائقی بارے پہلے ہی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا تھا مگر اب تو ریاستی اہلیت پر بھی بہت سے سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ وزیراعظم صاحب اٹھتے بیٹھتے ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں کوئی بتائے کیا ریاست مدینہ ایسے معاہدے کرتی ہے جس پر عمل نہیں ہو سکتا اور بعد ازاں جنہیں توڑنا پڑتا ہے۔ سب جانتے تھے وقتی طور پر آنکھ موند لینے سے یہ بلا ٹلنے والی نہیں۔ ہر درد مند اور ذی شعور دہائی دے رہا تھا کہ یہ معاہدہ قابل عمل ہی نہیں آج نہیں تو کل معاہدے کی خلاف ورزی کے نام پر پھر وہی سب کچھ ہو گا جو اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا۔

پھر ہوا بھی وہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے بڑے شہروں سے جتھے نکلے اور جی ٹی روڈ پر قابض ہو کر دارالحکومت کی طرف نکل پڑے۔ جس طرح ہمیشہ کی طرح احتجاج کرنے والوں کے پاس کوئی جائز مطالبہ نہیں تھا اسی طرح حکومت اور ریاست کے پاس بھی کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ احتجاج روکنے اور حالات قابو کرنے کے نام پر تمام قابل ذکر شہروں کے خارجی و داخلی راستوں کو حکومت نے کنٹینر رکھ کر بلاک کر دیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف عام شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات پیش آئیں بلکہ مریضوں کو ہسپتالوں تک پہنچنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی مرتبہ بھی کئی لوگ اس سرگرمی کی وجہ سے جان سے گئے تھے اور اس بار بھی بہت سے لوگ اس ہنگامے کی نذر ہو گئے۔ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تشدد سے اس بار بھی کئی پولیس اہلکار شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔

جب ملک میں یہ ہیجان برپا تھا اور پوری قوم سولی پر لٹکی تھی اس وقت حکومت کا کردار بالکل شرمناک اور مضحکہ خیز رہا۔ اس دوران کچھ وزراء مسلسل یہ بیانات دیتے رہے کہ احتجاج کرنے والی تنظیم کو بیرونی فنڈنگ اور اعانت حاصل ہے۔ بار بار یہ تڑیاں لگائی جاتی رہیں کہ آئندہ اس تنظیم کو بطور عسکریت پسند گروہ ڈیل کیا جائے گا۔ خود وزیراعظم کے حوالے سے وزراء بتاتے رہے کہ وہ مکمل یکسو ہیں کہ ریاست اور حکومت مزید کسی گروہ سے بلیک میل نہیں ہوگی اور ریاست کے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

ان بیانات کی گونج ابھی فضاؤں میں موجود تھی کہ اچانک پتا چلا حکومت اور کالعدم تنظیم کے مابین نیا معاہدہ ہو گیا ہے۔ دونوں فریقوں سے کوئی یہ رہنمائی کر دے کہ اس بار بھی اگر معاہدہ ہی کرنا تھا تو عوام کی جان و املاک داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ ماضی کے معاہدوں اور حالیہ معاہدے میں نئی بات محض یہ ہے کہ پہلے والے معاہدے سر عام ہوتے تھے لیکن یہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ اس معاہدے کے متعلق جو اطلاعات گردش میں ہیں ان کے مطابق مذکورہ تنظیم کچھ عرصے کے بعد کالعدم نہیں رہے گی جبکہ اس کے سربراہ سعد رضوی کو رہا کر دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ مذکورہ تنظیم سے تعلق رکھنے والے تمام اسیران کو بھی رہائی دے کر تنظیم کی مالی معاونت کی جائے گی۔ مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں کالعدم تحریک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے گی اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل مفتی منیب الرحمن کے مطابق معاہدے کی اس شق کو کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا کہ آج کے بعد اس تنظیم کو سیاست کی مکمل آزادی ہوگی تاہم اس کی قیادت کی طرف سے مستقبل میں دھرنا وغیرہ نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

اگرچہ اس معاہدے کی بدولت وقتی طور پر ملک میں امن و امان کا مسئلہ حل ہو گیا اور ریاست کے بیرونی تعلقات بھی خطرے میں پڑنے سے بچا لیے گئے ہیں لہذا ”ذمہ داری“ کا تقاضا ہے کہ فی الوقت سجدہ شکر ادا کیا جائے اور یہ اعتراض نہ اٹھایا جائے کہ یہی معاہدہ کرنا تھا تو دونوں فریقوں کو خون خرابہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ تاہم چند اہم سوالات ہیں جو ذہن کو پریشان کیے ہوئے ہیں اور آج نہیں تو کل یہ ضرور اٹھ کھڑے ہوں گے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آئین پاکستان ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق دیتا ہے کل کو جب مذکورہ تنظیم کالعدم نہیں رہے گی تو اسے کس بنیاد پر اپنا یہ حق استعمال کرنے سے روکا جائے گا؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر کسی اور مذہبی گروہ یا تنظیم کو حکومت یا ریاست سے کسی قسم کی شکایت پیدا ہوئی تو اس کے پاس مذکورہ تنظیم کے طرز عمل کی بدولت حاصل ہوئی کامیابیوں کی نظیر موجود ہو گی۔ اس صورت آخر وہ کیا جواز ہو گا جس کا سہارا لے کر ان کو اشتعال اور بغاوت سے روکا جائے گا؟

تیسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر کل کلاں کوئی اور گروہ جس کو حکومت کے مطابق بیرونی معاونت حاصل ہو (واضح رہے کہ راقم الحروف کو مذکورہ تنظیم کی نیت اور حب الوطنی پر کوئی شبہ نہیں اور نہ ہی یہ میرا الزام ہے ) کسی طرح ملک کی کسی اہم شاہراہ پر قابض ہو جائے تو اسی طرح اعزاز و اکرام کے ساتھ مطالبات تسلیم کر کے با عزت واپسی کا راستہ اسے فراہم کیا جائے گا؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے ذرائع ہیں جن کی معلومات پر وطن عزیز میں کسی کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ ڈیکلیئر کیا جاتا ہے اور وہ کون سا پیمانہ ہے جس کی چھلنی سے گزر کر پھر اسے حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ مل سکتا ہے؟

اس ہنگامے کی نذر ہو کر جو جانیں ضائع ہوئیں چلیں انہیں شہید کا رتبہ دے کر بات نہیں کرتے لیکن وہ جن کے بیٹے اور جن کے باپ ہوں گے ان کی زندگیاں بھی ہمیشہ کے لیے ویران ہو گئیں۔ اسی طرح جتنے روز یہ ہنگامہ برپا رہا بازاروں اور راستوں کی بندش سے کتنے ہی دیہاڑی داروں کے گھروں پر روزگار نہ ملنے کی وجہ سے فاقہ ہوا ہو گا اور ان کے بچے بھوکے سوئے ہوں گے۔ کتنے ہی غریب اپنے ماں باپ کے لیے دیہاڑی نہ لگنے کے سبب دوائی نہ خرید سکے ہوں گے اور اس وجہ سے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع سے بھی انہوں نے کھودی ہو گی۔ یہ تمام مگر عام لوگ ہیں اور معاہدے کے دونوں فریقوں کو ان کے دکھ درد کا اندازہ نہیں ہو گا۔ اس لیے سب سے آخری سوال شاید معاہدے کے دونوں فریقین کے لیے غیر اہم ہو یہ ہے کہ جو لوگ اس ہنگامے میں جان سے چلے گئے، اور جن کی روزی روٹی اتنے دن بند رہی اس کا ذمہ دار دونوں میں سے کسے قرار دیا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments